WE News:
2025-04-15@11:18:23 GMT

آخر تحریک انصاف کو کون سی امید سہارا دیے ہوئے ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

میرے صحافتی کیریئر کا بیشتر حصہ اخبارات میں گزرا، مگر اب نیوز چینلز کی خاص اہمیت ہے۔ ٹاک شوز میں ہمیں بلاتے ہیں تو انکار نہیں کرتے کہ اصل بات تو ابلاغ ہے چاہے اخبار کے قارئین سے ہو یا ٹی وی کے ناظرین سے یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کے پڑھنے اور دیکھنے والوں سے۔

پچھلے چند دنوں سے مسلسل تین، چار مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں تحریک انصاف اور حکومتی مذاکرات زیربحث رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے بارے میں مختلف آرا ملیں گی۔ کسی کے خیال میں تحریک انصاف نے یوٹرن لیا اور مذاکرات سے بھاگ گئی جبکہ اس سے مختلف رائے رکھنے والوں کے خیال میں حکومت نے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور بعض حکومتی وزرا جیسے خواجہ آصف مسلسل اپوزیشن کا تمسخر اڑاتے رہے اور ایسے غیر سنجیدہ بیانات دیے جس سے مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوا۔

یہ دونوں کیمپ مگر 2باتوں پر متفق پائے گئے، پہلا یہ کہ مذاکرات کا عمل ٹوٹنا نہیں چاہیے اور حل اسی سے نکلے گا، دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کے پاس آپشنز محدود ہیں۔
اس پس منظر میں یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا رہا کہ آخر تحریک انصاف کو کیا اور کہاں سے امید نظر آرہی ہے؟ وہ مذاکرات سے باہر نکل کر کیا پھر سے احتجاجی تحریک چلائیں گے؟ جو کہ پہلے کامیاب نہیں ہوئی تو اب کیا کرلیں گے؟

اسی سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے پاس کوئی انفارمیشن موجود نہیں، تاہم تصویر کے جتنے ایک ٹکڑے سامنے ہیں، اسے اپنے تجزیے اور قیاس کی مدد سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کی 3آپشنز

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے پاس آپشنز کم رہ گئی ہیں، خاصی کم۔ حکومت گرانے یا شہر اقتدار میں تبدیلی لانے کے 3طریقے ہوسکتے تھے۔ جوڑ توڑ کے ذریعے، حکومتی اتحادیوں کو توڑ کر تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا پھر بجٹ کے موقع پر بجٹ منظور ہی نہ ہونے دیں ، حکومت ازخود گرجائے گی۔

یہ آپشن خارج از قیاس ہے ، اس لیے کہ آج کی تحریک انصاف اور عمران خان میں اس طرح کے جوڑتوڑ کی کیپیسٹی ہی نہیں۔ جہانگیر ترین جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ تھے تو کوئی امید بن سکتی تھی یا پرویز الٰہی کے فعال ہونے کی صورت میں۔

موجودہ تحریک انصاف کے پاس ایسا گُر رکھنے والے سیاسی لوگ موجود نہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں تحریک عدم اعتماد تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے، جب اسٹیبلشمنٹ اس کی سرپرستی کرے یا کم از کم صورت میں غیر جانبدار ہوجائے اور حکومت کے سرسے دست شفقت اٹھا لیا جائے جیسا اپریل 2022 میں عمران خان حکومت کے ساتھ ہوا۔

دوسری آپشن عوامی احتجاج ہے، پاکستان میں ویسے عوامی احتجاج کے ذریعے بھی حکومتیں ختم نہیں ہوئیں۔ صرف وہی احتجاج کامیاب ہوئے جن کی درپردہ حمایت مقتدر قوتیں کررہی تھیں۔ ایسی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں عوامی قوت اور دباؤ کے تحت کسی حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے۔

تحریک انصاف پچھلے 2برسوں میں ایسی دو، تین کوششیں کرچکی ہے، ان سب کے نتائج خاصے مایوس کن ملے ہیں۔ ایسے ہر حربے کے بعد حکومت مزید مضبوط ہوئی، گو اس کی ساکھ اور اخلاقی تاثر خراب بھی ہوا۔

تیسری آپشن عدالت سے ریلیف کی صورت تھی۔ خاص کر پچھلے سال فروری کے انتخابات جس طرح ہوئے، ان کے نتائج میں جو مسائل موجود ہیں، فارم45، فارم47 کے ایشوز اور پھر الیکشن ٹریبونلز میں انتخابی عذرداری وغیرہ کے معاملات۔ ان میں عدالت سے ریلیف مل سکتا تھا۔ سپریم کورٹ میں اگر یہ معاملہ زیرسماعت ہوتا تو بہت کچھ الٹ پلٹ ہوسکتا تھا، یہ آپشن اب سرے سے ختم کی جا چکی ہے۔

26ویں آئینی ترمیم نے یہ راستہ بند کردیا ہے۔ نہ صرف یہ سپریم کورٹ بلکہ شاید اب آنے والے برسوں میں بھی ایسا نہیں ہوسکے گا۔ جب حکومت اپنی مرضی کا چیف جسٹس بنا سکے گی، جب جوڈیشل کمیشن میں حکومت کی واضح اکثریت ہو، آئینی بینچ کی سربراہی اور اس کے اراکین کا تعین بھی حکومت کے ہاتھ میں ہو تو پھر کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہوسکتا۔

تحریک انصاف کے لیے یہ آپشن کلوز ہوچکی، اگر کسی کو ذرا برابر بھی امید تھی تو جسٹس منصور علی شاہ کے حالیہ فیصلے کے ساتھ جو سلوک آئینی بینچ نے کیا، اس کے بعد معاملہ بالکل کلیئر ہوچکا۔

پارلیمنٹ کا نقشہ واضح ہے، تحریک انصاف کسی بھی صورت میں حکومتی اتحاد کے لیے خطرہ نہیں بن سکتی۔ عوامی احتجاج کے ذریعے تبدیلی بھی آوٹ آف کوئسچن ہے۔ عدلیہ سے کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ مین اسٹریم میڈیا ویسے ہی سو فی صد تحریک انصاف کی مخالف سمت میں کھڑا ہے۔

کچھ فائر وال اور کچھ پیکا آرڈیننس کے بعد سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پرقدغنیں عائد ہوجائیں گی۔ جو یوٹیوبر، ولاگرز، ٹک ٹاکر دھڑلے سے کچھ بھی کہہ دیتے تھے، اب ان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بلا دھڑکے، بے محابہ اور بلا ججھک کچھ بھی کہنے والوں کے لیے اپنے یوٹیوب چینلز، فیس بک پیجز کی رونق بحال رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ باہر بیٹھے پاکستانیوں پر یہ پابندی نہیں ہوگی، مگر فائر وال شایید ان کے پروگرام یہاں چلنے نہیں دے گی۔

تحریک انصاف کے لیے غیر ملکی دباؤ والی آپشن ویسے بھی کچھ زیادہ روشن نہیں لگ رہی تھی کہ دوست ممالک میں عمران خان کی لابی موجود نہیں، مغرب میں ہے مگر وہ حکومتی نہیں صرف عوامی سطح پر اور اسی وجہ سے فیصلہ کن ثابت نہیں ہورہی۔

امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے آنے سے امیدیں بندھی تھیں مگر یہ کام بھی آسان نہیں اور ٹرمپ نے اتنے سارے معاملات چھیڑ دیے ہیں کہ پاکستان اس کی ٹاپ ہنڈرڈ ترجیحی لسٹ میں بھی نہیں۔ ٹرمپ کے جس خصوصی ایلچی سے امید وابستہ ہوئی تھی، اس نیک بخت نے بھی اپنے ٹویٹ ڈیلیٹ کر ڈالے یا جو بھی اور وجہ ہو، بہرحال وہ اب اس موڈ میں نہیں جیسا مہینہ ڈیڑھ پہلے نظر آرہا تھا۔

تحریک انصاف کے زاویہ نظر سے یہ سب کچھ منفی، مایوس کن اور غیر تسلی بخش ہے۔ پھر ایسی صورت میں تحریک انصاف مذاکرات سے باہر کیوں نکل رہی ہے، وہ پولیٹیکل انگیجمنٹ کے ذریعے حکومت کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر معاملات حل کیوں نہیں کرنا چاہ رہی؟

یہ سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے، تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع سے جب اس بارے میں بات کی تو وہ 2وجوہات بتاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان مؤثر اور زوردار اپوزیشن کا کردار ختم نہیں کرنا چاہتے۔

انہیں اندازہ ہے کہ ان کی پارٹی دباؤ میں ہے، پارٹی رہنما اور کارکن جو سال ڈیڑھ سے جیلوں میں پڑے ہیں، ان کی ہمت بھی جواب دینے والی ہوگی ۔ ظاہر ہے وہ خود بھی 18ماہ سے جیل میں بند ہیں، اہلیہ بھی پھر سے اسیر ہوگئیں، دونوں کو سخت سزائیں مل چکی ہیں۔ ان کے بھانجے تک کو 10سال سزا سنائی جاچکی ہے۔

یہ خواہش کہ وہ جیل سے باہر آ جائیں، زندگی کچھ آسان ہو، سیاست کرنا بھی ممکن ہو اور پارٹی معاملات دیکھنا بھی، تو یہ غیر فطری نہیں، معقول اور منطقی بات ہے۔ اس کے باوجود عمران خان اس پر یکسو ہوچکے ہیں کہ جب تک ان کے دیگر پارٹی لیڈرز اور کارکنوں کی سزائیں ختم نہیں ہوتیں یا ضمانتیں نہیں ہوتیں، وہ اپنی رہائی یا اڈیالہ جیل سے بنی گالہ ہاؤس اریسٹ کرنے کی آپشن زیرغور نہیں لائیں گے۔

حکومتی وزرا پچھلے دو، تین ہفتوں میں اس کے اشارے دے چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ کس طرح بعد میں حکومتی وزرا اور رہنما اسے ان پر تنقید کے لیے استعمال کریں گے۔

تحریک انصاف کے ایک رہنما کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات کے لیے تحریری شرائط دینے میں بھی پہلے اسی لیے رکاوٹ رہی کہ پارٹی قیادت کو خدشہ تھا کہ وہ تحریری شرائط کا کاغذ ن لیگی قیادت اپنے جلسوں میں لہرا کر کہے گی کہ عمران خان این آر او مانگ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور بانی رہنما کسی بھی صورت یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ حکومت سے اپنے لیے کوئی رعایت چاہتے ہیں یا ان کی پارٹی حکومت سے کچھ مراعات کے لیے ڈیل کرلے گی۔

دوسری وجہ کی طرف ذرائع اشارہ ہی کرتے ہیں، باقاعدہ طور پر کسی کے پاس ثبوت نہیں۔ البتہ تحریک انصاف کے اندر یہ تاثر ضرور موجود ہے کہ ان کے مذاکرات مقتدر قوتوں سے چل رہے ہیں، یہ کسی نہ کسی صورت میں چلتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف پختونخوا کے وہ رہنما جن پر پارٹی کارکن تنقید کرتے یا ان سے ناخوش ہیں، ان میں سے بعض کو مبینہ طور پریہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی کے مابین پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ انگیجمنٹ کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے، اس بارے میں ابھی تک کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ سب کچھ عمران خان پر ہے۔ خان صاحب کو کچھ بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے۔ بعض اقدامات پر معذرت، معافی، آئندہ اس سے فاصلہ رکھنے کی گارنٹی وغیرہ۔ اس کے بعد بھی انہیں پلیٹ میں کچھ پیش نہیں کیا جائے گا۔ بس رکاوٹیں کچھ کم ہوجائیں گی، مشکلات دانستہ نہیں بڑھائی جائیں گی وغیرہ۔

تحریک انصاف میں عمران خان تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب یہ سال اہم قرار دے رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سال کچھ غیر معمولی، کچھ بڑا ہوسکتا ہے، الیکشن یا اس کا اعلان وغیرہ۔

تحریک انصاف اسی لیے جارحانہ اپوزیشن کا کردار ترک نہیں کرنا چاہتی۔ وہ ڈیل کرے گی نہ خود کو مراعات لینے کا خواہش مند ظاہر کرے گی۔ اپنی مظلومیت کا تاثر وہ قائم رکھے گی کہ اسی کا انہیں پچھلے سال فروری کے الیکشن میں فائدہ ہوا تھا۔

عمران خان البتہ اب اپوزیشن کے بڑے الائنس کی طرف جا رہے ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے، بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں اور مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ ملا کر مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی طرف۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کسی بھی قسم کے مذاکرات میں دیگر اہم اپوزیشن جماعتوں کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے تاکہ بہتر بارگیننگ ہوسکے۔

اب یہ سب ہوسکتا ہے یا نہیں، جزوی کامیابی ملتی ہے یا ناکامی، اس سب کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ بظاہر نظر یہ آ رہا ہے کہ رمضان کے بعد سیاسی جوڑ توڑ تیز ہوں گے اور سیاسی ٹمپریچر بھی کچھ بڑھے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے موجود نہیں اپوزیشن کا میں حکومت میں تحریک کا کردار کے ذریعے کے ساتھ رہے ہیں کے بعد رہا ہے کے پاس

پڑھیں:

بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک

ریاض احمدچودھری

آل انڈیا انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے7جولائی تک پورے بھارت میں ”وقف بچاؤ”مہم کا اعلان کیا ہے۔ بورڈ کے صدر مولاناخالد سیف اللہ رحمانی، جنرل سیکرٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی اور کنوینر مجلس عمل برائے اوقاف ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے اپنے مشترکہ بیان میں مودی حکومت کی طرف سے منظور کردہ وقف ترمیمی قانون کی شدید مذمت کی اور اسے غیر آئینی قرار دیا۔ بورڈ نے سپریم کورٹ میں بھی مذکورہ قانون کی چیلنج کیا ہے۔ بورڈ نے وقف بچاؤ مہم کے پہلے مرحلے کا آج سے آغاز کردیا۔پہلے مرحلے کے احتجاج کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد دوسرے مرحلے کا اعلان کیا جائیگا۔ بورڈ نے واضح کیا ہے کہ یہ مہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر چلائی جائے گی۔ مہم میں سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائیگا۔ مہم کے دوران تحفظ اوقات ریلیاں بھی نکالی جائینگی۔ 22اپریل کو دلی کے کال کنورا سٹیڈیم سے ریلی نکالی جائیگی۔ مہم کا اختتام 7جولائی کو دلی کے رام لیلا میدان میں ہوگا۔ ہر شہر میں ایک جلسہ منعقد کیا جائیگا۔ ریاستی سطح پر کسی بڑے شہر میں احتجاج کیا جائیگا، دھرنے دئیے جائینگے اور گرفتاریاں پیش کی جائینگے۔11اپریل سے 18اپریل تک تحفظ اوقاف ہفتہ منایا جائیگا۔ہر جمعہ کے روز نماز سے قبل انسانی زنجیریں بنائی جائیں گی۔30اپریل کو عوام سے اپیل کی جائیگی وہ 9بجے شب بطور احتجاج نصف گھنٹے تک بجلی کو گل رکھیں۔ بورڈ نے احتجاج اور مظاہروں کے دوران اشتعال انگیز نعروں سے گریز کی ہدایت کی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما اور متحدہ مجلس علماء (ایم ایم یو) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے بارے میں مجلس کے اہم اجلاس پر پابندی کے قابض انتظامیہ کے اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔میر واعظ عمر فاروق نے نئی دہلی کے غیر جمہوری اقدام پر ”ایکس”پر اپنے ردعمل میں کہا”مسلم مذہبی رہنماؤں کوکمیونٹی کے لیے سنگین تشویش کے معاملات پر غور وخوض سے روکنا انتہائی افسوسناک اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔”ایم ایم یو نے انتظامیہ کی قدغنوں کے باوجود فیصلہ کیا ہے کہ متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے (آج) مقبوضہ علاقے کی مساجد میں ایک قرارداد عوام کے سامنے رکھی جائیگییکٹ کے بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی نے کہا ہے کہ انکی حکومت متنازعہ وقف ترمیمی قانون کو ریاست میں نافذ نہیں کریگی ۔ احساس ہے کہ وقف ترمیمی قانون سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ریاستی حکومت عوام کو اس قانون کی وجہ سے ہرگز بٹنے نہیں دے گی۔
یاد رہے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل کو محض 14 ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔ جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے کہا کہ بل میں 572 ترامیم کی تجاویز پیش کی گئیں جن میں سے 44 ترامیم پر بحث ہوئی اور اکثریت کی بنیاد پر کمیٹی نے این ڈی اے اراکین کی 14 ترامیم کو منظور کیا۔ اپوزیشن ارکان کی تمام مجوزہ ترامیم کو ووٹنگ کے دوران 10 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ جے پی سی چیئرمین پال اب فائنل ڈرافٹ کی منظوری کے بعد لوک سبھا اسپیکر سے ترمیم شدہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی درخواست کریں گے۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور وقف جے پی سی کے صدر جگدمبیکا پال نے اس احتجاج کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کر کے غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ترمیم صرف منظم وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام کے لیے ہے لیکن کچھ لوگ اسے سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔”
آئیے دیکھتے ہیں کہ جے پی سی نے وہ کون سی ترامیم کی ہیں جنہیں مسلم تنظمیں خانہ پوری قرار دیتے ہوئے جگدمبیکا پال کے فیصلے کو تاناشاہی اور ظلم سے تعبیر کر رہی ہیں۔اب کلیکٹر نہیں سرکاری افسر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں، پہلے اس بات کا تعین کرنے کا حق ضلع کلکٹر کو دیا گیا تھا۔ لیکن جے پی سی نے اس میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔ اب کلکٹر کے بجائے ریاستی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ افسر فیصلہ کرے گا۔ جے پی سی کے چیئرمین نے کہا کہ ریاستی حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے کلکٹر کے عہدے سے اوپر کے افسر کو قانون کے مطابق انکوائری کرنے کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔” ایک طرح سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی بات ہوئی۔ کلکٹر بھی حکومت کے ماتحت افسر ہوتا ہے اور اب نامزد سینئر افسر بھی حکومت کا ہی نمائندہ ہوگا۔ یہ تو بس ہاتھ گھما کر کان پکڑنے والی بات ہوئی۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں منظور کی گئی ترامیم میں ایک ترمیم یہ ہے کہ زمین پر دعویٰ کرنے والا شخص ٹریبونل کے علاوہ ریونیو کورٹ، سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں بھی اپیل کر سکے گا۔ جب کہ وقف بورڈ کے پرانے قانون کے مطابق اگر وقف بورڈ کسی جائیداد کا دعویٰ کرتا ہے تو فریق مخالف اور دعویٰ کرنے والا شخص صرف ٹریبونل میں اپیل کر سکتا تھا۔ اب وقف ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ جب کہ پہلے کے قانون میں وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حالانکہ پال نے اس ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقف کا متولی جائیداد بیچ رہا ہے یا بے ضابطگیوں کا ارتکاب کر رہا ہے تو اب وقف کے ٹربیونل کے حکم کے خلاف سینئر عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: 9 مئی کیس، تحریکِ انصاف کے ملزمان کارکنوں پر فردِ جرم عائد نہ ہو سکی
  • مائنز منرلز بل بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر پاس نہیں ہوگا، شیخ وقاص اکرم
  • امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں
  • ٹرمپ انتظامیہ سے بانی کی رہائی میں داد رسی کی امید نہیں رکھتا، شیر افضل مروت
  • کل عمران خان سے اہل خانہ کی ملاقات کا دن ہے، سلمان اکرام راجہ کا ٹویٹ
  • بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک
  • تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا نیا لائحہ عمل: عمران خان سے ملاقات صرف منظور شدہ فہرست کے ذریعے ممکن
  • تحریک انصاف آج بھی کسی ڈیل کی متلاشی نہیں، رؤف حسن
  • سکردو، صیہونی مظالم کیخلاف تحریک بیداری کے زیر اہتمام ریلی
  • آٹھ فروری کو حقیقی نمائندوں کے بجائے جعلی قیادت مسلط کی گئی، تحریک تحفظ آئین