شیطان کے لیے یہ بات بہت مشکل ہے کہ وہ بندہ مومن کو ایک دم کسی بڑے گناہ پر آمادہ کرسکے۔ اس لیے اس کا سب سے کام یاب ہتھیار یہ ہے کہ وہ پہلے چھوٹی چھوٹی خطاؤں کی اہمیت نظروں میں کم کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں کرا دیتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کے کرنے پر ابھارتا ہے جن کے بارے میں یہ شبہہ ہوتا ہے کہ وہ جائز ہیں یا ناجائز۔ اس طرح جو شخص چھوٹے چھوٹے گناہ کرتا رہتا ہے اس کے دل سے گناہ کی اہمیت کا احساس رفتہ رفتہ کم ہوتا رہتا ہے، اور پھر وہ کوئی بڑا گناہ کر بیٹھتا ہے۔ جو لوگ ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت نے کسی معاملے میں کہاں تک آخری چھوٹ دی رکھی ہے، اور وہ اسی حد تک جانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ معلوم نہیں کب ان سے اللہ کی نافرمانی ہوجائے۔ ہمیشہ ہر کام میں شریعت کی دی ہوئی رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے سے دین کی راہ پر چلنے میں کمزوری آتی چلی جاتی ہے اور اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کب انسان اس راہ سے پھسل جائے۔
نبی کریمؐ نے اس بات سے روکنے کے لیے بہت سی ہدایات دی ہیں، ان میں سے ایک جسے امام بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے یہ ہے کہ سیدنا ابوعبداللہ النعمان بن بشیرؓ نے فرمایا کہ انھوں نے رسول پاکؐ کی زبان مبارک سے سنا، حضورؐ نے فرمایا:
’’حلال بالکل واضح ہے اور حرام بالکل واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ شبہہ ہے کہ وہ حلال ہیں یا حرام۔ ان باتوں کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جو کوئی ایسی مشتبہ باتوں سے بچا رہا تو اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو کوئی مشتبہ باتوں میں مبتلا ہوگیا وہ (جانو) حرام میں مبتلا ہوگیا (اس کے بارے میں یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ وہ کسی نہ کسی دن حرام میں بھی مبتلا ہوجائے گا) اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنے جانور اس چراگاہ کے کنارے کنارے چراتا ہے جس کے اندر جانور چرانے کی ممانعت ہے اس کے بارے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں۔ سن لو! (جس طرح) ہر بادشاہ کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چراگاہ ہوتی ہے جس میں عام جانور چرانے کی ممانعت ہوتی ہے (اسی طرح) سن رکھو! اللہ نے جن چیزوں کو حرام کردیا ہے وہ (گویا) اس کی ممنوعہ چراگاہ (کے مانند) ہیں۔ سن لو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب تک یہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے اور جب یہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ سن لو! وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے‘‘۔
مومن کو سب سے زیادہ فکر دل کی کرنا چاہیے، دل کی پاکیزگی اسے ہر برائی سے بچاسکتی ہے۔ جس کسی کے دل میں گندے خیالات اور گندی باتیں آتی رہتی ہیں اس کے بارے میں ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ نہ جانے کب وہ شخص برائی میں مبتلا ہوجائے۔ دل کو برے خیالات اور گندی باتوں سے پاک رکھیے۔ آپ بھی برائی سے بچے رہیں گے۔ بری باتیں سننے سے اور بری باتیں پڑھنے سے دل میں برے خیالات جگہ پاتے ہیں۔ اسی طرح بروں کی صحبت میں بیٹھنے سے گندے خیالات دل میں آتے ہیں۔ اگر آپ واقعی برائی سے بچنا چاہیں تو بروں کے پاس بری باتیں سننے، برے کام دیکھنے اور بری باتیں پڑھنے سے دور رہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے بارے میں بری باتیں ہے کہ وہ
پڑھیں:
اللہ کے بندوں کے کام آئیں !
زمانہ جوں جوں مادی ترقی کرتا جا رہا ہے، آپسی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ ہر انسان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہی سوچتا نظر آتا ہے کہ اس میں میرا کیا فائدہ ہے؟ اور اکثر کے نزدیک فائدے سے مراد مختصر دنیوی نفع ہے، جس کام میں انھیں کوئی نفع نظر نہیں آتا، اس میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، خواہ اس پر اللہ و رسولؐ کی جانب سے کتنے ہی ثواب کے وعدے اور بشارتیں کیوں نہ ہوں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ ہم برے وقت میں کسی کے کام نہیں آتے، حد تو یہ ہے کہ اپنے مفاد کے لیے ہم کسی کو تکلیف پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کام آنے کا معاملہ یوں ہے کہ آج کے دور میں کوئی زیادہ نرم دل ہو تو فون اور میسج پر حال چال پوچھ لیتا ہے اور بس، اب وہ لوگ نایاب ہیں جو کسی کی ضرورت کے وقت اس کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ ہاں! کسی کو مصیبت میں دیکھ کر ویڈیوز بنانے کے لیے کھڑے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہی سب سے بڑی خدمت ہے!
اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہر طالب علم جانتا ہے کہ قرآن واحادیث میں باہم تعاون، یعنی ایک دوسرے کے کام آنے کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور خود رسولؐ نے اپنے مبارک عمل سے اس کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔
پر افسوس! آج ہم مسلمانوں کو اس کی فکر نہیں! ہر آدمی اپنی زندگی میں مست ہے، نہ کسی کو کسی کے دکھ درد میں کام آنے کی فرصت ہے اور نہ اپنی طرف سے نقصان پہنچنے سے بچانے کی پرواہ۔ اصل تو یہی تھا کہ دوسروں کے کام آتے، ورنہ کم سے کم انھیں اپنے شر سے محفوظ ہی رکھتے! اس کا سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے ذہنوں سے اس کی اہمیت و حقیقت محو ہوتی جا رہی ہے۔ وہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کو تو عبادت سمجھتے ہیں، لیکن اللہ و رسول کی رضا کے لیے کسی کی خدمت، مدد، تعاون اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کو شاید عبادت اور نیکی نہیں سمجھتے یا ذہنی طور پر اسے نیکی سمجھتے بھی ہیں تو کم از کم عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔
مسلم شریف میں حدیث موجود ہے، سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دورکی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوا ہے۔ (ترمذی، مسلم) کیوں نہ ہو، جب کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ نے وحی نازل ہونے پر اپنے شوہر نام دار کی حالت غیر ہوتے ہوئے دیکھ کر آپؐ کو جن الفاظ میں ہمت بندھوائی تھی اور آپؐ کے جن اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا تھا من جملہ ان کے دوسروں کے کام آنا بھی ہے۔ وہ فرماتی ہیں: ’’اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا! آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔ (بخاری) اور باری تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے‘‘۔ (الاحزاب)
اس حدیث کو ہمیشہ ذہن و عمل میں رکھیں۔ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی لاؤ، یا اس کی تکلیف و پریشانی دور کرو، یا اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام کرو، یا اس کی بھوک کو ختم کرو اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ (کچھ وقت) چلنے کو مسجد میں دو مہینے اعتکاف کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں اور جس کسی نے اپنا غصہ روک لیا، اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو غنا سے بھر دے گا، جو کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے قدموں کو (پل صراط پر) پھسلنے (اور جہنم میں گرنے) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا اور برے اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر للالبانی)