Jasarat News:
2025-01-31@06:17:23 GMT

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اسلام کی ایک اصطلاح ’’مسلمان‘‘ ہے۔ ایک اصطلاح ’’مومن‘‘ ہے مسلمان اور مومن کا فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک ادنیٰ درجے کا مومن ہے اور مومن ایک اعلیٰ درجے کا مسلمان۔ اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری میں مومن کا قصیدہ لکھا ہے۔ اس قصیدے کا ایک شعر ہے۔

تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

ظاہر ہے کہ اگر مومن صرف احکاماتِ الٰہی کا پابند ہے تو وہ کسی ’’شریف حکومت‘‘ یا اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کو کیسے خاطر میں لا سکتا ہے مگر پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ اقبال کے پاکستان میں پیکا ایکٹ کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ اقبال نے اسلامی معاشرے کے نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہوئے خدا سے دعا کی تھی۔

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کردے

مگر پاکستان کے جرنیل اور ان کے سیاسی کتے پاکستان میں پیکا ایکٹ کے ذریعے شاہین بچوں کے بال و پر کو کترنے اور انہیں پرواز کی صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی ریاست کے باشندے ہمیشہ احکامات الٰہی کے پابند رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے بے مثال آزادی اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں سیدنا عمرؓ سے زیادہ جلیل القدر یا تو سیدنا ابوبکرؓ تھے یا خود رسول اکرمؐ مگر سیدنا عمرؓ کی خلافت کا مشہور واقعہ ہے کہ کہیں سے چادریں آئیں اور مسلمانوں میں تقسیم ہوئیں۔ ان میں سے ایک چادر سیدنا عمرؓ کے حصے میں بھی آئی جس سے انہوں نے ایک قمیص سلوا لی۔ اعتراض کرنے والے نے بھری مجلس میں سیدنا عمرؓ سے سوال کرلیا کہ آپ کی قمیص اس چادر میں کیسے سلی اس لیے کہ آپ دراز قد ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ کے فرزند نے وضاحت کی کہ میں نے اپنی چادر سیدنا عمرؓ کو دی تھی چنانچہ دو چادروں کو ملا کر ایک قمیص سلوالی گئی۔ ظاہر ہے کہ جب اسلامی ریاست میں سیدنا عمرؓ جیسے صحابی رسول پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے تو میاں شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کی بساط ہی کیا ہے؟ لیکن حریت فکر کا معاملہ صرف سیدنا عمرؓ سے متعلق نہیں۔ امام ابوحنیفہ مسلمانوں کے سب سے بڑے فقہی مسلک کے بانی تھے۔ ان کے زمانے کا حکمران ابو جعفر منصور انہیں قاضی بنانا چاہتا تھا مگر امام حنیفہ قاضی بن کر منصور کی رائے کے مطابق فیصلے نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے قاضی بننے سے صاف انکار کردیا۔ منصور نے انکار کی پاداش میں امام ابوحنیفہ کو جیل میں ڈال دیا اور انہیں کوڑے لگوائے۔ امام ابوحنیفہ منصور کے تشدد سے شہید ہوگئے مگر انہوں نے حاکم وقت کے ناجائز احکامات کو ماننے سے انکار کردیا۔ امام مالک کے زمانے میں منصور نے عوام سے جبراً بیعت لینی شروع کی۔ امام مالک نے اس کی مخالفت کی۔ منصور نے انہیں بھی جیل میں ڈال دیا۔ امام حنبل کے زمانے میں قرآن کے مخلوق ہونے کا فتنہ پیدا ہوا۔ وقت کا حکمران چاہتا تھا کہ امام حنبل قرآن کے مخلوق ہونے کے حق میں فتویٰ دیں مگر امام حنبل نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ انہیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے خلاف اسلام معاملات کو چیلنج کیا۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو قید کردیا مگر مجدد الف ثانی اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور انہیں منوا کر چھوڑا۔

قائداعظم بانی ٔ پاکستان ہیں اور انہوں نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرکے پاکستان قائم کیا۔ قائد اعظم آزادیٔ فکر اور آزادیٔ صحافت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ ان کا مشہور زمانہ قول ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے اور جب صحافت زوال آمادہ ہوتی ہے تو قوم بھی زوال کی کھائی میں گر جاتی ہے۔ آزادیٔ فکر کے سلسلے میں قائداعظم کا وژن کیا تھا قائداعظم کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ قائداعظم نے کہا۔

’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ’’ضابطۂ حیات‘‘ پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانونؐ، پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کررکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے: ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو‘‘۔ (سبی دربار بلوچستان۔ 14 فروری 1948ء)

’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی بنیاد ہے۔ کسی بھی شخص کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ عوام الناس کے لیے انصاف اور رواداری پر اور دیانت داری کے اعلیٰ معیار پر مبنی جمہوریت، مساوات اور آزادی سے گھبرائے۔ (کراچی بار ایسوسی ایشن۔ 25 جنوری 1948ء)

قائداعظم نے مزید فرمایا۔

’’پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم نے گزشتہ دس سال سے جدوجہد کی ہے، آج اللہ کے فضل سے ایک زندہ حقیقت ہے۔ لیکن اپنے لیے ایک مملکت کی تخلیق بذاتِ خود مقصود نہ تھی بلکہ مقصود کے حصول کا ایک ذریعہ تھی۔ ہمارا نظریہ یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، ہم اپنی تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلیں پھولیں اور جہاں اسلامی معاشرتی انصاف کے اصولوں کو آزادانہ تعمیل میسر ہو‘‘۔

قائداعظم کی تقاریر کے ان اقتباسات میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مملکت پاکستان کے فیصلے باہمی ’’بحث و تمحیص‘‘ اور ’’مشوروں‘‘ سے ہوں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ملک کے دانش وروں، علما اور صحافیوں کا اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنا ہوگا بلکہ اسے ’’مفید‘‘ سمجھنا ہوگا۔ دوسرے اور تیسرے اقتباس میں قائداعظم نے آزادی اور آزاد انسانوں کی اہمیت واضح کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان آزاد انسانوں کا ملک ہے امریکا، جرنیلوں یا ان کی پیدا کردہ ’’سیاسی طوائفوں‘‘ کا ملک نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمارے جرنیلوں اور ان کی پیدا کردہ سیاسی طوائفوں نے پاکستان کو ’’غلاموں‘‘ کا ملک بنانے کی سازش کی ہے۔ جنرل ایوب دس سال تک پاکستان پر مسلط رہے اور ان دس برسوں میں انہوں نے پاکستان کی صحافت کو کالے قوانین کا پابند رکھا۔ ان دس برسوں میں جنرل ایوب کے خلاف کسی اخبار میں ایک خبر، ایک کالم اور ایک اداریہ بھی شائع نہیں ہوسکا۔ جنرل یحییٰ کے تین برس بھی پاکستان کی صحافت قید رہی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان اور فوج کے خلاف نفرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ملک ٹوٹنے والا تھا مگر ہماری صحافت قوم کو بتارہی تھی کہ سب ٹھیک ہے اور ملک کے ممتاز صحافی الطاف حسین قریشی لکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزم بہہ رہا ہے۔ سقوط ڈھاکا ہوا تو قوم حیران رہ گئی اس لیے کہ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات قوم کو بھارت پر پاکستان کی فتح کی اطلاعات دے رہے تھے۔ ان اخبارات کے مطابق پاکستانی فوج بہادری اور بے جگری سے بھارت کی فوج کا مقابلہ کررہی تھی۔ مگر اصل صورت حال یہ تھی کہ ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی والے تھے اور آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکلنے ہی والا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی صحافت کو پابند سلاسل رکھا۔ ان کے دور میں جسارت پر پابندی لگی اور اس کے مدیر اور ناشر کو جیل میں ڈالا گیا۔ دراصل بھٹو صاحب بھی جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی طرح قوم کو ’’زنخوں کی فوج‘‘ بنانا چاہتے تھے۔

جنرل ضیا الحق دس سال ملک پر مسلط رہے اور انہوں نے ان دس برسوں میں صحافیوں کو ’’ریاستی کتوں‘‘ اور ’’ضمیر فروشوں‘‘ کی فوج میں ڈھال دیا۔ میاں نواز شریف نے ملک کے بڑے بڑے صحافیوں کو خرید لیا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ہمیں خود بتایا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو کشمیر کاز آگے بڑھانے کے لیے مجیب الرحمن شامی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو نواز شریف نے قاضی صاحب سے کہا کہ ان کا نام نہ لیں۔ کیونکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں پیسے وقت پر نہ ملیں تو وہ فون کرکرکے جینا حرام کردیتے ہیں۔

اس وقت ذرائع ابلاغ پر جرنیلوں کے غلبے کا عالم یہ ہے کہ کوئی صحافی، کوئی اخبار اور کوئی چینل جنرل عاصم پر تنقید نہیں کررہا۔ جرنیلوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ذرائع ابلاغ عمران خان کا نام تک نہیں لکھتے۔ وہ انہیں ’’بانی پی ٹی آئی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پیکا ایکٹ کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو مزید غلامی میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بلاشبہ صحافیوں کی تنظیمیں اس صورت حال کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں لیکن یہ کافی نہیں۔ صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ پوری قوت سے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پالتو سیاسی کتوں کی مزاحمت کریں اور ذرائع ابلاغ کی بچی کھچی آزادی کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ذرائع ابلاغ پاکستان میں انہوں نے جیل میں کے خلاف اور ان کا ایک کے لیے ہے اور

پڑھیں:

گستاخ امام زمانہ،ملعون احسن باکسر کی مدعی مقدمہ اور وکیل کو قتل کی دھمکیاں

ذرائع نے بتایا کہ ملزم نے مدعی، وکیل اور گواہ کو صلح کرنے کی پیشکش کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ پیشکش مسترد ہونے پر ملزم نے مدعی، وکیل اور گواہ کو قتل اور مذکورہ تینوں شخصیات کے اہلخانہ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی ہے۔ ملزم مبینہ طور پر پولیس کی ملی بھگت سے جیل سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گستاخ امام زمانہ، ملعون احسن باکسر کیخلاف لاہور کے تھانہ اچھرہ میں توہین امام کرنے پر مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔ اس مقدمے کے مدعی اسد علی زلفی بلتستانی ہیں، جبکہ اس کیس کو سید اسد عباس نقوی ایڈووکیٹ پراسیکیوٹ کر رہے ہیں اور سید زین رضوی بطور گواہ کیس کا حصہ ہیں۔ ممتاز عالم دین علامہ امتیاز کاظمی کی خصوصی کاوشوں سے ملزم ملعون احسن باکسر کیخلاف مقدمہ درج کروا کر اسے پابند سلاسل کروایا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزم نے مدعی، وکیل اور گواہ کو صلح کرنے کی پیشکش کی، جسے مدعی سمیت دیگر نے مسترد کر دیا۔ پیشکش مسترد ہونے پر ملزم نے مدعی، وکیل اور گواہ کو قتل اور مذکورہ تینوں شخصیات کے اہلخانہ کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ ملزم مبینہ طور پر پولیس کی ملی بھگت سے جیل سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ اسد علی زلفی نے ملزم کی جانب سے دھمکیاں ملنے پر متعلقہ تھانے میں درخواست دیدی ہے، مگر پولیس کارروائی سے گریزاں ہے۔ اسد علی زلفی سمیت دیگر نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • حیران ہوں اشنا شاہ کی اداکاری کو کیا ہوگیا، سعدیہ امام
  • سیدنا زید بن حارثہؓ
  • گستاخ امام زمانہ،ملعون احسن باکسر کی مدعی مقدمہ اور وکیل کو قتل کی دھمکیاں
  • سعدیہ امام کو ’اے عشق جنون‘ میں اشنا شاہ کی اداکاری کیوں پسند نہیں آئی؟
  • گستاخ امام زمانہ کی عدم گرفتاری کیخلاف کل بلتستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کا اعلان
  • توہین امام زمانہ کیخلاف استور میں تیسرے روز بھی دھرنا جاری
  • کے الیکٹرک کو رات کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا پابند بنایا جائے ‘ محمد فاروق
  • امام زمانہ کی شان میں گستاخی کیخلاف استور میں دوسرے روز بھی دھرنا
  • گستاخ امام مہدی کو گرفتار نہ کیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے، سید علی رضوی