اللہ کے بندوں کے کام آئیں !
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
زمانہ جوں جوں مادی ترقی کرتا جا رہا ہے، آپسی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ ہر انسان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہی سوچتا نظر آتا ہے کہ اس میں میرا کیا فائدہ ہے؟ اور اکثر کے نزدیک فائدے سے مراد مختصر دنیوی نفع ہے، جس کام میں انھیں کوئی نفع نظر نہیں آتا، اس میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، خواہ اس پر اللہ و رسولؐ کی جانب سے کتنے ہی ثواب کے وعدے اور بشارتیں کیوں نہ ہوں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ ہم برے وقت میں کسی کے کام نہیں آتے، حد تو یہ ہے کہ اپنے مفاد کے لیے ہم کسی کو تکلیف پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کام آنے کا معاملہ یوں ہے کہ آج کے دور میں کوئی زیادہ نرم دل ہو تو فون اور میسج پر حال چال پوچھ لیتا ہے اور بس، اب وہ لوگ نایاب ہیں جو کسی کی ضرورت کے وقت اس کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ ہاں! کسی کو مصیبت میں دیکھ کر ویڈیوز بنانے کے لیے کھڑے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہی سب سے بڑی خدمت ہے!
اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہر طالب علم جانتا ہے کہ قرآن واحادیث میں باہم تعاون، یعنی ایک دوسرے کے کام آنے کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور خود رسولؐ نے اپنے مبارک عمل سے اس کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔
پر افسوس! آج ہم مسلمانوں کو اس کی فکر نہیں! ہر آدمی اپنی زندگی میں مست ہے، نہ کسی کو کسی کے دکھ درد میں کام آنے کی فرصت ہے اور نہ اپنی طرف سے نقصان پہنچنے سے بچانے کی پرواہ۔ اصل تو یہی تھا کہ دوسروں کے کام آتے، ورنہ کم سے کم انھیں اپنے شر سے محفوظ ہی رکھتے! اس کا سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے ذہنوں سے اس کی اہمیت و حقیقت محو ہوتی جا رہی ہے۔ وہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کو تو عبادت سمجھتے ہیں، لیکن اللہ و رسول کی رضا کے لیے کسی کی خدمت، مدد، تعاون اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کو شاید عبادت اور نیکی نہیں سمجھتے یا ذہنی طور پر اسے نیکی سمجھتے بھی ہیں تو کم از کم عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔
مسلم شریف میں حدیث موجود ہے، سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دورکی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوا ہے۔ (ترمذی، مسلم) کیوں نہ ہو، جب کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ نے وحی نازل ہونے پر اپنے شوہر نام دار کی حالت غیر ہوتے ہوئے دیکھ کر آپؐ کو جن الفاظ میں ہمت بندھوائی تھی اور آپؐ کے جن اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا تھا من جملہ ان کے دوسروں کے کام آنا بھی ہے۔ وہ فرماتی ہیں: ’’اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا! آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔ (بخاری) اور باری تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے‘‘۔ (الاحزاب)
اس حدیث کو ہمیشہ ذہن و عمل میں رکھیں۔ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی لاؤ، یا اس کی تکلیف و پریشانی دور کرو، یا اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام کرو، یا اس کی بھوک کو ختم کرو اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ (کچھ وقت) چلنے کو مسجد میں دو مہینے اعتکاف کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں اور جس کسی نے اپنا غصہ روک لیا، اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو غنا سے بھر دے گا، جو کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے قدموں کو (پل صراط پر) پھسلنے (اور جہنم میں گرنے) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا اور برے اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر للالبانی)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی کے نزدیک کے کام ا کے ساتھ کے لیے گا اور
پڑھیں:
گلا تو گھونٹ دیا…!!
حکومتی خرخراہٹ سے آنے والی خبر نے ہڑ بڑا کر رکھ دیا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے گلا گھوٹنے والا متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کثرت رائے سے قومی اسمبلی سے پاس کرالیا۔ جس کے تحت جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ ترمیمی ایکٹ کا دائرہ کار ڈیجیٹل میڈیا تک محدود رکھا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے ٹریبونل ارکان تعینات کرے یہ 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ صحافیوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 جو ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے کے خلاف قرار دیا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بل کے سیکشن اے 26 میں جعلی یا جھوٹی خبروں پر زور دینا تشویشناک ہے، بل کا متن جعلی خبروں کی مناسب وضاحت فراہم نہیں کرتا ہے، مبہم نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے، ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے 4 نئی اتھارٹیز کے قیام سے غیر ضروری، غیر متناسب پابندیاں عائد ہوں گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں اپیلوں کو براہ راست عدالت عظمیٰ میں لے جانے اور ٹریبونل کے حکومتی نامزد ارکان پر مشتمل ہونا باعث تشویش ہے یہ عدالتی نگرانی کو کم اور انتظامی کنٹرول کو بڑھانے کی طرف اشارہ دیتی ہے۔ پہلے ہی بہت کچھ ریگولیٹ کیا جاچکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی
منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بل کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے تائب ہو کر قومی اسمبلی میں اس کے حق میں ووٹ دیا۔
جھوٹ، جو قرآن و سنت کی روشنی میں کبیرہ گناہ ہے، قرآن میں جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے، یہ زنا سے بھی بڑھ کر گناہ ہے جس کے فعل پر اتنی شدید وعید نہیں آئی ہے۔ سورہ البقر میں آیا ہے کہ ’’اور جو جھوٹ بولتے ہیں اس کی پاداش میں اُن کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘ قرآن میں تو یہاں تک کہا گیا کہ لگی لپٹی بات مت کہو اور سچائی سے پہلو مت بچائو، جھوٹ جس کی بدبو سے فرشتہ دور چلے جاتے ہیں۔ جھوٹ ہے کیا جو انتہائی قابل مذمت ہے لغت اس کی تشریح یوں کرتی ہے ’’کسی شخص یا گروہ کا دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا‘‘۔ جھوٹ منافق کی علامت ہے، جھوٹ اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، حکومت کا ترمیمی بل جھوٹ کے خلاف اس قدر ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ مت بولو، بس اللہ اللہ خیر سلا، اسمبلی میں جھوٹ بولو، جھوٹے وعدہ کرو، جھوٹا دلاسہ دو، جھوٹے دعوے کرو، جھوٹے من گھڑت اعداد وشمار دکھائو، سب میدان کھلے ٹھلے ہیں، تمہارے لیے سب راہیں کشادہ ہیں۔ یہ جھوٹ ہی کا خمیازہ تھا کہ ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان الگ ہوگیا، جھوٹ راگ الاپتا رہ گیا۔ سنی سنائی بات کو نمک مرچ لگانا یا ویسے ہی آگے پھیلانے کی شریعت میں ممانعت ہے کہ بغیر تصدیق کیے بات آگے مت بڑھائو‘‘۔ جس طرح سب سے قولاً سدید ہے، جب تصدیق کرنے کی شریعت بات کرتی ہے تو یہ تقاضا بھی حکمرانوں سے کرتی ہے کہ وہ بھی ’’مصدقہ‘‘ بات کرے اور جھوٹ سے دھوکا نہ دے مگر یہ ہورہا ہے کہ جب عوام الناس محسوس کرتے ہیں کہ حکمران سچ کو چھپا رہے ہیں اس پر قدغن لگارہے ہیں اور خود جھوٹ پھیلا رہے ہیں تو وہ جھوٹ کے ماہرین کے دلدل میں جا پھنستے ہیں۔
میڈیا پرسنز شپ کی پابندی کا کوڑا کل کلاں کی بات ہے، سچ گوئی کی سزا رسائل، جرائد، اخبارات کی کانٹی، چھانٹی، بندش، مدیر حضرات کو قید و بند کی سزائیں کیا جھوٹ کو پروان چڑھانے کے حکومتی اقدامات نہ تھے؟ تو کیا تھے اب جھوٹ بے قابو ہو چلا ہے اس کا راج ہو چلا ہے یہ تخت کے تلوے چاٹنے لگا ہے تو اس ترمیم کے جال میں پھانسنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ اغیار، ملک دشمن عناصر، جھوٹوں کے بادشاہ، سامراجی پٹھو، مال کے فتنہ کے شکار جھوٹ کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ ذہنوں کو مسخر کررہے ہیں تو اس کی ایک وجہ سب سے بڑی سچ کو چھپانا ہے۔ آپ سچ کو کھلا کر دیں تو پھر قرآن کے فرمان کے مطابق جب حق آتا ہے تو باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اور باطل ہے ہی بھاگ جانے والا۔ اس میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتی یہ فرمان خداوندی ہے، جھوٹ کوئی بھی بولے وہ ہر سطح پر گرفت اور قانوناً قابل تعزیر ہے۔ تو پھر اللہ کی لعنت (پھٹکار) جو اوپر سے لے کر نیچے تک برس رہی ہے جھوٹ ہر سو سکہ جما رہا ہے۔ یہ کلچر بن رہا ہے، معاشرے کو جکڑ کر حالت یہ ہوچکی کہ عدالتوں میں جھوٹ کا راج ہو چلا ہے۔ حلفیہ فریقین جھوٹ بولتے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ بھلا جب فیصلہ میں ایک فریق جھوٹ سے آلودہ ثابت ہوتا ہے تو جھوٹ کی سزا الگ سے ہوتی ہے۔ اب تو جھوٹ کی قسمیں بھی یار لوگوں نے بنا ڈالی ہیں۔ ایک سفید جھوٹ، اپنا نقصان کرکے کسی کو فائدہ پہنچایا۔ سرمئی جھوٹ، دونوں کا فائدہ بولنے اور سننے والے کا۔ سیاہ جھوٹ، دوسروں کا نقصان اپنا فائدہ۔ لال جھوٹ، میرا بھی نقصان دوسرے کا بھی نقصان۔ یعنی بے وقوفانہ، مصنوعی، خود غرضانہ، اور بدلہ، جھوٹ ہیں۔ حکومت کا فیصلہ کس جھوٹ پر سزاوار ٹھیراتا ہے۔ فیصلہ صاحب نظر کرلیں۔ کچھ لوگ یوں بھی نصیحت کرتے ہیں سچ کا بول بالا ہے جھوٹ کا منہ کالا، کہ ملک میں بے برکتی جھوٹ کی ہی بدولت ہے اور سندھی کہاوت ہے ’’سچ تہ بٹھو نچ، جھوٹ تو ہر رنگ میں حقدار لعنت ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا ’’حکومت‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ