Express News:
2025-01-31@01:39:58 GMT

مذاکرات اور مفاہمت کی سیاست کا خاتمہ

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات یا مفاہمت کے عمل میں ڈیڈ لاک کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔کیونکہ جہاں فریقین میں بد اعتمادی کا ماحول ہوگا اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھیں گے تو وہاں مذاکرات کم اور تلخیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ پہلے سے اس بات کا اندازہ تھا کہ اگرچہ مذاکرات کی میز سجائی گئی ہے لیکن مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے ۔

حکومت کی کوشش تھی کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پی ٹی آئی کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی مذاکرات کے نام پر حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے سخت مزاج رکھنے والے لوگ مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

پی ٹی آئی بہت تیزی سے مذاکرات کا نتیجہ چاہتی ہے جب کہ حکومت کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کومذاکراتی عمل میں لمبے عرصے تک جوڑا جائے جو یقینی طور پر پی ٹی آئی کو قبول نہیں تھا۔ حکومت کسی بھی معاملے میں عدالتی کمیشن بنانے کے حق میں نہیں تھی کیونکہ کمیشن بنانے سے اس کی سیاسی اور قانونی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا تھا۔اس لیے حکومت عدالتی کمیشن بنانے سے زیادہ پارلیمانی کمیشن بنانے کے حق میں تھی تاکہ اس سے حکومت اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکے،پی ٹی آئی اس کے لیے تیارنہیںتھی۔اسی طرح اسپیکر کمیٹی کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں جب کہ حکومت 31جنوری کے بعد کمیٹی کو ختم کرکے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ فیصلہ سازی کا اختیار تھا۔کیونکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ فیصلے کا اصل اختیار حکومت سے زیادہ پس پردہ قوتوں کے پاس ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کی ساری توجہ کا مرکز بھی حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی طرف تھا۔پی ٹی آئی کو اندازہ تھا اگر ان کو کوئی سیاسی ریلیف ملا یا کوئی سیاسی سمجھوتہ ہوا اس کا راستہ حکومت سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے ہی نکلے گا۔اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی میں اسٹیبلیشمنٹ کی طرف جھکاؤ یا حمایت کا حصول تھا۔

جہاں تک پی ٹی آئی کے مطالبات کی بات ہے ان میں 8 فروری کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات،نو مئی کے واقعات،26نومبر کی تحقیقات،26 ویں ترمیم کاخاتمہ،سیاسی قیدیوں کی رہائی،سیاسی انتقام ،اسٹیبلیشمنٹ سے بہتر تعلقات سمیت سیاسی سرگرمیوں اور نئے انتخابات کا مطالبہ شامل ہے۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کو حکومت سے ملنے کے امکانات کم ہیں۔خود حکومت کو اندازہ ہے کہ وہ کس حد تک پی ٹی آئی کے مطالبات مان سکتی ہے۔

اصل میں اس مفاہمت اور مذاکرات کے عمل سے بہت سے لوگوں کو توقعات تھی کہ بات آگے بڑھے گی ۔لیکن اصل مسئلہ دونوں طرف سے نیتوں کا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ مذاکرات کے نام پر ایک سیاسی جادوگری کا کھیل دونوں طرف سے سجایا جا رہا ہے۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ دونوں طرف سے ایسے لوگ مذاکراتی کمیٹیوں کا حصہ تھے جن کے پاس فیصلے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ایک گروپ ہر فیصلہ کرنے سے قبل اڈیالہ جیل کا رخ کرتا تھا جب کہ دوسرا گروپ وزیراعظم ہاؤس یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتا تھا۔اس لیے مذاکراتی کمیٹیوں کا یہ کمزور عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونا تھا۔حکومت کی کوشش تھی کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی بانی پی ٹی آئی کو نظر انداز کر کے معاملات کو آگے چلائے جو یقینی طور پر ممکن ہی نہیں تھا۔

اس لیے جب بھی مذاکراتی عمل آگے بڑھتا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بانی پی ٹی آئی کی طرف دیکھنا پڑتا تھا اور انھی سے ہدایت لینا پڑتی کیونکہ فیصلے کا ریموٹ کنٹرول بانی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہی تھا۔بانی پی ٹی آئی ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں ان کی کمزوری یا ڈیل یا سیاسی سمجھوتے کا پہلو نمایاں ہوکیونکہ اس سے ان کی پاپولر سیاست متاثر ہوسکتی ہے۔اس مذاکراتی عمل کا ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہم سیاسی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس ڈیڈ لاک نے قومی سیاست کے آگے بڑھنے کے راستے محدود کر دیے ہیں۔سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سیاسی راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں اور غیر سیاسی حکمت عملی سیاسی حکمت پر غالب ہو چکی ہیں۔

سیاسی اور جمہوری عمل کی ناکامی نے پاکستان کے جمہوری مقدمہ کو کمزور کیا ہے ۔ممکن ہے کہ آگے جا کر پی ٹی آئی دوبارہ مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتی ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اسے پس پردہ قوتوں ہی کی جانب سے کچھ ریلیف ملتا ہوا نظر آئے گا یا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ میں اہمیت اختیار کر رہی ہے۔کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کسی بھی سطح پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔حالیہ دنوں میں ایک اہم تبدیلی پی ٹی آئی کے سخت گیر موقف میں کمی کی ہے۔یقینا یہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوگا اور پی ٹی آئی یہ دیکھے گی کہ اس حکمت عملی کے تحت اسے کیا سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔بانی پی ٹی آئی مفاہمت اور مزاحمت دونوں کے درمیان کھیلنے کی کوشش کریں گے اور جہاں دباؤ ڈالیں گے وہاں وہ یہ پیغام بھی دیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ میں بھی اس بات کا احساس ہے کہ یہ جو ڈیڈ لاک ہے بہت لمبے عرصے تک نہیں چل سکے گا۔پی ٹی آئی کے ساتھ کچھ معاملات تو طے ہونے ہیں۔آج نہیں تو کل پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں میں ریلیف ملے گا۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوشش ہوگی کہ جو سیاسی ڈیڈ لاک قومی سیاست میں قائم ہے وہ ٹوٹے اورخود اس پر جو دباؤ ہے یا جو تنقید ہو رہی ہے۔

اس میں کمی واقع ہو نی چاہیے۔کیونکہ جو سیاسی ڈیڈ لاک ہے اس نے قومی سیاست کی صحت کو متاثر کیا ہے اور قومی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔لیکن اگر مذاکرات حقیقی معنوں میں آگے نہیں بڑھتے اور محض مصنوعی بنیادوں پر مذاکرات کا کھیل سجایا جاتا رہا اور اس کا مقصد ریاستی مفاد سے زیادہ ایک دوسرے کے سیاسی مفادات ہوں گے تو پھر مفاہمت کم اورذات پر مبنی سیاست زیادہ ہوگی۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم قومی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکامی سے دو چار ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی مذاکراتی عمل پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے کے درمیان حکمت عملی حکومت کی حکومت سے سے زیادہ کہ پی ٹی کی کوشش کی طرف تھی کہ اس لیے

پڑھیں:

سیاسی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت

حسب سابق جنوری میں میڈیا میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کے سیاست میں ایک بار پھر متحرک ہونے کی خبر آئی تھی مگر جنوری کے 3 ہفتے پھر گزر گئے لیکن ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی کہ ان کی کیا مصروفیات ہیں اور وہ کیوں خاموش ملکی سیاست اور صورتحال دیکھ رہے ہیں اور متحرک کیوں نہیں ہو رہے؟ میاں نواز شریف اگر سیاست میں متحرک نہیں ہو رہے تو اس کی وجوہات بھی ہوں گی مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر متحرک ہو کر کیا کریں گے؟

کیونکہ حکومتی سطح پر ان کے بھائی وزیر اعظم شہباز شریف بہت ہی متحرک ہیں اور اجلاسوں اور تقاریب ہی نہیں بلکہ غیر ملکی دوروں میں تو بہت زیادہ ہی مصروف ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا کہ وزیر اعظم بیرون ملک نہ جائیں اور ملک میں موجود رہ کر ملک کے ان شہروں کے بھی دورے کرلیں جہاں اب تک وہ دو سالوں میں نہیں گئے اور نہ ہی ان کی اپنے ارکان اسمبلی سے ملنے کی کوئی خبر میڈیا میں آ رہی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف ہیں جو حکومتی سطح پر تو تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ متحرک ہیں، اپنے صوبے کا دورہ بھی کرتی ہیں اور سیاسی طور پر مخالفین کے خلاف بھی بیان دیتی رہتی ہیں۔ پی ٹی آئی میں سیاسی مخالفین پر تنقید اور جواب کا فریضہ کے پی کے ترجمان بیرسٹر سیف ادا کرتے ہیں مگر پنجاب کا کوئی پی ٹی آئی رہنما وزیر اعلیٰ کی حکومتی کارکردگی پر تنقید کرتا ہے نہ ان کے سیاسی بیان کا کوئی جواب دیتا ہے۔

پنجاب میں یہ خاموشی شاید اس لیے کہ وہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر کیا تنقید کریں کیونکہ وہ پنجاب میں کارکردگی دکھا ہی رہی ہیں جو پنجاب کے عوام کو نظر بھی آ رہی ہے مگر لاہور سے دور پشاور میں بیٹھے وزیر اعلیٰ کے پی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کی آنکھوں سے اوجھل ہیں اور صوبائی مشیر ہو کر انھیں وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت پر تنقید سے فرصت نہیں اور وہ ملکی سیاست پر اظہار خیال، مسلم لیگ (ن) پر تنقید ہی میں مصروف رہتے ہیں اور ان کے پاس کے پی کی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی بتانے کا مواد ہے ہی نہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ کے پی اپنے صوبے پر توجہ دینے کے بجائے اپنے بانی کی رہائی کے لیے کوششوں میں زیادہ مصروف رہے ہیں اور کرم اور پارا چنار کے اہم مسئلے پر تب توجہ دی جہاں وہاں سیکڑوں ہلاکتیں ہو چکی تھیں اور وفاقی حکومت یہ اہم مسئلہ حل کرانے پر مجبور ہوئی کیونکہ امن و امان برقرار رکھنا کے پی حکومت کی ذمے داری تھی مگر بہت دیر بعد اسے ہوش آیا اور اب کے پی حکومت نے کرم میں بلاتفریق سخت کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے کرم میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن اور بگن میں کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔

تینوں صوبوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ پہلے ان کے سرکاری اجلاسوں میں ان کے والد اور تین بار وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی بیٹی کے ہمراہ بیٹھتے تھے جس پر پی ٹی آئی کو اعتراض تھا جس پر بڑے میاں صاحب اب نظر نہیں آ رہے ۔

اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی حکومت بڑی مہارت سے چلا رہی ہیں۔البتہ ارکان اسمبلی شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ انھیں اپنے علاقائی مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔

تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے مگر فروری کے انتخابی غیر متوقع نتائج نے ان کا راستہ روک لیا تھا اور بڑے میاں صاحب کو پھر اپنے چھوٹے بھائی کے لیے وزارت عظمیٰ کی قربانی دینا پڑی۔ پنجاب کے سرکاری اجلاس میں بڑے میاں صاحب ان کے مخالفین سے برداشت نہیں ہو رہے تھے اور میاں صاحب کا اقتدار سے باہر آ کر بنایا گیا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بڑا مقبول ہوا تھا ۔اب موجودہ (ن) لیگی حکومت بھی واضح کرتی رہتی ہے کہ وہ اور بالاتر آپس میں ایک ہیں اور حکومت بہت اچھی چل رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کو بھی شکایات کا موقعہ دے رہی ہے مگر بڑے میاں صاحب بھی پیپلز پارٹی کے حکومت مخالف بیان کا جواب بھی نہیں دیتے ہیں ۔ بالاتروں کی مخالفت کا کام اب پی ٹی آئی کے بانی اور پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن کے ہاتھ آ چکا ہے۔

میاں نواز شریف سیاست میں اپنی حکومت کی کارکردگی پربولتے ہیں اور نہ کسی اور پر تنقید کر رہے ہیں اور میڈیا سے تو وہ ویسے بھی دور رہتے ہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے سلسلے میں فوری متحرک ہوں کیونکہ (ن) لیگ کی ساکھ کو اب نواز شریف بہتر بنا سکتے ہیں اور (ن) لیگ کے ناراض رہنماؤں کو منانے کا کام بھی کرسکتے ہیں کیونکہ یہ خوبی ان میں ہے اور نواز شریف کے متحرک نہ ہونے سے (ن) لیگ میں مایوسی اس کے رہنماؤں کو نظر انداز کیے جانے کی شکایات بڑھ گئی ہیں اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ میاں صاحب اپنی پارٹی میں متحرک ہو جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جو سیاسی حل نہیں چاہتے ،بیرسٹر گوہر
  • سیاسی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت
  • بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کا ذمہ دار حکومت کو قرار ددیا
  • پی ٹی آئی نے دس، بارہ سال سے ملک کی سیاست کو نقصان پہنچایا، رانا ثناء اللّٰہ
  • پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میزپرآناپڑے گاان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، راناثناء اللہ
  • پُرامن سیاسی جدوجہد ہمارا آئینی حق ہے، صاحبزادہ حامد رضا
  • پیپلز پارٹی کو سیاست کا حق ہے، بلاول صاحب کو کوئی ایشو ہے تو ہمیں بلائیں، رانا ثنااللہ
  • سڑکوں کی سیاست بھی کرنا جانتے ہیں، تصادم نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے، عالیہ حمزہ
  • اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ناکامی حکومت کی ہوگی: شبلی فراز