Jasarat News:
2025-01-31@05:52:51 GMT

بھارتی فوج بطور قبضہ گیر قوت: تاریخ کے آئینے میں

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

بھارتی فوج بطور قبضہ گیر قوت: تاریخ کے آئینے میں

1971ء کی جنگ، جو مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی اور بنگلا دیش کے قیام کا باعث بنی، یہ نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے بلکہ اس کے اثرات آج تک موضوع بحث ہیں۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) میں بھارتی فوج کی موجودگی اور جنگ کے اثرات پر مبنی الزامات اور مباحث کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ یہ تنازع محض پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ نہیں رہا تھا، بلکہ بھارت کی فعال شمولیت نے اسے ایک بین الاقوامی رنگ دے دیا تھا۔ اس جنگ کے دوران رونما ہونے والے سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی تغیرات نے جنوبی ایشیا کی سمت بدل کررکھ دی۔ بھارتی فوج کی مشرقی پاکستان میں موجودگی اور اس دوران مبینہ لوٹ مار اور وسائل کی مبینہ منتقلی نے اس تنازع کی پیچیدگیوں کو مزید گہرا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ بھارتی فوج تقریباً3 ماہ (3 دسمبر 1971 تا فروری 1972) تک مشرقی پاکستان میں موجود رہیں۔ بعض تاریخی حوالوں اور ذرائع کے مطابق اس دوران بھارتی فوج لوٹ مارمیں ملوث رہی۔ اس موقع پر اس نے قدرتی وسائل (لکڑی، چونا اور کوئلہ)، قیمتی دھاتوں، اور ثقافتی ورثے کو اپنے کنٹرول میں لے کر بھارت منتقل کیا۔ یقینا یہ امور نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ پاکستان، بنگلا دیش، اور بھارت کے باہمی تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشرقی پاکستان قدرتی وسائل، زراعت، اور برآمدات کے لحاظ سے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی زبردست زرعی اور برآمدی صلاحیت نے پاکستانی معیشت کو زبردست تقویت دی۔ اس وقت مشرقی پاکستان، ’’پاکستان‘‘ کی کل برآمدات کا تقریباً 60 تا 70 فی صد فراہم کرتا تھا، جن میں زیادہ تر جْوٹ (پٹ سن)، چائے، اور چاول شامل تھے۔ جبکہ چٹاگانگ بندرگاہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور پاکستان کی بڑی برآمدات یہیں سے ہوتی تھیں۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ میں جْوٹ اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کا قیام مشرقی پاکستان کی ترقی کے ایک اہم نشان تھے۔ یہی وجوہات

تھیں کہ مشرقی پاکستان اس وقت قدرتی وسائل، صنعتی ترقی، اور ثقافتی ورثے کے اعتبار سے خطے میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔

آج کا بنگلا دیش، جو اِس وقت زراعت، جوٹ، اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں عالمی شہرت رکھتا ہے، اْس وقت بھی ان شعبوں میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ بنگلا دیش دنیا میں جوٹ (پٹ سن) کا سب سے بڑا پروڈیوسر تھا اور ہے، اور اس کی جوٹ کی صنعت پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی ستون کی حیثیت رکھتی تھی۔ بھارتی فوج نے جوٹ ملوں کے آلات اور ذخائر کا ایک بڑا حصہ بھارت منتقل کیا۔ مشرقی پاکستان کی کئی فیکٹریاں، خصوصاً ٹیکسٹائل کی مشینری اور خام مال مبینہ طور پر بھارت منتقل کیا گیا تاکہ بھارتی صنعت کو فائدہ پہنچے۔ مشرقی پاکستان کے قدرتی گیس کے ذخائر جنوبی ایشیا کے خطے میں اہمیت کے حامل تھے۔ بھارتی ماہرین نے ان ذخائر کا سروے کیا اور گیس کے ذخائر سے متعلق اہم معلومات بھارت منتقل کیں۔ مشرقی پاکستان کے سیاحتی مقام سلہٹ اور دیگر علاقوں میں موجود کوئلے اور چونا پتھر کے ذخائر اہم تھے۔ بعض مؤرخین کے مطابق ان ذخائر کا ایک حصہ بھارتی کنٹرول میں چلا گیا۔ مشرقی پاکستان چاول کی پیداوار کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں سے خاص طور پر چاول اور دیگر اجناس کے ذخائر، مبینہ طور پر بھارت منتقل کیے گئے تاکہ بھارتی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ مشرقی پاکستان کی شوگر ملوں کی مشینری اور خام مال کے بھارت منتقل کیے جانے کی بھی اطلاعات موجود ہیں گندم، گنے اور دیگر زرعی پیداوار کے ذخائر بھی مبینہ طور پر بھارت منتقل کیے گئے۔ اسی طرح چٹاگانگ اور مونگلا بندرگاہوں پر موجود بحری جہازوں اور کشتیوں کو بھی بھارت لے جانے کی بات کہی گئی۔

یہ کہا جاتا ہے کی افراتفری اور انارکی کا بھرپور فائدہ اْٹھاتے ہوئے بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کی تاریخی اور ثقافتی اشیاء، جیسے کہ نوادرات، کتابیں، اور قیمتی دستاویزات کو بھارت منتقل کیا۔ اس لوٹ مار کو کئی بنگلا دیشی ذرائع اور پاکستانی تاریخ دانوں نے اجاگر کیا ہے، ان کے مطابق، بھارتی فوج کی موجودگی میں وسائل کی منتقلی ہوئی۔ لیکن بھارت کی جانب سے ان گھناؤنی حرکتوں کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق مشرقی پاکستان میں موجود قیمتی دھاتیں اور ان کے محفوظ ذخائر اور تیار شدہ مصنوعات اور مشینری کے پرزے، بھارت منتقل کیے گئے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کی فیکٹریوں میں موجود مشینری، جن میں دھاتوں کو پروسیس کرنے والے آلات شامل تھے، بھارت منتقل کیے گئے۔ سونے اور چاندی کے زیورات اور دیگرقیمتی اشیاء بھی لوٹ مار کے دوران بھارت منتقل کیں گئیں۔ بعض تاریخی مساجد، مندروں، اور مزارات سے نادر اشیاء اور قدیم نوادرات مبینہ طور پر نکالی گئیں اور بھارت منتقل کی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے مختلف مقامات، جیسے ورثائی مقامات اور عجائب گھروں، سے تاریخی مجسمے اور آرٹ کے نمونے خاص طور پر بنگلا دیش کے ہندو مندروں میں موجود سونے، چاندی اور قیمتی دھاتوں سے بنے قدیم بتوں کی منتقلی، ڈھاکا میوزیم میں موجود نادر تاریخی اشیاء، جیسے کہ سونے، چاندی، اور تانبے کے سکے، پرانی کتابیں، اور دستاویزات، کو بھارت منتقل کیا گیا اس کے علاوہ چٹاگانگ اور دیگر اہم شہروں کے نوادرات اور آرٹ کے ذخائر کی منتقلی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بنگالی زبان اور تاریخ سے متعلق اہم ادبی اور تاریخی کتب بھارت لے جائی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے حکومتی دفاتر اورآرکائیوز سے قیمتی دستاویزات، جن میں اہم سرکاری ریکارڈ شامل تھے، بھارت منتقل کیے گئے۔ مقامی امیر خاندانوں اور تجارتی مراکز سے سونے اور چاندی کے زیورات کی لوٹ مار کیں گئیں۔ مشرقی پاکستان کے بینکوں میں محفوظ سونا، چاندی، اور دیگر قیمتی ذخائر کو نکال کر بھارت لے جانے کی اطلاعات موجود ہیں۔

1971ء کے بعد پاکستانی معاشی ماہرین کے مطابق، مشرقی پاکستان کو تقریباً 30 بلین امریکی ڈالرز(1971ء) کی قدر کے مطابق کا مجموعی نقصان ہوا۔ بعض مؤرخین اور محققین کے مطابق، مشرقی پاکستان کے قدرتی وسائل، مثلاً جوٹ، قیمتی دھاتیں، اور ثقافتی ورثے کی منتقلی، بھارتی افواج کی موجودگی کے دوران ہوئی، جس کے شواہد مخصوص سیاسی بیانیوں اور دستاویزی حوالوں میں دستیاب ہیں۔ معروف پاکستانی محققین پروفیسر ریاض احمد اور ڈاکٹر سلمان حیدر، نے اپنے تجزیے میں اس مسئلے پرروشنی ڈالی ہے، جبکہ بھارتی مؤرخین جیسے رام چندر گوہا اور شیخار بندھو پادھیائے نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’’جنگی صورتحال میں افواہوں‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

دوسری جانب بھارت کا موقف ہے کہ اس نے بنگلا دیش کو جنگ کے بعد معاشی اور فوجی امداد فراہم کی اور وسائل کی لوٹ مار کا کوئی ثبوت نہیں ہے، مستزاد یہ کہ بھارت کا یہ بھی موقف ہے کہ اس نے بنگلا دیش کی آزادی کی حمایت کی اور اس کے وسائل اورثقافتی ورثے کا تحفظ کیا۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 1971ء کے جنگی حالات میں بدامنی اور افراتفری کے دوران مکتی باہنی کے تمام گروپس، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے کارکنوں سمیت مقامی اور غیر مقامی گروہوں نے بھی وسائل کی بھرپور لوٹ مار کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ نہ صرف بھارت کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے جو اس نے بنگالی عوام اور اس کے قیمتی وسائل کے ساتھ کیا بلکہ بنگلا دیش کے ابتدائی ایام میں اس کے وسائل کی قدرو قیمت اور بھارت کے مکروہ کردار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ جنگ کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام دستیاب تاریخی شواہد، تحقیقاتی رپورٹس، اور بین الاقوامی ذرائع کو غیرجانبداری کے ساتھ پرکھا جائے اور وسیع پیمانے پر غیرجانبدارنہ تحقیقات کی جائیں، اس لیے کہ یہ موضوع تینوں ممالک کے تعلقات اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے تناظر میں اپنی اہمیت برقرار رکھتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھارت منتقل کیے گئے مشرقی پاکستان کی مشرقی پاکستان کے بھارت منتقل کیا بھارت منتقل کی ثقافتی ورثے قدرتی وسائل جنوبی ایشیا اور ثقافتی بھارتی فوج بنگلا دیش کی منتقلی وسائل کی کے مطابق کے دوران کے ذخائر کہ بھارت اور دیگر ایک اہم لوٹ مار جنگ کے کا ایک اور اس

پڑھیں:

جدہ ، ٹریفک کا المناک حادثہ 9 بھارت شہری ہلاک ،متعدد زخمی

جدہ(نیوز ڈیسک) سعودی عرب کے مغربی علاقے جیزان کے قریب ایک سڑک حادثے میں 9 بھارتی شہری ہلاک ہوگئے۔ جبکہ زخمیوں کی فوری طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق جدہ میں بھارتی قونصل خانے نے ایکس پر کہا، “

ہم سعودی عرب کے مغربی علاقے جیزان کے قریب ایک سڑک حادثے میں 9 بھارتی شہریوں کے المناک موت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ قونصل خانے نے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ک

ہ جدہ میں بھارت کا قونصلیٹ جنرل مکمل تعاون فراہم کر رہا ہے اور حکام اور اہل خانہ سے رابطے میں ہے۔ہم زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے بھی دعا گو ہیں۔ جبکہ معلومات کیلئے ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا امکان

متعلقہ مضامین

  • 150 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے بولنگ ہو تو پھر فرینڈشپ کہاں؟
  • جمہوریہ کانگو میں پھنسے 75 پاکستانی روانڈا منتقل
  • جدہ ، ٹریفک کا المناک حادثہ 9 بھارت شہری ہلاک ،متعدد زخمی
  • بھارت میں خاتون نے موبائل نگل لیا؛ آپریشن کے دوران ہلاک
  • پاکستان کی "ڈرون دوڑ "میں بھارت کو زبردست شکست
  • پاکستان کی ’’ڈرون دوڑ ‘‘میں بھارت کو زبردست شکست
  • چیلنجز سے نمٹنے کیلیے 20 ارب ڈالر کا قرض ناکافی، عالمی بینک
  • داخلی سیاست پر مبنی بھارتی خارجہ پالیسی ایک بڑی کمزوری ہے
  • ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع