Express News:
2025-01-31@01:20:33 GMT

افغانستان سے پاکستانی سلامتی کو خطرات

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا امریکی اسلحہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث رہا ہے۔ یہ ہتھیار دہشت گرد تنظیموں، بشمول ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ہم مسلسل کابل میں امر واقعہ حکام سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تمام ضروری اقدامات کریں تاکہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔

درحقیقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں جدید ہتھیاروں تک رسائی ایک بڑا خطرہ ہے، یہ جدید ہتھیار اس اسٹاک یعنی ذخیرے سے حاصل کیے گئے ہیں جو غیر ملکی افواج انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑ کر نکلیں۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے دوران کوئی ایسا سامان نہیں چھوڑا جسے دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔

تاہم، 20 جنوری کو اپنے حلف برداری کے دن واشنگٹن میں ایک ریلی میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’انھوں نے ہمارے فوجی سازوسامان، کا ایک بڑا حصہ، دشمن کو دیا۔‘‘ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امداد کو فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنی انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جارہے ہیں تو، انھیں بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انھیں رقم نہیں دیں گے۔‘‘

تاہم، طالبان نے مبینہ طور پر ہتھیاروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے انھیں مزید جدید ہتھیار فراہم کرے۔پاکستانی فوج گزشتہ دو دہائیوں سے ٹی ٹی پی کے خلاف دہشتگردی کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی دستیاب ہے۔ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک تنظیم (ٹی ٹی پی) ان ہتھیاروں تک رسائی کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ پاکستان پہلے ہی اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کی مکمل جانچ کرے کہ یہ ہتھیار کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگے اور وہ ان کو واپس کرانے کا راستہ تلاش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی افغانستان کی سرزمین پر کئی دہشت گرد گروپ موجود ہیں اور اس بات کے شواہد ہیں کہ انھیں افغانستان کی عبوری حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔

کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیمیں سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے تسلسل سے پیش آنے والے واقعات میں ملوث ہیں، جس سے ہمارے عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کا قابل ذکر جانی نقصان ہوا ہے جب کہ فوجی اور دیگر تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ حالیہ بیان سے قبل بھی پاکستان عالمی برادری کو خبردارکرچکا ہے کہ افغانستان کے اندر اور اس سے ہونے والی دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے واحد سنگین خطرہ ہے۔

افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر کر علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے اپنے چھ ہزار ارکان کے ساتھ ٹی ٹی پی ایک بڑ ا اور مضبوط گروپ ہے جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنی محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے افغانستان میں تعینات رہنے والی غیر ملکی افواج کی طر ف سے چھوڑے گئے کچھ جدید ہتھیار پکڑے ہیں۔ دہشت گرد گروپ کو بھارت کی طرف سے بیرونی حمایت اور مالی اعانت بھی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی تیزی سے دوسرے دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے والی تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کا مقصد افغانستان کے پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

ہمارے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان حملوں اور دہشت گرد کارروائیوں میں بہت سے دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوجاتے ہیں اور بچے کچھے واپس افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خود افغان عبوری حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر مٹی ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنے کی بجائے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو موجودہ افغان حکومت کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

اس طرح ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے افغان عبوری حکومت کی نیک نامی ہوگی اور افغانستان کی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر پہچان میں مدد کرے گی اور یہی سمجھنے اور قبول کرنے کا وقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو افغانستان میں موجود ہیں ان کے خلاف ٹھوس اور عملی کارروائی کی جائے۔دوسری طرف اس طرح کے دہشت گروہوں کا دوبارہ سر اٹھانا خود افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے،کیونکہ یہ گروہ افغانستان میں امن و استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں خود افغان حکومت بھی اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھ رہی ہے۔

افغان عبوری حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ مستقبل میں افغان حکومت اور افغانستان کے لیے بھی سنگین خطرے اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی اور تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر ملک اور پڑوسی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔

لاکھوں افغان بہن بھائیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی مہمان نوازی کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اب تک ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ، پروپیگنڈا مواد کی تواتر سے ترسیل، مقامی آبادیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں اور سابق علیحدہ ہونے والے گروہوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کالعدم تنظیم دوبارہ بحال ہونے کی کوشش میں کافی آگے بڑھ چکی ہے۔

بلکہ ٹی ٹی پی کے امیر کے بقول وہ زیادہ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں لیکن ایک حکمت عملی کے تحت محدود کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو واضح طور پر افغان طالبان کا دباؤ ہوسکتا ہے لیکن دوسرا ماضی کی طرح کسی علاقے پر قبضہ حاصل نہ کرنے کی نئی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔ علاقہ حاصل کرنے کے بعد اس کا دفاع اس سے بھی زیادہ مشکل پہلو بن جاتا ہے۔

پاکستانی طالبان کی اس قسم کی حکمت عملی بیوقوفی ہوگی لہٰذا وہ رفتہ رفتہ ملک اور حکومت کو کمزور کرنے کی حکمت علمی پر زیادہ کاربند ہیں۔ اس میں بھی وہ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کابل میں حکومت کی تبدیلی سے ٹی ٹی پی کو مزید تقویت اور حوصلہ ملا، جس سے حملوں میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں اور سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے سرحد پار حملوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کی۔افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو افغانستان سے باہر کارروائیاں نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود بہت سوں نے ایسا کیا جس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی۔ایک قابل ذکر پیش رفت ٹی ٹی پی کی صفوں میں افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

اہم پہلو یہ تھا کہ جس کی پاکستان بھی بارہا شکایت کر چکا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور انھیں مدد فراہم کی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ بڑی تعداد میں افغان طالبان اپنے ملک میں لڑائی کے خاتمے کے بعد سرحد پار متوجہ ہوئے ہیں۔ ان کے لیے بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھائیں۔

افغان عبوری حکومت’’دوحہ معاہدے‘‘ کے اپنے اس دعوے کو پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ دونوں ممالک کے ماحول اور ترقی کے مفادات کی طرح سیکیورٹی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک میں امن واستحکام دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ انکار کے بجائے افغان عبوری حکومت کو سرحدی ریاستوں کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ افغان طالبان حکومت اس پر غور کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں دہشت گرد گروپ افغانستان کے افغان طالبان دہشت گردی کے افغان حکومت جدید ہتھیار ہے کہ افغان سے ٹی ٹی پی سے پاکستان ٹی ٹی پی کی میں اضافہ ان کے لیے حکومت کو سرحد پار کے ساتھ خطرہ ہے کرنے کی رہی ہے ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں زیراستعمال، دفترخارجہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بدھ کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں چھوڑے گئے جدید فوجی سازوسامان سے لاحق حفاظتی خطرات پر روشنی ڈالی، اور اس بات پر زور دیا کہ یہ پاکستان اور اس کے شہریوں دونوں کی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان نے کابل میں حکام پر مسلسل زور دیا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔

امریکی فوجی سازوسامان، جس میں ہوائی جہاز، زمین سے زمین پر گولہ باری کرنے والے ہتھیار، گاڑیاں اور مواصلاتی آلات شامل ہیں، امریکی قیادت والے اتحاد کے انخلاء کے بعد افغانستان میں رہ گئے۔

(جاری ہے)

اگست 2021 میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے روانہ ہونے سے قبل امریکہ نے 70 سے زائد طیارے، درجنوں بکتر بند گاڑیاں اور فضائی دفاع کو ناکارہ بنا دیا تھا، تاہم اسلحے اور ساز وسامان کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے باوجود وہاں رہ گیا، جسے افغان طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

افغانستان سے امریکی انخلاء: ریپبلیکن رپورٹ میں بائیڈن پر س‍خت تنقید

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ اسلحے کالعدم عسکریت پسند تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) گروپ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بھی ہاتھ لگ گئے، جیسا کہ پاکستان اور دیگر نے اشارہ کیا ہے۔ اسلام آباد نے سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا بار بار اظہار کیا ہے اور اقوام متحدہ سے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں سے تمام ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے "مشترکہ مہم" کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹرمپ، بائیڈن اور طالبان کا کیا کہنا ہے

طالبان نے فوری طور پر زیادہ تر ملٹری ہارڈ ویئر پر قبضہ کر لیا، جس سے پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گیا۔

پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی ​​انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے دوران کوئی ایسا سامان نہیں چھوڑا جسے دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔

تاہم، 20 جنوری کو اپنے حلف برداری کے دن واشنگٹن میں ایک ریلی میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "انہوں نے ہمارے فوجی سازوسامان، کا ایک بڑا حصہ، دشمن کو دیا۔"

ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امداد کو فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنی انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، "اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جارہے ہیں تو، انہیں بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انہیں رقم نہیں دیں گے۔

"

امریکہ افغان ’صدمے‘ سے نکلے اور نئے خطرات سے نمٹے، مطالعہ

تاہم، طالبان نے مبینہ طور پر ہتھیاروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے انہیں مزید جدید ہتھیار فراہم کرے۔

پاکستان نے مزید کیا کہا؟

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا، "افغانستان میں امریکی جدید ہتھیاروں کی موجودگی، جو اگست 2021 میں اپنی فوجوں کے انخلاء کے بعد وہاں رہ گئی تھی، ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔

یہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرنے کے لیے استعمال کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم کابل کے حکام سے بارہا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ تمام ضروری اقدامات کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔

"

پاکستان اور بالخصوص صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 2024 میں اور مجموعی طور پر اگست 2021 کے بعد دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ ​​بندی کا ایک نازک معاہدہ توڑنے کے بعد سے دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

سات بلین ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا

امریکی محکمہ دفاع نے 2022 میں اپنی ایک رپورٹ می‍‍ں کہا تھا کہ سات بلین ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا ہے، جس میں سے زیادہ تر کو طالبان جنگجوؤں نے تیزی سے اپنے قبضے میں لے لیا۔

گوکہ امریکی افواج نے انخلاء کے آخری ہفتوں میں اپنی کچھ مشینری کو ختم کرنے یا تباہ کرنے کی کوششیں کیں، لیکن فوجی ہارڈ ویئر کی ایک قابل ذکر مقدار اس کے باوجود طالبان کے ہاتھ میں آگئی۔

افراتفری میں امریکی انخلا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران امریکہ نے طالبان کے ساتھ فوجیوں کے انخلاء کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن اس پر صدر جو بائیڈن کے دور میں عمل درآمد ہوا۔

حامد کرزئی حکومت کے اچانک خاتمے اور اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے اقتدار پر تیزی سے دوبارہ قبضے نے افغانستان می‍‍ں افراتفری کے حالات پیدا کردیے تھے، جس کا اختتام کابل کے ہوائی اڈے پر ایک مہلک خودکش بم دھماکے میں ہوا، جس میں تیرہ امریکی فوجی اور درجنوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔

ج ا ⁄ ص ز ( خبر رساں ادارے)

متعلقہ مضامین

  • افغان قبائل سے مذاکرات: خیبرپختونخوا حکومت کا وفد افغانستان بھیجنے کا اعلان
  • افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے خیبر پختونخوا سے وفدکی چند روز میں افغانستان روانگی متوقع
  • افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں زیراستعمال، دفترخارجہ
  • افغانستان میں امریکی جدید ہتھیاروں کی موجودگی خطے کی سلامتی کیلئے باعث تشویش ہیں، دفتر خارجہ
  • افغانستان میں امریکی اسلحہ دہشت گردوں نے پاکستان کیخلاف استعمال کیا، دفتر خارجہ
  • سلامتی کونسل‘ پاکستان نے انروا کے خاتمے کے خطرات سے خبردار کردیا
  • سلامتی کونسل: پاکستان نے انروا کے خاتمے کے خطرات سے خبردار کر دیا
  • طالبان نے افغان لڑکیوں کو پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی ’مشروط‘ اجازت دیدی
  • طالبان نے افغان لڑکیوں کو پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی مشروط اجازت دیدی