Jasarat News:
2025-04-17@07:50:02 GMT

سیدنا زید بن حارثہؓ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

سیدنا زیدؓ کے والد حارثہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے، جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا، ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بنی معن سے تھیں، جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی، وہ ایک مرتبہ اپنے صغیر السن بچے زیدؓ کو ساتھ لے کر اپنے میکے گئیں، اسی اثناء میں بنو قین کے سوار، جو غارت گری سے واپس آرہے تھے، اس نو نہال کو خیمہ کے سامنے سے اٹھا لائے اور غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ ستارہ اقبال بلند تھا، غلامی میں بھی سیادت مقدر تھی، حکیم بن حزام نے چارسو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی ام المومنین سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ کی خدمت میں پیش کیا، جن کی وساطت سے سرور عالمؐ کی غلامی کا شرف نصیب ہوا، جس پر ہزاروں آزادیاں اور تمام دنیا کی شہنشاہیاں قربان ہیں۔ (طبقات ابن سعد)

سیدنا زیدؓ کے والد حارثہ بن شرحبیل کو قدرۃً اپنے لخت جگر کے گم ہو جانے کا شدید غم ہوا، آنکھوں سے سیل اشک بہائے، دل آتش فراق سے بھڑک اْٹھا اور محبت پدری نے الفاظ کی رنگ آمیزی سے اس طرح رنج والم کا نقشہ کھینچا ؎ (اشعار کو اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے)
’’میں نے زید پر گریہ وزاری کی، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا ہوگیا، آیا زندہ ہے جس کی امید رکھی جائے یا اسے موت آگئی‘‘
’’خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں اگرچہ پوچھتا بھی ہوں کہ کیا تجھے نرم زمین نگل گئی یا پہاڑ کھا گیا؟‘‘
’’کاش! میں جانتا کہ آیا تیرا آنا کبھی ممکن ہے؟ پس تیرا واپس آنا ہی میرے لیے دنیا میں کافی ہے‘‘
’’آفتاب اپنے طلوع ہونے کے وقت اس کو یاد دلاتا ہے اور جب غروب کا وقت قریب آ جاتا ہے تو اس کی یاد کو پھر تازہ کر دیتا ہے‘‘
’’باد بہاری کی لپٹ اس کی یاد کو برانگیختہ کر دیتی ہے، آہ! مجھے اس پر کس قدر شدید رنج والم ہے‘‘
’’عنقریب میں اونٹ کی طرح چل کر تمام دنیا چھان ماروں گا، میں اس آوارہ گردی سے اپنی زندگی بھر نہیں تھکوں گا، یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے گا‘‘
’’یا مجھ پر موت آجائے… ہر آدمی فانی ہے، اگرچہ سراب امید سے دھوکا دے‘‘
’’میں قیس اور عَمرو دونوں کو اس کے جستجو کی وصیت کرتا ہوں اور یزید کو پھر ان کے بعد جبل کو وصیت کرتا ہوں‘‘
جبل سے مراد جبلہ بن حارثہ ہیں، جو زیدؓ کے بڑے بھائی تھے اور یزید ان کے اخیافی بھائی تھے۔
ایک سال بنی کلب کے چند آدمی حج کے خیال سے مکہ آئے تو انہوں نے اپنے یوسف گم گشتہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور یعقوب صفت باپ کا ماجرائے غم کہہ سنایا، بولے یقینا انہوں نے میری فرقت میں نوحہ خوانی کی ہوگی، تم میری طرف سے میرے خاندان والوں کو یہ اشعار سنا دینا۔
’’میں اپنی قوم کا مشتاق ہوں، گو ان سے دور ہوں، میں خانہ کعبہ میں مشعر حرام کے قریب رہتا ہوں‘‘
’’اس لیے اس غم سے باز آ جاؤ جس نے تم کوپْر الم بنا رکھا ہے اور اونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو‘‘
’’الحمد للہ کہ میں بنی معد کے ایک معزز اور اچھے خاندان میں ہوں، جو پشتہا پشت سے معزز ہے‘‘

بنی کلب کے زائروں نے واپس جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو تعجب سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وفوریاس نے یک بیک یقین نہ ہونے دیا۔ بولے: ’’رب کعبہ کی قسم! کیا میرا ہی نور نظر تھا؟‘‘ ان لوگوں نے جب تفصیل کے ساتھ حلیہ، جائے قیام اور مربی کے حالات بیان کیے تو اس وقت اپنے بھائی کعب بن شرحبیل کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف چل کھڑے ہوئے اور حضرت سرور کائناتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر بصد منت ولجاجت عرض کی: ’’اے ابن عبد اللہ! اے ابن عبد المطلب! اے اپنی قوم کے رئیس زادے! تم اہل حرم اور اس کے مجاور ہو، مصیبت زدوں کی دست گیری کرتے ہو، قیدیوں کو کھانا دیتے ہو، ہم تمہارے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو آزاد کر کے ہم کو رہین منت بنا دو، زر فدیہ جس قدر چاہو لو، ہم بیش قرار معاوضہ دینے کو تیار ہیں‘‘۔ ارشاد ہوا: ’’وہ کون ہے؟‘‘ بولے: ’’زید بن حارثہ‘‘۔ آپؐ نے زید کا نام سنا تو ایک لمحہ تفکر کے بعد فرمایا: کیا اس کے سوا کوئی اور حاجت نہیں؟ عرض کی: ’’نہیں!‘‘ فرمایا: ’’بہتر۔ زیدؓ کو بلا کر اختیار دو اگر وہ تمہیں پسند کرے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے ترجیح دے تو خدا کی قسم! میں ایسا نہیں ہوں جو اپنے ترجیح دینے والے پر کسی کو ترجیح دوں‘‘۔ حارثہ اور کعب نے اس شرط پر شکریہ کے ساتھ رضا مندی ظاہر کی۔ سیدنا زیدؓ بلائے گئے، آنحضرتؐ نے پوچھا: ’’تم ان دونوں کو پہچانتے ہو؟‘‘ عرض کی: ’’ہاں! یہ میرے ماں باپ اور چچا ہیں‘‘۔

آپؐ نے ان کے ہاتھ میں قرعہ انتخاب دے کر فرمایا: ’’میں کون ہوں؟ اس سے تم واقف ہو، میری ہم نشینی کا حال بھی تم کو معلوم ہے، اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو‘‘۔ سیدنا زیدؓ کو شہنشاہ کونین کی غلامی میں جو لطف ملا تھا اس پر صدہا آزادیاں نثار تھیں۔ بولے: ’’میں ایسا نہیں ہوں جو حضورؐ پر کسی کو ترجیح دوں، آپؐ ہی میرے ماں باپ ہیں‘‘۔ زیدؓ کی اس مخلصانہ وفا شعاری نے ان کے باپ اور چچا کو محو حیرت کر دیا، تعجب سے بولے: زید! افسوس تم آزادی، باپ چچا اور خاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو‘‘۔ فرمایا: ’’ہاں! مجھے اس ذات پاک میں ایسے ہی محاسن نظر آئے ہیں کہ میں اس پر کسی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔

سیدنا زیدؓ نے اپنی غیر متزلزل وفا شعاری سے آقائے شفیق کے دل میں محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو مشتعل کر دیا۔ آپؐ نے خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے جا کر اعلان فرمایا کہ زید آج سے میرا فرزند ہے میں اس کا وارث ہوں گا، وہ میرا وارث ہوگا۔ اس اعلان سے ان کے باپ اور چچا کے افسردہ دل گل شگفتہ کی طرح کھل گئے، گو والد کو مفارقت گوارا نہ تھی، تاہم اپنے لخت جگر کو ایک شفیق و معزز باپ کی آغوش عاطفت میں دیکھ کر اطمینان ہوگیا اور امتنان ومسرت کے ساتھ واپس گئے۔
اس اعلان کے بعد سیدنا زیدؓ آپؐ کے انتساب کے ساتھ زید بن محمدؐ کے نام سے زبان زد عام و خاص ہوئے، یہاں تک کہ جب اسلام کا زمانہ آیا اور قرآن پاک کی الہامی زبان نے صرف اپنے نسبی آبا کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے۔ (طبقات ابن سعد)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے ساتھ

پڑھیں:

بجلی کی کڑک اور فلسطینی بچے

گزشتہ رات اچانک موسم خراب ہوگیا اور رات کے پچھلے پہر بہت زیادہ طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ اچانک بجلی کے جانے سے بہت زیادہ اندھیرا ہوگیا، اس پر افتاد کہ بہت زیادہ شور کے ساتھ بادلوں نے گرجنا شروع کردیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بہت بڑا دھماکا ہوا اور بجلی کی کڑک سے بچوں کی آنکھ کھل گئی۔

میری چھوٹی بیٹی جس کی عمر 6 سال تھی وہ میرے ساتھ ہی سوئی ہوئی تھی۔ اس بجلی کی کڑک سے وہ زورسے چیخی اور ڈر کے مارے مجھ سے لپٹ کررونے لگی۔ میں نے اسے سمجھایا اور چپ کرایا کہ بجلی بہت دور کڑکی تھی اور یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس سے آپ کو کوئی نقصان نہيں ہوگا جبکہ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔ بڑے بچے بھی اس دھماکے اور بجلی کی کڑک سے ڈر کر جاگ گئے اور ہم انھیں سمجھانے بیٹھ گئے اور پھر آہستہ آہستہ بچوں نے دوبارہ نیند لینا شروع کردی۔

لیکن نیند میری آنکھوں سے اب بہت دور جاچکی تھی اور میری آنکھوں میں اہل فلسطین اور اہل غزہ کے بچوں کی تصاویر چل رہی تھیں کہ یہ بجلی کی کڑک تو ہمارے گھر پر آج آئی ہے لیکن ان کے سروں پر تو ہر روز چمک رہی ہوتی ہے۔ ہر روز ایسی سیکڑوں آوازیں ان کے بچوں کے دل کو دہلا رہی ہوتی ہیں، ہر روز آسمان ان کے سامنے جل رہا ہوتا ہے۔ ان پر تو ہر وقت یہ افتاد آتی رہتی اور وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے پنجرے میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایئر اسٹرائیک ہر روز ہوتی ہے، ہر روز دھماکے اور شوروغل ہوتا ہے۔

آسمان کی جن فضاؤں میں ہمارے بچے رات کو تاروں کی بارات دیکھتے ہيں، رات کو چاند کی پھیلنے والی روشنی میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اہل غزہ کے بچے آسمان پر شوروغل کرتے اور دندناتے خون آشام طیاروں کی گھن گرج کو سن کر سہم جاتے ہوں گے کہ آج پتہ نہیں کون کون سے دوستوں کی جنت کی روانگی ہے اور صبح کو ان بچوں کی زندہ لاشیں اپنے شہید ہونے والے دوستوں کی کٹی پھٹی میتوں پر جاکرخاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ اسپتالوں کے مردہ خانوں میں جاکر اپنے دوستوں کی میتوں کو دیکھ کر سسکیاں بھرنے والے بچے، اپنے والدین کے ہاتھوں میں زخموں سے چھلنی بدن کے ساتھ کرب و اذیت کے ساتھ موت کو گلے لگانے والے بچے، بغیر کفن کے ملبے تلے دب کر سانس گھٹ کر شہید ہونے والے، غرض کہ جو بھی موت کی تعریف ہم کرسکتے ہیں وہ تمام کی تمام غزہ کے معصوم بچے برداشت کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس جارہے ہیں۔

ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی پیاری ماؤں کی میتیں پڑی ہوتی ہیں جبکہ پیار کرنے والے باپ بھی ان کےلیے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کے پیار کرنے والے باپ سارا دن ان کےلیے غذائی اشیاء تلاش کرنے نکلتے ہیں تو شام کو واپسی پر نہ بچے ہوتے ہیں اور نہ گھر، بس کنکروں، پتھروں اور آہن و فولاد کا کچرا پڑا ہوتا ہے، جن کو وہ ناخنوں سے کریدنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید کوئی جسم صحیح حالت میں نکال سکیں۔ اس کوشش میں چند کو تو کامیابی ملتی اور بہت سے اپنے ناخنوں اور ہاتھوں کو زخمی کرکے تھک ہار کر ’’حسبی اللہ، حسبی اللہ‘‘ کہہ کر چلاتے رہتے ہیں کہ شاید ہماری آہ و بکا سن کر کسی مردہ ضمیر حکمران کا دل پسیج جائے اور وہ اسرائیل جیسے خون آشام درندے کو لگام دینے کےلیے انسانیت کو جگادے!

میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے دوبارہ نیند آجائے اور میں سوجاؤں تاکہ صبح آفس کی حاضری یقینی ہو اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں حرج نہ ہو، لیکن نہ جانے کیوں جس طرح باہر کا موسم اور آسمان برس رہا تھا، اسی طرح میرے دل کی آنکھیں بھی برس رہی تھی۔ میرے اندر بسنے والا انسان رو رہا تھا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، چنگیز اور ہلاکو کے دور کی کہانیاں تو سن رکھی تھی لیکن انسانیت کس طرح سسک سسک کر جیتی ہے یہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

ایسے لگ رہا تھا کہ یہ بجلی کی کڑک میرے قلب پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہی ہے اور ہر کڑک کے ساتھ ایک آواز آرہی ہے وہ بھی تمھارے بچوں جیسے ہیں، ان کے بھی بہت سے ارمان ہیں، ان کا بھی دل کھیلنے اور ہنسنے کو چاہتا ہے لیکن مسلسل گرتی عمارات اور گرتی لاشیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوگئے ہیں۔

بھوک سے بلکتے ہوئے بچے، پیاس سے نڈھال بچے، زخموں سے بدن چور لیے ہوئے بچے، بغیر والدین کے یتیمی کا درد لیے ہوئے بچے، بغیر ادویات کے سسکتی ہوئی بے رحم موت کے منہ میں جانے والے بچے، زخمی ہو کر اسپتالوں میں جاکر بے ہوش کرنے والی ادویات کے بغیر زخموں کو سلائی کروانے والے بچے، ٹوٹی ہڈیوں اور کرچی کرچی جسم والے بچے، بغیر ہاتھوں اور پیروں کے اپاہج بچے، اپنے بہن بھائیوں کے جسموں کے ٹکڑوں کو کپڑوں میں اکٹھے کرنے والے بچے، اور بعض تو بغیر سر اور بغیر دھڑ کے بچے… ہائے میرے پیارے نبی کی پیاری امت کے لاوارث بچے، عرب وعجم کے حکمرانوں کے منہ پر اور انسانیت کے مردہ جسم پر لات مار کر جنتوں میں جانے والے یہ بچے کس حال میں ہیں، اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔

ہر روز ایک نئے امتحان کےلیے تیار ہونے والے بچے، لشکر فیل کی جہالت کا شکار ہوکر اپنے جسم وجان سے ہاتھ دھونے والے بچے، جدھر دیکھو ایک بے بسی ہے، ایک بے چارگی ہے، خود ہی گرتے ہیں، خود ہی سنبھلتے ہیں یہ فلسطینی بچے۔

اے آئی ٹیکنالوجی کے ظلم وستم کا شکار بچے، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں اگر دنیا میں اس وقت کوئی بھی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آئی ہے تو تمام ٹیکنالوجی غزہ کے ان معصوم جسموں پر آزمائی جاچکی ہے اور ہر طرح کی بے رحم اور انسان دشمن ٹیکنالوجی کی بے رحم موجوں کا شکار ہونے والے فلسطین کے یہ بچے ہیں، بلکہ اگر عالم کفر نے کوئی بھی انسانیت کو مجروح اور ختم کرنے والی کوئی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہوئی ہے تو وہ تمام ان معصوموں پر برسائی جاچکی ہے۔ مزید ان ایام جنگ میں بھی اگر کسی نئی انسانیت کو ختم کرنے والی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آئی ہوگی تو اس کا بھی استعمال اہل غزہ کے بھوکے پیاسے مفلوک الحال باشندوں پر کیا جاچکا ہوگا۔

آہ! میرے پیارے نبی ﷺ کی امت کا یہ وہ حصہ ہے جو مسلسل گزشتہ 77 سال سے کرب، اذیت اور اپنوں کی بے رخی اور آل یہود کے ظلم وستم کا شکار ہورہا ہے، چاروں طرف سے مقید اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، جبکہ دشمن ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ اہل غزہ کی طرف پانی کی ایک بوند اور گندم کا ایک دانہ بھی ہم نہیں جانے دیں گے۔ زخمیوں کےلیے ادویات کی بندش ہے، یہ تو وہ خبریں ہیں جو ہم تک پہنچ چکی ہیں لیکن نہ جانے کیا کیا ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، یہ تو میرا رب ہی جانتا ہے۔

آج اگر حماس والوں کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جارہا ہے تو کیا کوئی بتانے والا آئے گا کہ گزرے ہوئے 77 سال میں ان پر یہ ظلم وستم کیوں ہورہا ہے؟

آج اگر اہل اسرائیل کے گھروں پر میزائل گررہے ہیں اور وہ اس کا انتقام لے رہے ہیں تو گزشتہ 77 سال میں اہل فلسطین کیوں زیرعتاب تھے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اہل غزہ پر اپنا رحم کرے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • مہاجرین واپس اپنے وطن آجائیں اور اپنا ملک آباد کریں،افغان قونصل جنرل
  • بجلی کی کڑک اور فلسطینی بچے
  • جمہوریت اور موروثیت
  • اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک کسی کو نہیں سونپا
  • سپریم کورٹ میں ترقی پانے کے بعد بھی مسائل کا سامنا رہا، مردانہ ماحول میں جگہ بنائی، جسٹس عائشہ ملک
  • پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل
  • چین لڑنا نہیں چاہتا لیکن کسی سے ڈرتا بھی نہیں، چینی وزارت خارجہ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبات نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کےلئے سوا دو ارب ڈالر کی امداد روک دی
  • سوناکشی سنہا نے اپنے مسلم شوہر کی تضحیک کرنے والے کا دماغ درست کردیا
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ