شرح سود مزیدکم کرنا آئی ایم ایف کے لیے قابل قبول نہ تھا
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ملک بھر کے تاجر اور صنعتکار خوب و خیال میں تھے کہ اس مرتبہ شرح سود گھٹ کر 9یا 8فید تک محدود ہو جائے گا لیکن اس کے بر عکس آخر ِ کار شرح سود تاجروں اور صنعتکاروں کی توقع کے برخلاف کم کیا گیا لیکن اس غیر ملکی سرمایہ کاریبا ؤنڈ سرمایہ کاروں کے منافع میں اضافہ تو نہیں لیکن اس بات کی امید ہو چلی ہے کے اب ایک مرتبہ پھر باؤنڈ سرمایہ کاری کے منافع میں اضافہ ہو گا
رواں مالی سال کے لیے سود کا ہدف نو ہزار آٹھ سو ارب روپے تھا جو تقریباً 18 فیصد شرح سود کے حساب سے بنایا گیا تھا، لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت بھی بدلے گی؟اس سلسلے میں یہ کہنا کہ شرح سود کم کرنا آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ تھا شرح سود کم ہونے کا فائدہ عام آدمی کو اس وقت ہو گا جب افراط زر آج کے ریٹ پر مستحکم رہے۔ اس وقت افراط زر تقریباً پانچ فیصد ہے۔ اس کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آ رہا ہے۔ ایکسچینج ریٹ میں اضافہ نہ کرنا اور افراط زر بھی نہ بڑھانا شاید آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ ہو۔‘
ٓاس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آ رہی ہے اور رواں مالی سال میں مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد رہنے کی توقع ہے۔رواں سال کے آغاز پر پاکستان کے ادارہ برائے شماریات نے کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 4.
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے جسارت کے سوال “ایک فیصد شرح سود میں کمی تاجربرادری نے کیوں مسترد کر دیا ہے ؟کے جواب میں کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں صرف ایک فیصد کی معمولی کمی کے فیصلے کو تاجربرادری نے اس لیے مسترد کر دیا ہے کہ اس تاجر برادر کو شدید مایوسی کا سامنا ہو ا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے اس اقدام کو موجودہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور ملکی ترقی کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کی اسٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ ملک بھر میں بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروںکو درپیش مالی اور اقتصادی مسائل کے حل میں فوری اقدامات کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ جاوید بلوانی کا یہ بھی کہناہے کہ کراچی چیمبر آف کامرس کی وزیراعظم کے ساتھ اس خاص مسئلے پر آخری بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے شرح سود میں واضع کمی کرنے کی یقین دہانی کے باوجود اسٹیٹ بینک نے اسے 12 فیصد پر برقرار رکھا ہے جسے تاجر برادری سمجھنے سے قاصر ہے۔صدر کے سی سی آئی نے نشاندہی کی کہ ان پٹ لاگت میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے کاروبار شدید تناؤ میں کام کر رہے ہیں کیونکہ توانائی، ایندھن کی قیمتوں اور خام مال کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی ایک غیر مستحکم زر مبادلہ کی شرح مبادلہ شامل ہے۔اس تناظر میں بلند شرح سود نے مالیاتی بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کے لیے ورکنگ کیپٹل اور توسیع کے لیے سستے قرضوں تک رسائی تقریباً ناممکن ہوگئی ہے۔پالیسی ریٹ میں معمولی کمی تاجر برادری کی طرف سے مانگے گئے ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اقتصادی بحالی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں ناکام ہے۔
صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے؛ کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کوصرف 100 بیسس پوائنٹ کی ناکافی کمی کا اعلان کیا ہے ۔واضح رہے کہ پہلے کی طر ح اب بھی شرح سود بنیادی افراط زر کے مقابلے میں بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح دسمبر 2024 میں 4.1 فیصد رہی۔ لیکن، پالیسی ریٹ کی شرح ابھی بھی صرف 12.0 فیصد تک گرائی گئی ہے اور یہ بنیادی افراط زر کے مقابلے میں 790 بیسس پوائنٹس کے پریمیم کی عکاسی کرتی ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ تمام صنعتوں اور شعبہ جات کے ساتھ غور و خوض کے بعدایف پی سی سی آئی نے مانیٹری پالیسی کو معقول بنانے کے لیے پیر کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اجلاس میں 500 بیسس پوائنٹس کی فوری اور سنگل اسٹروک کمی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے وژن اور اقتصادی و برآمدات کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جنوری 2025 میں بنیادی افراط زر 3 سے 4 فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے وضاحت کی کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں بھی نسبتاً مستحکم رہنے کی توقع ہے؛ جبکہ پاکستان میں افراط زر کے دباؤ کی لہر پیدا کرنے میں تیل کی قیمتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔عاطف اکرام شیخ کے مطابق، پاکستان میں حکام کے پاس شرح سود میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام لوازمات موجود تھے اور غیر پیداواری اورکاروبار مخالف مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے شرح سود میں صرف ایک فیصد کمی پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو معیشت کی بحالی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر میں مسلسل کمی اور ملک کا بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہونے کے باوجود شرح سود میں نمایاں کمی نہ کرنا بزنس کمیونٹی میں تشویش کا باعث بن رہاہے حالانکہ افراط زر میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جارہی تھی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود میں نمایاں کمی کرے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا جس سے یقینی طور پر سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی لانے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔
تاجر برادری شرح سود سنگل ڈیجٹ پر لانے کا مطالبہ کررہی تھی تاہم مرکزی بینک کو کم از کم 1.5فیصد تک کمی کرنی چاہیے تھے جو اگلی مانیٹری پالیسی کے اعلان میں مزید کمی کے بعد 10فیصد پر آجاتی جس سے معیشت کو زبردست فوائد حاصل ہوتے حالانکہ وزیراعظم شہباز شریف بار بار شرح سود نیچے لانے کی بات کررہے ہیں مگر شاید بیوروکریسی معیشت کی بحالی میں وزیراعظم کی دلچسپی پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی جس کا وزیراعظم کو ضرور نوٹس لینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں نمایاں کمی میں مسلسل تاخیر کرتے ہوئے وقت گزر جانے کے بعد کمی کرے گی تو معیشت پر اس کے زیادہ مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ بروقت اقدامات ہی کاروبار وصنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسٹیٹ بینک اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور بزنس کمیونٹی کے مطالبے کو سنجیدہ لیتے ہوئے اگلی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں نمایاں کمی کرے گی جس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سودمیں ایک فیصد کمی کے بعد 12 فیصد مقرر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ توقعات پر پورا نہیں اُترا۔
تاجر برادری کی یہ بات درست ہے کہ موجودہ حالات میں، جب مہنگائی کئی سالوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے، پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے تھا۔ بلند شرح سود نے صنعتوں کے لیے کام کرنا دشوار بنا دیا ہے اور پیداواری لاگت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں ملکی برآمدات اور مقامی صنعت دونوں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ12فیصد پر شرح سود ہونے کے باعث کاروباری طبقے کے لیے ورکنگ کیپٹل کا حصول اب بھی مشکل بلکہ مہنگا ہے، جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ بینکوں سے قرض لینے کی لاگت نے نئی سرمایہ کاری کو منجمد کر رکھا ہے جس سے صنعتی ترقی بھی جمود کا شکار ہے، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ صدر کاٹی کا کہنا تھا کہ اس وقت صنعتوں میں پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور نجی شعبے کی شمولیت تقریباً محدود ہو چکی ہے۔ توقع تھی کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں نمایاں کمی ہوگی تاہم موجودہ مانیٹری پالیسی صنعتی پیداوار کو مزید محدود کرنے اور سرمایہ کاری کے مواقع کو ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ موجودہ ریٹ کے باعث کاروباری طبقے کو شدید دباؤ کا سامنا ہے، اور یہ صورتحال معیشت کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔ جنید نقی نے حکومت اور اسٹیٹ بینک پر زور دیا کہ وہ صنعت کاروں کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیں اور ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جو معیشت کی بحالی میں معاون اور مددگار ثابت ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک ا ف پاکستان مانیٹری پالیسی کہ اسٹیٹ بینک ا مہنگائی کی شرح عاطف اکرام شیخ بیسس پوائنٹس پی سی سی ا ئی سرمایہ کاری تاجر برادری ا ئی ایم ایف پالیسی ریٹ کی جانب سے افراط زر ایک فیصد کی توقع کہا کہ رہی ہے ہے اور تھا کہ دیا ہے کے بعد کمی کے کے لیے
پڑھیں:
شرح سودپرایک فیصد کمی توقعات سے کم ہے، کاٹی
کراچی(بزنس رپورٹر) کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سودمیں ایک فیصد کمی کے بعد 12 فیصد مقرر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ توقعات پر پورا نہیں ا ±ترا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں، جب مہنگائی کئی سالوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے، پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے تھا۔ جنید نقی نے کہا کہ بلند شرح سود نے صنعتوں کے لیے کام کرنا دشوار بنا دیا ہے اور پیداواری لاگت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں ملکی برآمدات اور مقامی صنعت دونوں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ12فیصد پر شرح سود ہونے کے باعث کاروباری طبقے کے لیے ورکنگ کیپٹل کا حصول اب بھی مشکل بلکہ مہنگا ہے، جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ بینکوں سے قرض لینے کی لاگت نے نئی سرمایہ کاری کو منجمد کر رکھا ہے جس سے صنعتی ترقی بھی جمود کا شکار ہے، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ صدر کاٹی کا کہنا تھا کہ اس وقت صنعتوں میں پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور نجی شعبے کی شمولیت تقریباً محدود ہو چکی ہے۔