تاجر اور صنعتکار شرح سود میں کمی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دے رہے
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور بی ایم جی کے سربراہ زبیر طفیل نے جسار ت کے سوال ’’شرح سود کم ہو نے سے عوام کی معاشی حالت کیوں تبدیل نہیں ہورہی ہے؟ ‘‘ کے جواب میں کہا کہ تاجر اور صنعتکارحکومت کی جانب سے شرحِ سود میں مسلسل کمی کوعوام تک منتقل نہیں کر رہے ہیں اور سارا منافع خود اپنے پاس رکھ لیتے ہیںاور وہ اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دے رہے ہیں جس کی وجہ سے سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ثمرات عام آدمی تک کب پہنچیں گے؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا ہے، جو13سے کم ہو کر 12 فیصد تک آ گئی ہے۔ 7 ماہ میں مسلسل پانچویں مرتبہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے اس کے باوجود تاجر اور صنعتکار اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہ شرح سود کم ہونے سے حکومت پر قرضوں اور سود کی ادائیگی کا بوجھ فوری کم ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے تقریباً 1300 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔رواں مالی سال کے لیے سود کا ہدف 9 ہزار 800ارب روپے تھا جو تقریباً 18 فیصد شرح سود کے حساب سے بنایا گیا تھا، لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ ساڑھے 8ہزار ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت بھی بدلے گی؟ اس کا جواب تاجروں اور صنعتکاروں سے طلب کر نا چاہیے ۔ نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے جسار ت کے سوال کے جواب میں کہا کہ’شرح سود کم ہونے کا فائدہ عام آدمی کو اس وقت ہو گا جب افراط زر آج کے ریٹ پر مستحکم رہے۔ اس وقت افراط زر تقریباً4سے 5 فیصد ہے۔ اس کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آ رہا ہے۔ ایکسچینج ریٹ میں اضافہ نہ کرنا اور افراط زر بھی نہ بڑھانا شاید آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ ہو۔ انہوںنے کہا کہ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ تاجر اور صنعتکارحکومت کی جانب سے شرحِ سود میں مسلسل کمی کوعوام تک منتقل نہیں کر رہے ہیں اور سارا منافع خود اپنے پاس رکھ لیتے ہیںاور وہ اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دے رہے ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے جسار ت کے سوال کے جواب میں کہا کہ شرح سود کم ہونے کا مثبت اثر عام آدمی تک پہنچنے میں کم از کم 3 ماہ لگ سکتے ہیں۔ حکومت کا شرح سود 22 سے12 فیصد پر لانا بڑی کامیابی ہے۔ شرح سود اگر 11 یا 10 فیصد پر آ جائے تو یہ آئیڈیل ہے۔ 3 فیصد بینک بھی لیتا ہے۔ 14 یا 15 فیصد پر کاروبار آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بزنس کمیونٹی بلکہ عام آدمی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ کاروبار بڑھے گا تو بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کم ہونے کی وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بھی ہے۔ پچھلے سالوں میں عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے معاشی ایکٹیوٹی بڑھنے کی صورت میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ شرح سود 12 فیصد سے نیچے آنا مشکل ہے، یعنی اس کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کے امکانات کم ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ثمرات عام ا دمی تک شرح سود کم ہونے شرح سود کم ہو کے جواب میں تاجر اور رہے ہیں
پڑھیں:
شرح سود میں صرف ایک فیصد کی کے سرمایہ کاری پر منفی اثرات پڑیں گے
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید)شرح سود میں صرف ایک فیصد کمی کے سرمایہ کاری پر منفی اثرات پڑیں گے‘ 12 فیصد شرح سود پر ورکنگ کیپٹل کا حصول مہنگا ہے‘ افراط زر میں کمی کے بعدکاروبار مخالف مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا جواز نہیں تھا‘500 بیسس پوائنٹس کی کمی کر نی چاہیے تھی‘ سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لانے کے امکانات بھی کم ہوگئے۔ان خیالات کا اظہارصدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ ،کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی،سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی اورکورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’تاجربرادری نے ایک فیصد شرح سود میں کمی کو کیوں مسترد کر دیا؟‘‘ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے اور اس کے منفی اثرات سرمایہ کاری پر پڑیں گے ۔ واضح رہے کہ پہلے کی طر ح اب بھی شرح سود بنیادی افراط زر کے مقابلے
میں بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔ اس وقت حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح دسمبر2024ء میں 4.1 فیصد رہی لیکن پالیسی ریٹ کی شرح ابھی بھی صرف 12.0 فیصد تک گرائی گئی ہے اور یہ بنیادی افراط زر کے مقابلے میں 790 بیسس پوائنٹس کے پریمیم کی عکاسی کرتی ہے۔ عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ تمام صنعتوں اور شعبہ جات کے ساتھ غور و خوض کے بعد ایف پی سی سی آئی نے 500 بیسس پوائنٹس کی فوری کمی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے وژن اور اقتصادی و برآمدات کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جنوری 2025ء میں بنیادی افراط زر 3 سے 4 فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے‘ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں بھی نسبتاً مستحکم رہنے کی توقع ہے جبکہ پاکستان میں افراط زر کے دباؤ کی لہر پیدا کرنے میں تیل کی قیمتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عاطف اکرام شیخ کے مطابق پاکستان میں حکام کے پاس شرح سود میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام لوازمات موجود تھے اور غیر پیداواری اورکاروبار مخالف مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں صرف ایک فیصد کی معمولی کمی کے فیصلے کو تاجربرادری نے اس لیے مسترد کر دیا ہے کہ اس سے تاجر برادر کو شدید مایوسی ہوئی ہے ‘ اسٹیٹ بینک کا یہ اقدام موجودہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور ملکی ترقی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ناکافی ہے‘ ملک بھر میں بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروںکو اپنے درپیش مالی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں فوری مدد نہیں ملے گی۔ انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس کی وزیراعظم کے ساتھ اس خاص مسئلے پر آخری بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے شرح سود میں واضح کمی کرنے کی یقین دہانی کے باوجود اسٹیٹ بینک نے اسے 12 فیصد پر برقرار رکھا ہے جسے تاجر برادری سمجھنے سے قاصر ہے۔ احمد عظیم علوی نے کہا کہ شرح سود میں صرف ایک فیصد کمی پر شدید مایوسی اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچے گا‘یہ فیصلہ معیشت کی بحالی میں بڑی رکاوٹ ہے‘ افراط زر میں مسلسل کمی اور ملک کے بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہونے کے باوجود شرح سود میں نمایاں کمی نہ کرنا بزنس کمیونٹی میں تشویش کا باعث بن رہا ہے حالانکہ افراط زر میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود میں نمایاں کمی کرے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا جس سے یقینی طور پر سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی لانے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ جنید نقی نے کہا کہ شرح سود میں صرف ایک فیصد کی کمی سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہو ں گے‘ شرح سود کو 13سے 12فیصد کرنا کوئی کمال نہیں ہے‘پالیسی ریٹ توقعات پر پورا نہیں اُترا‘ موجودہ حالات میں جب مہنگائی کئی سالوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے، پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے تھا‘ بلند شرح سود نے صنعتوں کے لیے کام کرنا دشوار بنا دیا ہے اور پیداواری لاگت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں ملکی برآمدات اور مقامی صنعت دونوں شدید مشکلات کا شکار ہیں‘ 12 فیصد پر شرح سود ہونے کے باعث کاروباری طبقے کے لیے ورکنگ کیپٹل کا حصول اب بھی مشکل بلکہ مہنگا ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔