Jasarat News:
2025-01-31@02:43:52 GMT

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

خدا کا انعام اور غضب
جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو، تو عقل اور قرآن دونوں کی رْو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا بھی اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پہ ’انعام‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خداپرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے، سْنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اْٹھے تو پروا نہیں۔ سْنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فسّاق نوازے جائیں۔
(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 285، حاشیہ 50)
٭…٭…٭

اسلامی نظام کی سند
اسلامی نظام میں اللہ کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (authority Final) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے میں بھی نزاع واقع ہوگا اس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائلِ زندگی میں کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائلِ زندگی کے فیصلے کے لیے کتابْ اللہ و سنتِ رسولْ اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جب کہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اصولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کا فر مطلق آزادی کا مدعی ہے اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اْس دائرے میں آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اْسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اْصول و قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملے میں سب سے پہلے خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرتا ہے، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادی عمل برتا ہے اور اْس کی یہ آزا دی عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملے میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء، حاشیہ 89)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے اور ا کے لیے کی طرف

پڑھیں:

گلا تو گھونٹ دیا…!!

حکومتی خرخراہٹ سے آنے والی خبر نے ہڑ بڑا کر رکھ دیا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے گلا گھوٹنے والا متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کثرت رائے سے قومی اسمبلی سے پاس کرالیا۔ جس کے تحت جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ ترمیمی ایکٹ کا دائرہ کار ڈیجیٹل میڈیا تک محدود رکھا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے ٹریبونل ارکان تعینات کرے یہ 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ صحافیوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 جو ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے کے خلاف قرار دیا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بل کے سیکشن اے 26 میں جعلی یا جھوٹی خبروں پر زور دینا تشویشناک ہے، بل کا متن جعلی خبروں کی مناسب وضاحت فراہم نہیں کرتا ہے، مبہم نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے، ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے 4 نئی اتھارٹیز کے قیام سے غیر ضروری، غیر متناسب پابندیاں عائد ہوں گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں اپیلوں کو براہ راست عدالت عظمیٰ میں لے جانے اور ٹریبونل کے حکومتی نامزد ارکان پر مشتمل ہونا باعث تشویش ہے یہ عدالتی نگرانی کو کم اور انتظامی کنٹرول کو بڑھانے کی طرف اشارہ دیتی ہے۔ پہلے ہی بہت کچھ ریگولیٹ کیا جاچکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی

منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بل کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے تائب ہو کر قومی اسمبلی میں اس کے حق میں ووٹ دیا۔

جھوٹ، جو قرآن و سنت کی روشنی میں کبیرہ گناہ ہے، قرآن میں جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے، یہ زنا سے بھی بڑھ کر گناہ ہے جس کے فعل پر اتنی شدید وعید نہیں آئی ہے۔ سورہ البقر میں آیا ہے کہ ’’اور جو جھوٹ بولتے ہیں اس کی پاداش میں اُن کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘ قرآن میں تو یہاں تک کہا گیا کہ لگی لپٹی بات مت کہو اور سچائی سے پہلو مت بچائو، جھوٹ جس کی بدبو سے فرشتہ دور چلے جاتے ہیں۔ جھوٹ ہے کیا جو انتہائی قابل مذمت ہے لغت اس کی تشریح یوں کرتی ہے ’’کسی شخص یا گروہ کا دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا‘‘۔ جھوٹ منافق کی علامت ہے، جھوٹ اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، حکومت کا ترمیمی بل جھوٹ کے خلاف اس قدر ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ مت بولو، بس اللہ اللہ خیر سلا، اسمبلی میں جھوٹ بولو، جھوٹے وعدہ کرو، جھوٹا دلاسہ دو، جھوٹے دعوے کرو، جھوٹے من گھڑت اعداد وشمار دکھائو، سب میدان کھلے ٹھلے ہیں، تمہارے لیے سب راہیں کشادہ ہیں۔ یہ جھوٹ ہی کا خمیازہ تھا کہ ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان الگ ہوگیا، جھوٹ راگ الاپتا رہ گیا۔ سنی سنائی بات کو نمک مرچ لگانا یا ویسے ہی آگے پھیلانے کی شریعت میں ممانعت ہے کہ بغیر تصدیق کیے بات آگے مت بڑھائو‘‘۔ جس طرح سب سے قولاً سدید ہے، جب تصدیق کرنے کی شریعت بات کرتی ہے تو یہ تقاضا بھی حکمرانوں سے کرتی ہے کہ وہ بھی ’’مصدقہ‘‘ بات کرے اور جھوٹ سے دھوکا نہ دے مگر یہ ہورہا ہے کہ جب عوام الناس محسوس کرتے ہیں کہ حکمران سچ کو چھپا رہے ہیں اس پر قدغن لگارہے ہیں اور خود جھوٹ پھیلا رہے ہیں تو وہ جھوٹ کے ماہرین کے دلدل میں جا پھنستے ہیں۔

میڈیا پرسنز شپ کی پابندی کا کوڑا کل کلاں کی بات ہے، سچ گوئی کی سزا رسائل، جرائد، اخبارات کی کانٹی، چھانٹی، بندش، مدیر حضرات کو قید و بند کی سزائیں کیا جھوٹ کو پروان چڑھانے کے حکومتی اقدامات نہ تھے؟ تو کیا تھے اب جھوٹ بے قابو ہو چلا ہے اس کا راج ہو چلا ہے یہ تخت کے تلوے چاٹنے لگا ہے تو اس ترمیم کے جال میں پھانسنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ اغیار، ملک دشمن عناصر، جھوٹوں کے بادشاہ، سامراجی پٹھو، مال کے فتنہ کے شکار جھوٹ کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ ذہنوں کو مسخر کررہے ہیں تو اس کی ایک وجہ سب سے بڑی سچ کو چھپانا ہے۔ آپ سچ کو کھلا کر دیں تو پھر قرآن کے فرمان کے مطابق جب حق آتا ہے تو باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اور باطل ہے ہی بھاگ جانے والا۔ اس میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتی یہ فرمان خداوندی ہے، جھوٹ کوئی بھی بولے وہ ہر سطح پر گرفت اور قانوناً قابل تعزیر ہے۔ تو پھر اللہ کی لعنت (پھٹکار) جو اوپر سے لے کر نیچے تک برس رہی ہے جھوٹ ہر سو سکہ جما رہا ہے۔ یہ کلچر بن رہا ہے، معاشرے کو جکڑ کر حالت یہ ہوچکی کہ عدالتوں میں جھوٹ کا راج ہو چلا ہے۔ حلفیہ فریقین جھوٹ بولتے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ بھلا جب فیصلہ میں ایک فریق جھوٹ سے آلودہ ثابت ہوتا ہے تو جھوٹ کی سزا الگ سے ہوتی ہے۔ اب تو جھوٹ کی قسمیں بھی یار لوگوں نے بنا ڈالی ہیں۔ ایک سفید جھوٹ، اپنا نقصان کرکے کسی کو فائدہ پہنچایا۔ سرمئی جھوٹ، دونوں کا فائدہ بولنے اور سننے والے کا۔ سیاہ جھوٹ، دوسروں کا نقصان اپنا فائدہ۔ لال جھوٹ، میرا بھی نقصان دوسرے کا بھی نقصان۔ یعنی بے وقوفانہ، مصنوعی، خود غرضانہ، اور بدلہ، جھوٹ ہیں۔ حکومت کا فیصلہ کس جھوٹ پر سزاوار ٹھیراتا ہے۔ فیصلہ صاحب نظر کرلیں۔ کچھ لوگ یوں بھی نصیحت کرتے ہیں سچ کا بول بالا ہے جھوٹ کا منہ کالا، کہ ملک میں بے برکتی جھوٹ کی ہی بدولت ہے اور سندھی کہاوت ہے ’’سچ تہ بٹھو نچ، جھوٹ تو ہر رنگ میں حقدار لعنت ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا ’’حکومت‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

متعلقہ مضامین

  • مغرب کی قائدانہ ناکامی
  • اللہ کے بندوں کے کام آئیں !
  • حقوق العباد اور مزاج کا اختلاف
  • مسلکی رنگ گلگت بلتستان کی سب سے بڑی فالٹ لائن ہے، فیض اللہ فراق
  • گلا تو گھونٹ دیا…!!
  •  رواں سال سے بجلی کی خرید و فروخت حکومت کی ذمہ داری نہیں رہے گی: اویس لغاری
  • مذموم اسرائیلی سازشوں کو ناکام بنانے پر حزب اللہ لبنان کیجانب سے ملکی عوام کا شکریہ
  • گیس کی قیمتوں سے متعلق نیا نظام لارہے ہیں،وزیر پیٹرولیم
  • عبدالوحید قریشی کی رحلت جماعت اسلامی ہی نہیںپورے حیدرآباد کے لیے باعث غم ہے‘ رخشندہ منیب