WE News:
2025-01-31@06:01:59 GMT

آخر تحریک انصاف کو کون سی امید سہارا دیے ہوئے ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

میرے صحافتی کیریئر کا بیشتر حصہ اخبارات میں گزرا، مگر اب نیوز چینلز کی خاص اہمیت ہے۔ ٹاک شوز میں ہمیں بلاتے ہیں تو انکار نہیں کرتے کہ اصل بات تو ابلاغ ہے چاہے اخبار کے قارئین سے ہو یا ٹی وی کے ناظرین سے یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کے پڑھنے اور دیکھنے والوں سے۔

پچھلے چند دنوں سے مسلسل تین، چار مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں تحریک انصاف اور حکومتی مذاکرات زیربحث رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے بارے میں مختلف آرا ملیں گی۔ کسی کے خیال میں تحریک انصاف نے یوٹرن لیا اور مذاکرات سے بھاگ گئی جبکہ اس سے مختلف رائے رکھنے والوں کے خیال میں حکومت نے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور بعض حکومتی وزرا جیسے خواجہ آصف مسلسل اپوزیشن کا تمسخر اڑاتے رہے اور ایسے غیر سنجیدہ بیانات دیے جس سے مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوا۔

یہ دونوں کیمپ مگر 2باتوں پر متفق پائے گئے، پہلا یہ کہ مذاکرات کا عمل ٹوٹنا نہیں چاہیے اور حل اسی سے نکلے گا، دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کے پاس آپشنز محدود ہیں۔
اس پس منظر میں یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا رہا کہ آخر تحریک انصاف کو کیا اور کہاں سے امید نظر آرہی ہے؟ وہ مذاکرات سے باہر نکل کر کیا پھر سے احتجاجی تحریک چلائیں گے؟ جو کہ پہلے کامیاب نہیں ہوئی تو اب کیا کرلیں گے؟

اسی سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے پاس کوئی انفارمیشن موجود نہیں، تاہم تصویر کے جتنے ایک ٹکڑے سامنے ہیں، اسے اپنے تجزیے اور قیاس کی مدد سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کی 3آپشنز

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے پاس آپشنز کم رہ گئی ہیں، خاصی کم۔ حکومت گرانے یا شہر اقتدار میں تبدیلی لانے کے 3طریقے ہوسکتے تھے۔ جوڑ توڑ کے ذریعے، حکومتی اتحادیوں کو توڑ کر تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا پھر بجٹ کے موقع پر بجٹ منظور ہی نہ ہونے دیں ، حکومت ازخود گرجائے گی۔

یہ آپشن خارج از قیاس ہے ، اس لیے کہ آج کی تحریک انصاف اور عمران خان میں اس طرح کے جوڑتوڑ کی کیپیسٹی ہی نہیں۔ جہانگیر ترین جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ تھے تو کوئی امید بن سکتی تھی یا پرویز الٰہی کے فعال ہونے کی صورت میں۔

موجودہ تحریک انصاف کے پاس ایسا گُر رکھنے والے سیاسی لوگ موجود نہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں تحریک عدم اعتماد تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے، جب اسٹیبلشمنٹ اس کی سرپرستی کرے یا کم از کم صورت میں غیر جانبدار ہوجائے اور حکومت کے سرسے دست شفقت اٹھا لیا جائے جیسا اپریل 2022 میں عمران خان حکومت کے ساتھ ہوا۔

دوسری آپشن عوامی احتجاج ہے، پاکستان میں ویسے عوامی احتجاج کے ذریعے بھی حکومتیں ختم نہیں ہوئیں۔ صرف وہی احتجاج کامیاب ہوئے جن کی درپردہ حمایت مقتدر قوتیں کررہی تھیں۔ ایسی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں عوامی قوت اور دباؤ کے تحت کسی حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے۔

تحریک انصاف پچھلے 2برسوں میں ایسی دو، تین کوششیں کرچکی ہے، ان سب کے نتائج خاصے مایوس کن ملے ہیں۔ ایسے ہر حربے کے بعد حکومت مزید مضبوط ہوئی، گو اس کی ساکھ اور اخلاقی تاثر خراب بھی ہوا۔

تیسری آپشن عدالت سے ریلیف کی صورت تھی۔ خاص کر پچھلے سال فروری کے انتخابات جس طرح ہوئے، ان کے نتائج میں جو مسائل موجود ہیں، فارم45، فارم47 کے ایشوز اور پھر الیکشن ٹریبونلز میں انتخابی عذرداری وغیرہ کے معاملات۔ ان میں عدالت سے ریلیف مل سکتا تھا۔ سپریم کورٹ میں اگر یہ معاملہ زیرسماعت ہوتا تو بہت کچھ الٹ پلٹ ہوسکتا تھا، یہ آپشن اب سرے سے ختم کی جا چکی ہے۔

26ویں آئینی ترمیم نے یہ راستہ بند کردیا ہے۔ نہ صرف یہ سپریم کورٹ بلکہ شاید اب آنے والے برسوں میں بھی ایسا نہیں ہوسکے گا۔ جب حکومت اپنی مرضی کا چیف جسٹس بنا سکے گی، جب جوڈیشل کمیشن میں حکومت کی واضح اکثریت ہو، آئینی بینچ کی سربراہی اور اس کے اراکین کا تعین بھی حکومت کے ہاتھ میں ہو تو پھر کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہوسکتا۔

تحریک انصاف کے لیے یہ آپشن کلوز ہوچکی، اگر کسی کو ذرا برابر بھی امید تھی تو جسٹس منصور علی شاہ کے حالیہ فیصلے کے ساتھ جو سلوک آئینی بینچ نے کیا، اس کے بعد معاملہ بالکل کلیئر ہوچکا۔

پارلیمنٹ کا نقشہ واضح ہے، تحریک انصاف کسی بھی صورت میں حکومتی اتحاد کے لیے خطرہ نہیں بن سکتی۔ عوامی احتجاج کے ذریعے تبدیلی بھی آوٹ آف کوئسچن ہے۔ عدلیہ سے کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ مین اسٹریم میڈیا ویسے ہی سو فی صد تحریک انصاف کی مخالف سمت میں کھڑا ہے۔

کچھ فائر وال اور کچھ پیکا آرڈیننس کے بعد سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پرقدغنیں عائد ہوجائیں گی۔ جو یوٹیوبر، ولاگرز، ٹک ٹاکر دھڑلے سے کچھ بھی کہہ دیتے تھے، اب ان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بلا دھڑکے، بے محابہ اور بلا ججھک کچھ بھی کہنے والوں کے لیے اپنے یوٹیوب چینلز، فیس بک پیجز کی رونق بحال رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ باہر بیٹھے پاکستانیوں پر یہ پابندی نہیں ہوگی، مگر فائر وال شایید ان کے پروگرام یہاں چلنے نہیں دے گی۔

تحریک انصاف کے لیے غیر ملکی دباؤ والی آپشن ویسے بھی کچھ زیادہ روشن نہیں لگ رہی تھی کہ دوست ممالک میں عمران خان کی لابی موجود نہیں، مغرب میں ہے مگر وہ حکومتی نہیں صرف عوامی سطح پر اور اسی وجہ سے فیصلہ کن ثابت نہیں ہورہی۔

امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے آنے سے امیدیں بندھی تھیں مگر یہ کام بھی آسان نہیں اور ٹرمپ نے اتنے سارے معاملات چھیڑ دیے ہیں کہ پاکستان اس کی ٹاپ ہنڈرڈ ترجیحی لسٹ میں بھی نہیں۔ ٹرمپ کے جس خصوصی ایلچی سے امید وابستہ ہوئی تھی، اس نیک بخت نے بھی اپنے ٹویٹ ڈیلیٹ کر ڈالے یا جو بھی اور وجہ ہو، بہرحال وہ اب اس موڈ میں نہیں جیسا مہینہ ڈیڑھ پہلے نظر آرہا تھا۔

تحریک انصاف کے زاویہ نظر سے یہ سب کچھ منفی، مایوس کن اور غیر تسلی بخش ہے۔ پھر ایسی صورت میں تحریک انصاف مذاکرات سے باہر کیوں نکل رہی ہے، وہ پولیٹیکل انگیجمنٹ کے ذریعے حکومت کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر معاملات حل کیوں نہیں کرنا چاہ رہی؟

یہ سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے، تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع سے جب اس بارے میں بات کی تو وہ 2وجوہات بتاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان مؤثر اور زوردار اپوزیشن کا کردار ختم نہیں کرنا چاہتے۔

انہیں اندازہ ہے کہ ان کی پارٹی دباؤ میں ہے، پارٹی رہنما اور کارکن جو سال ڈیڑھ سے جیلوں میں پڑے ہیں، ان کی ہمت بھی جواب دینے والی ہوگی ۔ ظاہر ہے وہ خود بھی 18ماہ سے جیل میں بند ہیں، اہلیہ بھی پھر سے اسیر ہوگئیں، دونوں کو سخت سزائیں مل چکی ہیں۔ ان کے بھانجے تک کو 10سال سزا سنائی جاچکی ہے۔

یہ خواہش کہ وہ جیل سے باہر آ جائیں، زندگی کچھ آسان ہو، سیاست کرنا بھی ممکن ہو اور پارٹی معاملات دیکھنا بھی، تو یہ غیر فطری نہیں، معقول اور منطقی بات ہے۔ اس کے باوجود عمران خان اس پر یکسو ہوچکے ہیں کہ جب تک ان کے دیگر پارٹی لیڈرز اور کارکنوں کی سزائیں ختم نہیں ہوتیں یا ضمانتیں نہیں ہوتیں، وہ اپنی رہائی یا اڈیالہ جیل سے بنی گالہ ہاؤس اریسٹ کرنے کی آپشن زیرغور نہیں لائیں گے۔

حکومتی وزرا پچھلے دو، تین ہفتوں میں اس کے اشارے دے چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ کس طرح بعد میں حکومتی وزرا اور رہنما اسے ان پر تنقید کے لیے استعمال کریں گے۔

تحریک انصاف کے ایک رہنما کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات کے لیے تحریری شرائط دینے میں بھی پہلے اسی لیے رکاوٹ رہی کہ پارٹی قیادت کو خدشہ تھا کہ وہ تحریری شرائط کا کاغذ ن لیگی قیادت اپنے جلسوں میں لہرا کر کہے گی کہ عمران خان این آر او مانگ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور بانی رہنما کسی بھی صورت یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ حکومت سے اپنے لیے کوئی رعایت چاہتے ہیں یا ان کی پارٹی حکومت سے کچھ مراعات کے لیے ڈیل کرلے گی۔

دوسری وجہ کی طرف ذرائع اشارہ ہی کرتے ہیں، باقاعدہ طور پر کسی کے پاس ثبوت نہیں۔ البتہ تحریک انصاف کے اندر یہ تاثر ضرور موجود ہے کہ ان کے مذاکرات مقتدر قوتوں سے چل رہے ہیں، یہ کسی نہ کسی صورت میں چلتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف پختونخوا کے وہ رہنما جن پر پارٹی کارکن تنقید کرتے یا ان سے ناخوش ہیں، ان میں سے بعض کو مبینہ طور پریہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی کے مابین پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ انگیجمنٹ کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے، اس بارے میں ابھی تک کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ سب کچھ عمران خان پر ہے۔ خان صاحب کو کچھ بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے۔ بعض اقدامات پر معذرت، معافی، آئندہ اس سے فاصلہ رکھنے کی گارنٹی وغیرہ۔ اس کے بعد بھی انہیں پلیٹ میں کچھ پیش نہیں کیا جائے گا۔ بس رکاوٹیں کچھ کم ہوجائیں گی، مشکلات دانستہ نہیں بڑھائی جائیں گی وغیرہ۔

تحریک انصاف میں عمران خان تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب یہ سال اہم قرار دے رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سال کچھ غیر معمولی، کچھ بڑا ہوسکتا ہے، الیکشن یا اس کا اعلان وغیرہ۔

تحریک انصاف اسی لیے جارحانہ اپوزیشن کا کردار ترک نہیں کرنا چاہتی۔ وہ ڈیل کرے گی نہ خود کو مراعات لینے کا خواہش مند ظاہر کرے گی۔ اپنی مظلومیت کا تاثر وہ قائم رکھے گی کہ اسی کا انہیں پچھلے سال فروری کے الیکشن میں فائدہ ہوا تھا۔

عمران خان البتہ اب اپوزیشن کے بڑے الائنس کی طرف جا رہے ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے، بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں اور مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ ملا کر مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی طرف۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کسی بھی قسم کے مذاکرات میں دیگر اہم اپوزیشن جماعتوں کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے تاکہ بہتر بارگیننگ ہوسکے۔

اب یہ سب ہوسکتا ہے یا نہیں، جزوی کامیابی ملتی ہے یا ناکامی، اس سب کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ بظاہر نظر یہ آ رہا ہے کہ رمضان کے بعد سیاسی جوڑ توڑ تیز ہوں گے اور سیاسی ٹمپریچر بھی کچھ بڑھے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے موجود نہیں اپوزیشن کا میں حکومت میں تحریک کا کردار کے ذریعے کے ساتھ رہے ہیں کے بعد رہا ہے کے پاس

پڑھیں:

پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل سےنکل کرغیرسیاسی سوچ کامظاہرہ کیا، عرفان صدیقی

اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے  سینیٹرعرفان صدیقی  کا کہنا ہےکہ تحریک انصاف (   پی ٹی آئی) نے مذاکراتی عمل سےنکل کرغیرسیاسی سوچ کامظاہرہ کیا،پی ٹی آئی نےمطالبات کےحوالےسےموقع ضائع کیا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما ن لیگ نے کہاکہ  پی ٹی آئی نے وزیراعظم کی پیشکش کو مسترد کرکے اپنا نقصان کیا ہے، پی ٹی آئی کے  دھرنےاورلانگ مارچ انہیں منزل تک نہیں لےکرجائیں گے،  پی ٹی آئی کا مذاکرات سے بھاگنا بہت بڑا نقصان ہے۔

خیال رہے کہ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو دوبارہ مذاکرات کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے مذاکرات کی آفر کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت کے خلاف چارج شیٹ بہت لمبی ہے، وزیراعظم کی آفرکوقبول نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی مذاکرات ، وزیراعظم کی تحریک انصاف کو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش
  • پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل سےنکل کرغیرسیاسی سوچ کامظاہرہ کیا، عرفان صدیقی
  • شہباز شریف کا بیان مطالبات سے ہٹ کر ہے، پیشکش قبول نہیں کی جا سکتی، پی ٹی آئی
  • تحریک انصاف نے مذاکرات کی آفرکو مسترد کردیا
  • پی ٹی آئی سے مذاکرات، حکومتی کمیٹی کے مستقبل کافیصلہ نہ ہوسکا
  • پی ٹی آئی کیساتھ مذاکرات کیلئے قائم کمیٹی کا مستقبل کیا سپیکر، حکومت شش و پنج کا شکار
  • پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کا مستقبل کیا؟ اسپیکر، حکومت شش و پنج کا شکار
  • مذاکرات کاباضابطہ’’دی اینڈ‘‘فیصل سلیم کامشکوک کردار
  • تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی آج مذکرات کی چوتھی نشست کے لیے نہیں آئی.ایازصادق