Jasarat News:
2025-04-15@06:34:40 GMT

مصالحتی عدالتیں: جسٹس منصور علی شاہ کا صائب مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

مصالحتی عدالتیں: جسٹس منصور علی شاہ کا صائب مشورہ

عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ نے کراچی میں آئی بی اے میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر تنازع سیدھا عدالت میں لانے کے بجائے پہلے بات چیت اور مصالحت کی کوشش کی جانا چاہیے اگر مصالحت سے مسئلہ حل نہ ہو تب ہی عدالت کا رخ کیا جانا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 86 فی صد مقدمات ضلعی عدالتوں میں ہیں اور ان عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، ہر کیس عدالت میں لے جانے کی کوشش کے بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مقدمات میں سست روی کے تناظر میں معاملات کے حل کے لیے دیگر ذریعے استعمال ہونے چاہئیں، انصاف تک رسائی کا مطلب مسئلے کا حل سمجھا جانا چاہیے۔ حکم امتناع اور ضمانت سے معاملات حل نہیں ہوں گے، ہمارے پاس ججوں کی تعداد محدود ہے۔ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے، ہر تنازع عدالت میں جاتا ہے تاہم معاملات ثالثی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، عوام کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر آگاہی ضروری ہے اور پراسیکیوشن کورٹس میں 13 سے 14 فی صد مقدمات ہیں، عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں کے لیے 90 ججز ہیں جب کہ ہمارے پاس جج کم ہیں اور یہ تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج نے اپنے طویل عدالتی تجربہ کی روشنی میں ملک کے نظام انصاف کی خستہ حالی کے اسباب کا درست تجزیہ کیا ہے اور اس کا معقول حل بھی پیش کیا ہے، انہوں نے گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اس نہایت تکلیف دہ معاملہ کے حل کے ضمن میں منعقد کی گئی کانفرنس سے خطاب میں بھی توجہ دلائی تھی کہ عوام بیس بیس برس تک مقدمات کے لٹکے رہنے سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے موجودہ عدالتی خرابیوں سے نجات پانے کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں جن میں سے نہایت آسان، کم خرچ اور ہماری دیرینہ روایات کی روشنی میں کارگر اور قابل عمل نظام مصالحتی عدالتوں کو رواج دینا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار تمام ذہنی تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج کی بات پر توجہ دیں تاکہ عوام کو موجودہ عدالتی نظام کی سست روی، اس کے بے پناہ اخراجات اور قیمتی وقت کے ضیاع کے سبب پیش آنے والی ذہنی اذیت سے نجات مل سکے۔ مصالحتی عدالتوں یا پنچائت کا نظام ہمارے خطے میں ماضی میں رائج رہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے فریقین کو موجودہ عدالتی نظام کے مقابلے میں بہت جلد اور بھاری بھر کم اخراجات کے بغیر آسانی سے انصاف مل جاتا ہے۔ پنجایت یا مصالحتی عدالت کے ارکان چونکہ مقامی معززین ہی ہوتے ہیں اس لیے وہ فریقین سے اکثر و بیشتر شناسا اور ان کے ماضی کے کردار سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے انہیں معاملہ کے حقائق تک پہنچنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی جب کہ ہمارے رائج الوقت نظام عدل میں منصف جھوٹے سچے گواہوں کی شہادتوں، وکلا کی بحث، دلائل اور قانونی موشگافیوں میں الجھے رہتے ہیں، ان کے لیے انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا آسان نہیں ہوتا، پھر مصالحتی عدالتوں میں فریقین کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے وکلا کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ انہیں اپنا موقف مخصوص انگریزی کے بجائے اپنی قومی یا مادری زبان میں بیان کرنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی اس طرح مصالحتی عدالتی نظام ہماری معاشرتی ضروریات سے بھی ہم آہنگ ہے، سستا بھی ہے اور جلد انصاف کا بھی ضامن ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکمران جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مصالحتی عدالت منصور علی شاہ کے لیے اس لیے نہیں ا

پڑھیں:

لاہور ہائیکورٹ: ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر پولیس کیخلاف اظہار برہمی

قصور میں ڈانس پارٹی کے دوران پولیس چھاپے کےبعد گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے کی۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے آئندہ سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز کو معاونت کے لیے طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بچیوں کو ایسی جگہ پر نہیں جانا چاہیے تھا لیکن پولیس کو بھی اجازت نہیں کہ بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ عدالت ڈانس پارٹی اور منشیات کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتی، ایس ایچ او کو کیسے جرات ہوئی کہ بچیوں کی بال پیچھے کرکے وڈیو بنائیں، ایس ایچ او نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی ہے، لڑکیوں کے بال پیچھا کرکے وڈیو بنانے والی خاتون کانسٹیبل کا کیا بنا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: ڈانس پارٹی میں زہریلی شراب پی کر 2 خواتین، ایک مرد ہلاک

ڈی پی او قصور نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے صبح 5 بجے تک بیٹھ کر انکوائری کی، ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ہے، یہ ایونٹ پرائیوٹ نہیں کمرشل ایونٹ تھا، باقاعدہ ڈانس پارٹی کے لیے ٹکٹ کا ریٹ مختص کیا گیا تھا۔

جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ایسی صورتحال تھی تو مقدمہ سے تمام ملزمان ڈسچارج کیسے ہوئے، ڈی پی او  نے بتایا کہ مجسٹریٹ نے کہا تھا کہ وارنٹ آف اریسٹ سے قبل چھاپہ مارا گیا،اس لیے تمام ملزمان کو ڈسچارج کرنا پڑا۔

عدالتی استفسار پر ڈی پی او قصور نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے شراب سمیت دیگر اشیا برآمد ہوئیں، انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہوگا، منشیات کے استعمال اور قانون کے خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: کراچی غیر ملکی اسکول کی ڈانس پارٹی، نشے میں دھت 10 افراد گرفتار

پروسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کا موقف تھا کہ کسی دوسرے ملک میں ملزمان کو ایکسپوز کرنے کا قانون موجود نہیں، انہوں عدالت سے استدعا کی کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ٹک ٹاک بنانے پر پابندی لگائی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پروسیکیوٹر جنرل پنجاب پولیس چھاپے جسٹس علی ضیا باجوہ ڈانس پارٹی سید فرہاد علی شاہ قصور لاہور ہائیکورٹ وائرل وارنٹ آف اریسٹ ویڈیو

متعلقہ مضامین

  • احتجاج اور توڑپھوڑ کیس؛ عدالتی حکم کے باوجود عمران خان کو آج بھی پیش نہیں کیا جاسکا
  • چیف جسٹس سے سفیر ترکیہ ‘ ایران کی ملاقات عدالتی شعبے کو فروغ دینے پر اتفاق
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ترکیے اور ایران کے سفیروں کی ملاقات
  • چیف جسٹس سے ترکیہ اور ایران کے سفیر کی ملاقات، عدالتی شعبے میں تعلقات کوفروغ دینے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں،عدالتی اور ادارہ جاتی تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفیروں کی ملاقات، عدالتی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں
  • لاہور ہائیکورٹ: ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر پولیس کیخلاف اظہار برہمی
  • خط ملتے ہی انسداد دہشت گردی عدالتیں فوجی عدالتوں میں تبدیل ہو گئی ہیں. فواد چوہدری
  • خط ملتے ہی انسداد دہشتگردی عدالتیں فوجی عدالتوں میں تبدیل ہو گئیں، فواد چوہدری کا شکوہ