Jasarat News:
2025-01-31@05:49:33 GMT

پیکا ایکٹ: پیپلز پارٹی کا دہرا کردار

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

پیکا ایکٹ: پیپلز پارٹی کا دہرا کردار

وطن عزیز میں یوں تو اکثر سیاسی جماعتیں دہرے کردار کی حامل ہیں تاہم پیپلز پارٹی اس حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی نعروں کی حد تک یہ جماعت غریبوں، محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی دعوے دار ہے مگر پارٹی کا ڈھانچہ دیکھا جائے، اس کے جماعتی اور حکومتی مناصب پر براجمان شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو ہر جگہ سرمایا دار اور جاگیر دار چھائے ہوئے ملیں گے، کم وسائل شخص کسی اہم منصب پر ڈھونڈے سے نہیں ملے گا چنانچہ گزشتہ نصف سے زائد عرصہ کی پارٹی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہونے میں دیر نہیں لگے گی کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کے جاگیردار اور سرمایا دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ اسی طرح ملک میں جمہوریت کے سب سے بلند آہنگ دعوے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت ہی سے سننے کو ملتے ہیں مگر عملی کردار یہاں بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کے استثنیٰ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہر فوجی آمریت کو تقویت بھی پہنچائی ہے اور اس کے اقتدار کا حصہ بھی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے منافقانہ دہرے کردار کی متعدد دیگر مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر ان کی تفصیل میں جائے بغیر ہم پارٹی کے تازہ ترین دہرے کردار اور قول و فعل کے تضاد کو دیکھیں تو پیکا کا متنازع قانون اس کی نادر مثال ہے، جس کے بل پر دستخط کر کے صدر آصف علی زرداری نے اسے ملک کا نافذ العمل قانون بنا دیا ہے جب کہ اب تک پیپلز پارٹی اس قانون کے خلاف زبانی احتجاج کرتی اور اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دے کر ناقابل قبول قرار دیتی رہی ہے۔ ابھی چند روز قبل پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں جب پیکا ایکٹ کا معاملہ زیر غور آیا تو ارکان کی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ بل جب صدر آصف زرداری کے پاس آئے تو وہ اسے اپنے پاس روکے رکھیں اور اس پر دستخط نہ کریں۔ اجلاس میں بعض ارکان نے پارٹی چیئرمین بلاول زرداری کو یہ بھی یاد دلایا تھا کہ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں جب پیکا ایکٹ کا آغاز ہوا تھا تو بلاول زرداری خود بھی اس قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئے تھے اس لیے پارٹی کو اس بل کی منظوری میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ارکان مجلس عاملہ کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خاں اور بعض دیگر اہم رہنما بھی پیکا ایکٹ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ گورنر پنجاب کا بیان تو جمعرات کے اخبارات میں بھی چھپا ہوا ہے، جب کہ صدر زرداری بدھ کو بل پر دستخط کر چکے تھے، گورنر سردار سلیم حیدر کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر تمام صحافی برادری سراپا احتجاج ہے اس لیے حکومت کو اس بل پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ گورنر ہائوس میں پارٹی کارکنوں سے ملاقات میں گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی مظلوم طبقات کو اکیلا نہیں چھوڑے گی اور صحافیوں سمیت عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ تاہم صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ پر معمولی تاخیر بھی روا نہیں رکھی اور فوری طور پر اس پر دستخط کر کے حکومت کے موقف کی تائید و توثیق کر کے اپنے پارٹی رہنمائوں اور مرکزی مجلس عاملہ کے ارکان کے لیے شرمندگی کا وافر سامان فراہم کر دیا ہے۔ یہ البتہ الگ معاملہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں منافقت، دو عملی اور قول و فعل کے تضاد پر شرمندہ ہونے کی روایت سرے سے موجود ہی نہیں۔ پارٹی کی تاریخ ایسی باتوں سے بھری پڑی ہے اور بیانات کو نظر انداز کر کے عملی کردار دیکھا جائے تو بل کی مخالفت کے دعویدار تمام پارٹی رہنمائوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیکا ایکٹ کے حق ہی میں ووٹ دیے ہیں!!

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ پارٹی کی

پڑھیں:

ہتک عزت سے لیکر پیکا بل تک پیپلز پارٹی کی دوغلی پالیسی

لاہور:

پیپلز پارٹی کا دعویٰ کہ پیکا کے متنازع بل پر اس سے خاطر خواہ مشاورت نہیں کی گئی، حالانکہ بل کے خلاف بہت  زیادہ عوامی سطح پر احتجاج کے باوجود پارٹی نے دونوں ایوانوں میں بل کی  مکمل حمایت کی۔

ایسا لگتا ہے کہ  یہ خرگوش کا ساتھ دینے اور شکاری کے ساتھ شکار کرنے کی کوشش ہے۔ پنجاب میں ہتک عزت کے ایسے ہی ایک اور قانون  کو پاس کرانے کے دوران پارٹی نے اپنی دوغلی پالیسی کا  دوبارہ آغاز کیا۔

پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے گا،  لیکن سب نے دیکھا کہ  ایسا نہیں ہوا۔

بلاول بھٹو زرداری نے شیری رحمان جیسے خدشات کا ذکر کیا کہ اس قانون سازی کے لیے بہتر ہوتا اگر صحافیوں کی تنظیموں سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مشاورت کی جاتی، لیکن  یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیوں؟

پیپلز پارٹی نے پہلے اس قانون کی حمایت کی بل پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنی تجاویز کے ساتھ اسے واپس صوبائی اسمبلی کو بھیج سکتے ہیں۔

پی پی پی کے کئی رہنماؤں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ پارٹی قیادت اس معاملے میں اپنا موقف پہلے ہی ظاہر کر چکی ہے۔

ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مختصر جواب میں کہا کہ اس وقت پارٹی کی پوزیشن صرف عوامی مفاد تک ہے، اس اسکیم کے پیچھے اور بھی باتیں تھیں۔یہ کہہ لیں کہ  ہم اسٹیبلشمنٹ  کی بات  پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

سابق نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کفن کا کھیل کھیل رہی ہے جہاں ایک طرف وہ ن لیگ کی اتحادی بن کر حکومتی مراعات کے مزے لے رہی ہے تو دوسری طرف وہ خود کو مسلم لیگ ن  سے دور کرنے  اور مستقبل میں مرکز میں حکومت سازی کیلئے حمایت کی غرض سے  اسٹیبلشمنٹ  سے تعلقات اچھے رکھنے کی  بھی  کوشش کر رہی ہے۔

کسی بھی پارٹی کا  کوئی ویژن نہیں  اور نہ ہی  عوام میں اپنی عزت و وقارکی کوئی فکر ہے۔ سیاسی رہنما تخت پر  نیچی نظریں جمائے  بیٹھے  ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • صحافی سراپا احتجاج‘حکومت پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر نظر ثانی کرے: گورنر پنجاب
  • ٹرمپ کے خصوصی ناشتے میںشرکت کے لیے بلاول امریکا روانہ
  • صدر مملکت آصف علی زرداری نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے
  • ہتک عزت سے لیکر پیکا بل تک پیپلز پارٹی کی دوغلی پالیسی
  • صحافیوں کیساتھ ملکر پیکا ایکٹ کیخلاف سیاسی کردار ادا کرینگے، نیشنل پارٹی
  • پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ کے خلاف تمام فورمز پر آواز اٹھائے گی، گورنر پنجاب
  • جتنا سعودی عرب کے پاس تیل ہے اتنا سندھ کے پاس کوئلہ ہے، بلاول زرداری کا دعویٰ
  • ’نئی پیپلز پارٹی بننے جارہی ہے جس کی قیادت بھٹو سے زرداری خاندان میں منتقل ہوجائے گی‘
  • چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے شرجیل میمن کی ملاقات،اہم سیاسی امور پر گفتگو