Jasarat News:
2025-01-31@02:30:50 GMT

فلاحی اداروں کی اسلامی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

اسلام کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر زمانے میں ایسے [فلاحی] اداروں کو بڑے پیمانے پر عام کیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایسے بامقصد، منظم اور مستقل اجتماعی کاموں کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی معاشی منصوبہ بندی اور انسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے منظم کوششوں کا تفصیلی ذکر سورہ یوسف میں موجود ہے۔ اسی طرح سورہ کہف میں ذوالقرنین کا تفصیلی واقعہ موجود ہے، جنھوں نے یاجوج و ماجوج کے فتنے سے مقابلے کے لیے ستم زدہ قوم کے افراد کی رضاکارانہ خدمات کا استعمال کرکے ان کے تحفظ و سلامتی کا انتظام فرمادیا تھا۔ ان تاریخی اشاروں کے علاوہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو منظم اصلاحی و فلاحی کاموں کا متعدد جگہوں پر حکم دیا گیا ہے۔ ضرورت مندوں کی کفالت، غربا و مساکین اور یتیموں کی خبرگیری اور انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق متعدد آیات میں اجتماعی فریضے کی طرف بھی اشارے موجود ہیں۔ فقہا نے ایسی متعدد آیات سے اوقاف کے سلسلے میں استدلال کیا ہے جو ایک اجتماعی ادارہ جاتی کوشش ہے۔

سیرت نبویؐ میں بھی ادارہ جاتی فلاحی کوششوں کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد تو آپؐ نے متعدد سرکاری ادارے قائم فرمائے لیکن چونکہ ہماراموضوع رضاکارانہ سماجی اداروں سے متعلق ہے اس لیے سرکاری اداروں کی مثالوں سے ہم زیادہ تعرض نہیں کریں گے۔ لیکن سیرت نبوی میں، قیام ریاست سے قبل اور اس کے علاوہ بھی ادارہ جاتی کوششوں کی کئی مثالیں روایات میں ملتی ہیں۔ مکہ کے قبائلی نظام میں تحفظ و سلامتی اور ایک دوسرے کی خبر گیری اور تکافل باہمی کی بعض اہم ادارہ جاتی شکلیں موجود تھیں۔

خاص طور پر سیرت نگاروں نے حلف، ولاء اور جوار کے نظاموں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ حلف کے نظام میں دو قبیلے یا افراد باہم معاہدہ کرتے تھے، ولاء کے نظام میں ایک کمزور شخص کسی طاقتور کی پناہ میں آجاتا تھا اور جوار کے نظام میں لوگ عارضی طور پر ایک دوسرے کی پناہ اور تحفظ کی ضمانت لیتے تھے۔ نبی کریمؐ نے سماجی تحفظ کے ان نظاموں کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ حلف الفضول مکہ میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کی ایک بہت ہی اہم منظم اجتماعی کوشش تھی جس کی صورت گری میں آپؐ نے عین نوجوانی میں کلیدی کردار ادا فرمایا تھا۔ (السیرہ النبویہ، عبدالملک بن ہشام) اور یہ معاہدہ آپ کو بے حد عزیز تھا۔ مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کے تحفظ اور ان کی کفالت کو یقینی بنانے کے لیے آپؐ نے ’مواخاۃ‘ کا ایک بڑا مستحکم نظام قائم فرمایا تھا۔ مکی زندگی ہی میں دار ارقم کا مرکز آپ نے قائم فرمایا جو مکہ میں دعوت کا بھی مرکز تھا اور دعوت قبول کرنے والوں کی تعلیم وتربیت کا بھی۔ (ابن سعد) سب سے اہم ادارہ مسجد کا ادارہ تھا۔ یہ محض نماز گاہ نہیں تھی بلکہ ایک باقاعدہ ادارہ تھا جہاں سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو منظم بھی کیا جاتا تھا اور ان کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان بھی ہوتا۔ مکہ میں ہجرت سے قبل ہی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مکان سے متصل مسجد قائم فرمائی تھی۔ (بخاری) لیکن اس کے باوجود جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو مدینہ پہنچنے سے پہلے اپنے پڑاؤ پر قبا میں آپ نے مسجد کی تعمیر فرمائی اور پھر مدینے میں بھی مسجد کی تعمیر فرمائی۔ مدینے میں مہاجرین کی آبادکاری کا بڑا مسئلہ درپیش ہوا تو یہاں بھی آپؐ نے مواخاۃ کا نظام قائم فرمایا۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مسجد نبوی سے متصل صفہ کے چبوترے پر ایک منفرد ادارہ قائم کیا جو بیک وقت تعلیم گاہ بھی تھا اور غریب و مسکین مسلمانوں کی اجتماعی کفالت کا مرکز بھی تھا۔

اسلامی تاریخ میں ادارہ جاتی کاوشوں کا سب سے اہم اور مہتمم بالشان مظہر وقف کا نظام ہے۔ یہ انسانی تہذیب کو اسلام کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ نبی کریمؐ کے عہد ہی میں اس کی ابتدا ہوگئی تھی اور بعد میں اسلامی ملکوں میں یہ باقاعدہ سرکاری اور خانگی زمروں کے ساتھ ایک تیسرے زمرے (sector third)کے طور پر ابھرا اور حکومتوں سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر اس نے سماجی و رفاہی خدمات کو انجام دیا اور سماجی عدل اور مساوات کے اسلامی وڑن کو بروئے کار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اوقاف کے ذریعے سے بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ بیت الحکمہ جیسے علمی مراکزکا قیام عمل میں آیا۔ رفاہ عام کا کام کرنے والے اداروں نے کام شروع کیا۔ شفا خانے (بیمارستان) اور مسافر خانے (کاروان سرائے) وجود میں آئے۔ صوفیا نے بڑی بڑی خانقاہیں اور لنگر خانے قائم کیے۔ ان سب اداروں نے ایک ایسے تمدن کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی اساس توحید اور خدائے واحد کی بندگی، انسانی مساوات، عدل و قسط، کفالت باہمی اور فلاح انسانی جیسے اسلامی اصولوں پر تھی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ادارہ جاتی کے نظام تھا اور مکہ میں کے لیے اور ان

پڑھیں:

رمضان المبارک کا چاند پاکستان میں کس تاریخ کو نظر آئے گا

اسلام آباد: پاکستان میں رمضان المبارک کا چاند 28 فروری یا یکم مارچ کو نظر آئے گا، شعبان المعظم کا چاند آج نظر آگیا ہے۔شعبان المعظم کے چاند کی رویت کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہوا. جس کے بعد آج شعبان کا چاند نظر آنے کی تصدیق کی گئی، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا محمد عبدالخبیر نے اجلاس کی صدارت کی.زونل ممبران، ماہرین اور دیگر تمام مکاتب فکر کے علما کرام بھی اجلاس میں موجود تھے. اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک میں رمضان المبارک کا چاند اگلے ماہ 28 فروری یا پھر یکم مارچ کو دیکھا جائےگا۔ماہرین فلکیات کا عید کی تاریخ کے حوالے سے پیشگوئی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عیدالفطر 30 یا 31 مارچ کو منائی جاسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کھیلوں کے ساتھ فلاحی کام بھی ضروری ہیں
  • محبت کی تلاش میں کراچی آنے والی خاتون فلاحی ادارے کے ہیڈ آفس منتقل، صبح اہم پریس کانفرنس کریں گی
  • بلوچستان، سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ملامزین کی بائیومیٹرک حاضری لازمی قرار
  • رمضان المبارک کا چاند پاکستان میں کس تاریخ کو نظر آئے گا
  • سائنس فکشن فلم Interstellar کی دوبارہ ریلیز نے تاریخ رقم کر دی
  • ملک میں سونے کا بھاؤ تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
  • افغانستان پر طاغوتی قوتوں کے حملے تشویشناک ہیں،شجاع الدین
  • ملی یکجہتی سندھ کے صدر اسداللہ بھٹو کی زیر صدارت ادارہ نور حق میں کونسل کے صوبائی ذمے دارارن کا اجلاس ہورہا ہے
  • سندھ بلڈنگ ،اداروں کی سرپرستی ، ضلع وسطی میں مضبوط سسٹم قائم