Express News:
2025-01-31@01:16:48 GMT

ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے بارے کہا جاتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے انتخابات جیتتے ہی کہا تھا:’’ اقتدار سنبھالتے ہی مَیں کئی ممالک کی امداد بند کردوں گا۔‘‘اپنے کہے پر موصوف نے یوں عمل کیا ہے کہ صدر بننے کے چند روز بعد(26جنوری کو) اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اُنھوں نے کئی ممالک کی امداد فوراً بند کر دی ہے ۔

مبینہ طور پر اِن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور یوکرائن، تائیوان ، اُردن اور کئی دیگر ممالک بھی ۔امریکی حکام نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ کے اِس حکم سے پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے تقریباً 22منصوبے(تعلیم، زراعت ، صحت اور گورننس) متاثر ہوں گے ۔ ساتھ ہی یہ بھی اُمید دلائی گئی ہے کہ امداد کا یہ تعطل ابتدائی طور پر90ایام کے لیے ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نامزد مشیر، رچرڈ گرینل، نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی بارے پہلے جو ٹویٹ کیا اور پھر امریکی میڈیا کو جو انٹرویو دیا، یہ بھی اِس امر کا مظہر ہے کہ ٹرمپ حکومت کے بعض حکام کے پاکستان حکومت بارے کیا خیالات ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے رچرڈ گرینل کے بیان پر بجا ردِ عمل دیا ہے ۔

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس روز ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے کچھ اداروں کی امداد بند کی، اُسی روز امریکا سے ایک ہائی پاور بزنس وفد پاکستان اُترا۔ اِس وفد ، جس کی سربراہی ٹرمپ خاندان کے ایک قریبی فردGentry Beachکررہے تھے، نے جناب شہباز شریف سے بھی مثبت ملاقاتیں کی ہیں اور پاکستانی میڈیا سے بات چیت کے دوران حوصلہ افزا پیغام دیا ہے ۔ وفد کے سربراہ نے یہ حیران کن بیان بھی دیا ہے کہ رچرڈ گرینل کا بیان دراصل گمراہ کن تھا۔

 ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کی ایک خبر کے مطابق وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کے زیر صدارت پاکستان کے 6سفیروں کا ایک اہم اجلاس ہُوا ہے ۔ اِس میں اِس امر پر غور کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر نئی امریکی انتظامیہ سے کیسے معاملہ کیا جائے ؟ ٹرمپ انتظامیہ اور ٹرمپ کابینہ میں اکثریتی طور پراسرائیل نواز اور بھارت نواز عناصر شامل ہیں ۔ اور یہ قدم ٹرمپ صاحب نے دانستہ اُٹھایا ہے ۔اِس اقدام سے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے’’ سریر آرائے سلطنت‘‘ ہونے سے قبل ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا ۔

بھارت نواز وزرا اور پرو انڈیا منتظمین کے انتخاب کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور چین کے ساتھ کیا معاملات کرنے والے ہیں ۔ اِس کا اظہار ممتاز برطانوی جریدے’’دی اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے مضمون بعنوانXiJingping has much to worry about in 2025 میں بھی یوں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کس طرح چین کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ، جئے شنکر،کی ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ، مایئکل والز، سے تفصیلی ملاقات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اِس پیش بندی کی موجودگی میں پاکستان اور شہباز حکومت کے لیے از بس ضروری ہوگا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی شخصیات ٹرمپ انتظامیہ کے اُبھرتے متوقع طوفانوں کا مقدور بھر مقابلہ کر سکیں ۔ ایسے میں پاکستان کو واشنگٹن میں اپنی نئی لابیاں بھی تشکیل دینا ہوں گی جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔

اقتدار میں آنے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ شام ، حماس ،لبنان اور حزب اللہ کے مسائل سے تقریباً نمٹ چکے تھے ۔یوکرائن بارے ٹرمپ کی خاص توجہ مبذول ہوگی۔ اِس کا واضح اظہار ’’فارن افیئرز‘‘ کے تازہ شمارے میں Alina Polyyakovaکا لکھا آرٹیکل خاصا چشم کشا ہے ۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ٹرمپ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام ہی میں یوکرائن جنگ کو جائز و ناجائز طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اِس وسیع تر اور دُور تک پھیلے عالمی کینوس میں ٹرمپ، پاکستان بارے کیا سوچ رکھتے ہیں، واضح طور پر کچھ کہنا فی الحال دشوار ہے۔ ٹرمپ صاحب مگر اپنے پہلے دَورِ اقتدار میں پاکستان بارے جو سنگین کلمات ادا کر چکے ہیں، وہ تو حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ وہ الفاظ اگر پوری معنویت کے ساتھ ہماری مقتدرہ کے ذہنوں میں محفوظ ہیں تو ہم سب قرائن سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان کو کن خاص نظروں سے دیکھا جارہا ہوگا ۔

لیکن پاکستان کسی بھی طرح امریکا سے دُوری افورڈ نہیں کر سکتا۔ امریکا اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔ 2024 میں امریکا واحد ملک رہا جسے پاکستان نے سب سے زیادہ برآمدات کیں :5 بلین ڈالرز سے زائد ۔ اگلے روز ہمارے اخبارات میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان (جوناتھن لالی) کا جو آرٹیکل شائع ہُوا ہے، اِس سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ پاکستان کی تجارت و ٹریڈ کے لیے امریکا کسقدر اہمیت رکھتا ہے۔ اگر صرف ٹریڈ کی مَد کو ہی پیشِ نگاہ رکھ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم اِس ضمن میں بھی امریکا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

ہماری کمزور معیشت میں ہمیں جس شدت سے ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور فیٹف کی ضرورت ہے، اِس میدان میں بھی ٹرمپ کا امریکا (ناراضی کی صورت میں) پاکستان کے لیے کئی رکاوٹیں اور مسائل ، بآسانی، پیدا کر سکتا ہے ۔ پاکستان کے انتشاری عناصر اور بانی پی ٹی آئی کے پچھلے ڈیڑھ برس سے پسِ دیوارِ زنداں رہنے کو بھی ٹرمپ حکومت سہل انداز میں ایکسپلائیٹ کر سکتی ہے ۔بانی پی ٹی آئی کو احتساب عدالت کی طرف سے14سال کی سزا سنائے جانے کے بعد امریکا میں بروئے کار پی ٹی آئی حکومت کے خلاف زیادہ متحرک ہو چکی ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسے امریکی صدر ہیں جنھوں نے اپنی پہلی صدارتی شکست ( جو بائیڈن کے مقابل) سے بچنے اور بائیڈن کو اقتداری حلف نہ لینے کی کوشش میں Self Coupکا رسک بھی لے لیا تھا ۔ ٹرمپ کو اُمید تھی کہ وہ اپنے سیاسی حامیوں اور وٹروں کی Capitol Hillپر یلغار کروا کر امریکی فوج اور امریکی عدلیہ کی حمائت حاصل کرلے گا۔

اُن کے حامیوں نے امریکی دارالحکومت کی مرکزی عمارت پر حملہ کیا تو سہی مگر ناکام رہے ۔ ٹرمپ کو ’’اندر‘‘ سے مطلوبہ اور متوقع حمائت بھی نہ ملی ۔ اُلٹا امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کے حملہ آور حمائتیوں کو سزائیں دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ایسے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہم کسی بھی منفرد اور پُر خطر اقدام کی اُمید اور توقع رکھ سکتے ہیں ؛ چنانچہ ٹرمپ کی قصرِ ابیض میں پھر سے آ جانے کے بعد دُنیا کے کئی ممالک اگر مشوش ہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسی عالمی صورتحال میں امریکی صدر بنے ہیں جب اسرائیل نے غزہ کو برباد کر ڈالا ہے اور 50ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی غزہ و اسرائیل میں سیز فائر تو ہو چکا ہے، لیکن اِس فائر بندی کو مستقل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج شام تباہ اور لاوارث ہے ۔ شام کی یہ صورت اسرائیل کے لیے آئیڈیل ہے ۔ ایران درست ہی کہتا ہے کہ شامی حکومت کا خاتمہ اسرائیل اور امریکا کے گہرے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ عالمِ عرب میں رُوس اپنے اکیلے دوست ملک، شام، سے محروم ہو چکا ہے ۔لبنان میں بروئے کار ’’حزب اللہ‘‘ کی اسرائیل کے خلاف شمشیر زنی تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔

یورپ پریشان ہے کہ ٹرمپ صاحب یوکرائن جنگ سے تعلق منقطع کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کی لاتعلقی سے اگر یوکرائن میں رُوس کی جیت ہو گئی تو یورپی یونین کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ مگر ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ’’ اگر امریکا نے کسی ملک کا تحفظ کرنا ہے تو اُسے جنگی اخراجات کے لیے امریکا کو ادائیگیاں کرنی چاہیے‘‘ تو یہ الفاظ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی کر جاتے ہیں ۔ مسائل و پریشانیوں کا ایک طومار ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر ہر ملک کو درپیش ہے ۔پاکستانی حکام کو مگر دانشمندی اور حکمت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ نئی راہیں اُستوار کرنی ہیں ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہے کہ ٹرمپ پی ٹی ا ئی کی امداد کے لیے ا کے ساتھ ٹرمپ کے ٹرمپ کی یہ بھی

پڑھیں:

فلسطینیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی جاری،اسرائیلی جارحیت میں بچے سمیت 2شہید

غزہ /تل ابیب /قاہرہ /واشنگٹن /برلن /اقوام متحدہ (اے پی پی /مانیٹرنگ ڈیسک) غزہ میں لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، شمالی غزہ میں 3 لاکھ جبری بے دخل افراد اپنے پیاروں سمیت لوٹ چکے ہیں‘اسرائیلی جارحیت میں بچے سمیت 2 شہید ہوگئے۔مظلوم فلسطینیوں کو واپسی پر تباہی کے سوا کچھ نہ ملا، شمالی غزہ آنے والوں نے تباہ مکانات کے قریب
عارضی پناہ گاہیں قائم کرلیں، اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا کہ شمالی غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، ضروریات بہت زیادہ ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیل کا جبر بند ہونا چاہیے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کا آپریشن جاری رہا، جنین کیمپ پر حملے میں اسرائیلی فوج نے مسجد کو شہید کردیا، قابض فورسز نے بلڈوزرز سے متعدد گھر تباہ کر دیے، اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں اب تک 16 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوچکے جبکہ سیکڑوں کو حراست میں لیا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تیسرا تبادلہ آج ہوگا۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کے مطابق حماس کی جانب سے آج 3 اسرائیلیوں کو رہا کیا جائے جن میں 19 سالہ خاتون فوجی اہلکار اگم برجر بھی شامل ہے۔ آج رہا ہونے والے اسرائیلوں میں 29 سالہ خاتون اربل یہود اور 80 سالہ مرد گیڈی موشے موزس بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق حماس کی جانب سے 5 تھائی باشندوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید 110 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے سے متعلق بیان کو ’غیرمنصفانہ اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت اس میں شریک نہیں ہوگی۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صدر عبدالفتح السیسی نے قاہرہ میں دورے پر آئے ہوئے کینیا کے صدر ولیم روٹو کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مصر 2 ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے کے لیے امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کے حوالے سے جو کہا جا رہا ہے، اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اجازت دی جاسکتی ہے کیونکہ اس کے مصر کی قومی سلامتی پر اثرات ہیں‘ اگر میں ٹرمپ کی تجویز پر مصر کے عوام سے یہ بات کہہ بھی دوں تو وہ فلسطینیوں کی بے دخلی مسترد کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے منصوبے کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق برلن میں ٹاؤن ہال کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اولاف شولز نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کرنے کے بعد انہیں بے دخل کرنا ’ناقابل قبول‘ ہوگا۔ اولاف شولز نے کہا کہ ’حالیہ عوامی بیانات کی روشنی میں، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ غزہ کے شہریوں کی نقل مکانی کا کوئی بھی منصوبہ (غزہ کے شہریوں کو مصر یا اردن بے دخل کرنے کا خیال) ناقابل قبول ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس سے ہمدردی رکھنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کریں گے، جس کے تحت فلسطینیوں کے حامی مظاہروں میں حصہ لینے والے غیر ملکی کالج کے طلبہ اور دیگر غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ اس آرڈر میں کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ محکمہ انصاف کو حکم دیں کہ امریکی یہودیوں کے خلاف دہشت گردانہ دھمکی، توڑ پھوڑ اور تشدد پر جارحانہ بنیادوں پر کارروائی کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا فیکٹ شیٹ میں کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی جنہوں نے حماس کی حمایت میں جاری مظاہروں میں شرکت کی تھی، ہم آپ کو ڈھونڈیں گے اور ملک بدر کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں کالج کیمپس میں حماس کے تمام ہمدردوں کے اسٹوڈنٹ ویزے بھی فوری طور پر منسوخ کر دوں گا، جو بنیاد پرستی سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے 2 ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کی پٹی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، امن صرف اسی صورت میں آسکتا ہے جب خود مختار مستقبل کی امید ہو۔ پاکستان نے کہا ہے کہ اسرائیلی قانون سازی کے نتیجے میں فلسطین مہاجرین کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے وجود اور بقا کو شدید خطرہ لاحق ہے اور خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ادارے کو بند کرنا جنگ بندی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا اور غزہ کی بحالی اور سیاسی منتقلی کے کسی بھی امکان کو سبوتاژ کر دے گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے یو این آر ڈبلیو اے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے لیے امید کی کرن ہے‘ یہ ادارہ جنگ بندی کے مؤثر نفاذ، ضروری انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کوعدالتی محاذ پر شکست، پاکستانی نژاد امریکی خاتون جج کا اہم فیصلہ
  • غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے حامی نہیں، پاکستان
  • فلسطینیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی جاری،اسرائیلی جارحیت میں بچے سمیت 2شہید
  • ٹرمپ کا حماس کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کے خلاف بدترین اقدام کا فیصلہ
  • شام سے ممکنہ امریکی انخلاء کے بارے غاصب صیہونی پریشان
  • ٹرمپ نے خواجہ سرا بچوں کی جنس تبدیلی کے علاج پر پابندی لگا دی
  • امریکا کو پھر دنیا کی طاقتور ترین معیشت بنانا چاہتے ہیں‘ ٹرمپ
  • ٹیرف میں اضافہ؛ ٹرمپ نے بھارت، چین اور برازیل کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نریندر مودی کو فون، دو طرفہ تعلقات پر گفتگو