جی ایچ کیو، مہران ایئر بیس حملوں میں اربوں کا نقصان ہوا، کیا 9 مئی کی شدت ان سے زیادہ تھی؟ سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعات میں ملوث عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایئربیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے۔
اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن 2002 سے لیکر ترمیم تک 16ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے، ایسے واقعات میں اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو اورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی ۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی،میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا آٹھ ججز کے فیصلے کو دو افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے،کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمار کس دیٔے نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہے، دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو۔
خواجہ حارث نے کہا نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہاورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیجایا جا سکتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیٔے میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایٔر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن دو ہزار دو سے لیکر ترمیم تک سولہ ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے، ایسے واقعات میں اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو اورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔
خواجہ حارث نے کہا جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا ٹرائل 21 ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا جی ایچ کیو حملے کا ٹرائل21 ویں ترمیم سے قبل چلایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہ اعتراض تو دوسری طرف سے بھی آ سکتا ہے۔
وکیل نے کہا ہمیں کبھی کورٹ مارشل کرنے والے افسران پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا جس عدالت نے سویلینز کو فوجی تحویل میں دیا اس فیصلے کو آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکراچی اور تربت میں رینجرز کے ہاتھوں سویلین کے قتل کا ٹرائل سول عدالتوں میں چلا۔ وکیل نے کہا جب آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے تو بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قانون بنا کر ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، عام شہریوں کو یہ حق حاصل نہیںکیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے حساس مقامات پر خواجہ حارث نے جی ایچ کیو حملے ہوئے کا ٹرائل نے کہا
پڑھیں:
وزارت دفاع نے 9 مئی کیس میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کردیا
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آج کل 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں کہ غلط ہے جب کہ وزارت دفاع نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جج ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی۔
انہوں نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق تین کا کیس عدالت کے سامنے نہیں ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے، اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، جب رٹ میں ہائی کورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے، جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
جسٹس محمد علی مظہر سوال اٹھایا کہ اگر ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں اس غلطی کی نشاندہی کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کی تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ تمام پروسیجر فالو ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے اور اسکا جائزہ لے، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63 میں ملٹری کورٹ کے پرائزئڈنگ آفسر کہ ذمہ داریاں دی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اسکی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ کے جو پرائزئینڈنگ افسر ہوتے ہیں، کیا وہ مکمل تجربہ کار ہوتے ہیں یا کسی کو بھی یہ ذمہ داری دے دی جاتی ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتے ہوں۔
آجکل ٹرینڈ ہوچکا 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں غلط ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پہلے مجسٹریٹ اور کمشنر وغیرہ بھی ٹرائل کرتے تھے تو قتل کیس میں سزا دی جاتی تھی، جب کہا جاتا تھا کہ اس میں شہادتیں نہیں تو سزا کیسی، تو کہا جاتا قتل تو ہوا ہے، پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو فراہم ہونا چاہیے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اسکی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصوروار ہے کہ نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آجکل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا ہے کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں کہ غلط ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے انکو کرنے دیں ہمیں انکی ضرورت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں، لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تووزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی سات کاپیاں آئینی بنچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے، ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اپیل میں اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں، ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونگے دیں گے۔
آئینی بنچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کردیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کردیا۔
ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ کروں گی، کسی کو اچھا لگے یا برا، جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے بھی پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا، خواجہ حارث نے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیا اور کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ججمنٹ میں ایک پوائنٹ سے اختلاف کیا ہے۔
جسٹسں مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام سیکشنز پی پی سی کے نیچے آتی ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان صاحب کا نام میٹر نہیں کرتا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ وہ کہہ رہا یے کہ وہ چشم دید گواہ بھی نہیں ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 9 ملزمان میں سے چار چشم دید گواہ ہیں، آپ اتنی تفصیل سے ملٹری کورٹس کی دستاویزات دیکھ رہی ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہی ہیں کل کو اپیل آپ کے پاس آنی ہیں، آپ کو کیس کے میرٹ سے متعلق سوال نہیں پوچھنے چاہییں کہ یہ معاملہ ابھی آپ کے پاس اپیل میں آنا باقی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ اگر کسی کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔
9 مئی کے ملزمان کے کارنامے بے نقاب ہونے چاہیں، جسٹس حسن رضوی
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے، سوال یہ ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں، اس لیےپوچھا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا، میں بہت تفصیل میں نہیں گیا، 9 مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، نو مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا یہ ممکن نہیں یہ تمام ریکارڈ پبلک کر دیا جائے تاکہ پبلک ان ملزمان کی مذمت کر سکے، 9 مئی واقعات کے ملزمان نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ عوام میں بے نقاب ہونے چاہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو اتھارٹیز نے طے کرنا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کیلئے گنجائش رکھی گئی ، ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر عدالت اس طرف جائے گی تو اب تک ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں آئین و قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا زکر ہے، بہت سارے ممالک میں ملٹری کورٹس قائم ہوئیں۔
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں جب کسی ملزم کا ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے، کیا یہاں بھی ملٹری کورٹس کیلئے ایسا کیا جاسکتا ہے۔
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175 سے الگ رکھا گیا ہے، آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
شہدا فاؤنڈیشن، حکومت بلوچستان نے وزارت دفاع کے دلائل اپنا لیے
سربراہ آئینی بنچ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خواجہ صاحب کل تک دلائل مکمل کر لیں گے، خواجہ حارث نے کہا کہ میں کل گیارہ بجے تک دلائل مکمل کر لوں گا۔
دوران سماعت آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان اور لطیف کھوسہ میں اہم مکالمہ ہوا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا کل ہماری بھی باری آئے گی، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو بیٹھے بیٹھے ہی آدھے کیس کے دلائل دیدیے۔
شہدا فاؤنڈیشن اور حکومت بلوچستان کے وکلاء نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں درج سزاؤں پر سول کورٹ میں ٹرائل چل سکتا ہے، کیا آپکو سول کورٹس پر اعتماد نہیں، یہ کیسز سول کورٹس میں کیوں نہیں لیکر گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سویلین اور فوجی جوانوں کے ٹرائل میں فرق ہوتا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی بھی پاکستان کے ہی شہری ہیں، دونوں کے ملٹری ٹرائل میں کوئی فرق نہیں ہوتا، فوجیوں کے تو ہوتے ہی ملٹری ہیں، اگر ملٹری ٹرائل نہ ہو تو ڈسپلن قائم نہ ہوگا، ملٹری ایکٹ میں سویلین کو بھی رکھا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آپ کی باتیں نوٹ کر لی ہیں اب 2(1)(ڈی) کو پڑھیں، 2(1)(ڈی) کا اطلاق کیسے ہو گا یہ دیکھنا ضروری ہے، خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ٹرائل میں آئین و قانون پر عملدرآمد کرانا ضروری ہے، عدالت کہہ سکتی ہے ایسا ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے لیے پہلے عدالت کے پاس اختیار ہونا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کو دائرہ اختیار دیا گیا ہے وہ ان معاملات کو دیکھ سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ روح میں گھسنے کی بجائے ہم اس کا طریقہ کار دیکھ سکتے ہیں۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں سویلین کے ٹرائل کو تسلیم کیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں تعلق کی بات کی گئی ہے، 2(1)(ڈی) کو کسی بھی عدالتی فورم پر جانچا نہیں گیا، جو قانون فوجیوں سے متعلق ہے وہ عام آدمی پر کیسے لاگو ہوگا، ایف بی علی کیس میں فوجیوں کے سویلین کے ساتھ تعلق کا کہا گیا ہے، اگر سویلین کا فوجیوں کے ساتھ تعلق ہو تو اس کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر کسی شخص کے جرائم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آتے ہیں تو اس کا ٹرائل ہو سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ آرٹیکل 8(3) کے تحت دیکھیں، آرٹیکل 8(1) کے تحت آفیشل سیکرٹ کی حیثیت کیا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں آیا جبکہ آرٹیکل 8 1973 میں آئین کا حصہ بنایا گیا، اگر کوئی شخص آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو آئین کے مطابق اس کا ٹرائل سویلین کورٹ میں ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں بہت سے جرائم ہیں جو سبھی ملٹری کورٹس کی دائر اختیار میں نہیں آتے، جیسے کلبھوشن یادیو کیس میں ہمارے سویلین اگر ملوث ہوں تو کیا ملٹری کورٹس میں ٹرائل چلے گا؟ وزیراعظم یا صدر ہاؤس سے کچھ سیکرٹ دستاویز چوری ہو جائیں تو کیا کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ دستاویزات ایسے تو چوری نہیں ہوں گی کوئی تو گٹھ جوڑ ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تو مسلح افواج کے علاوہ اداروں پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایجنسیوں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتا ہے تو کیا وہ بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں آتا ہے، اگر کوئی سڑک جو فوجی تنصیبات کی طرف جا رہی ہو اور عام شہریوں کے لیے ممنوع ہو تو اس پر جانے والے کا ملٹری ٹرائل ہوگا؟
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں جرائم کی تفصیلات دی گئی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایسے بھی معاملات ہوتے ہیں جس میں سویلین فوج سے معاونت لیتے ہیں، اگر کینٹ کے علاقے میں کچھ ہوتا ہے تو کیا وہ ملٹری کورٹس جائے گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے زمرے میں آئے اس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Tagsپاکستان