City 42:
2025-01-30@23:47:31 GMT

پیکا ایکٹ متنازع کیوں ؟ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ویب ڈیسک : پیکا ایکٹ ترمیمی بل،قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت  نے بھی   دستخط کردیے ،

آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج کا سبب بن رہا ہے؟صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ عطا تارڑ کے مطابق’پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔‘

ایک برس پرانے قتل کا مفرور قاتل پکڑا گیا 

مگر صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اس کے خلاف احتجاج کر رہی  ہیں ۔کیا یہ بل آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے اور صحافیوں ہی نہیں عام شہریوں کی بھی آواز دبائی جاسکتی ہے 

 ترمیمی بل کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔

بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون-اے کے تحت ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی، جس کا کام ’غیر قانونی مواد‘ کی روک تھام ہو گا۔

کھیلتا پنجاب گیمز کے تمام کھلاڑیوں کی لاٹری لگ گئی، سب کو ای بائیک ملیں گی

’غیر قانونی‘ مواد کی تعریف کیا ہے؟

بل کے مسودے کے مطابق  ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے جبکہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔

ایف آئی اے نے 2 انسانی سمگلر گرفتار کرلیے

منظور کردہ ترمیمی بل کے متن کے مطابق سزا دیے  جانے کے حوالےسے بتایا گیا ہے کہ 

 ’جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اسے ہو گی جو جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کوئی بھی معلومات کو پھیلاتا، عوامی طور پر ظاہر کرتا ہے، یا منتقل کرتا ہے، جسے وہ جانتا ہے یا جس کے متعلق اسے یقین کرنے کی کوئی وجہ ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے اور اس سے خوف پیدا کرنے یا پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں خوف و ہراس یا بدامنی پھیلتی ہو۔‘

لاہور؛ 245ٹریفک حادثات میں 296 افراد زخمی 

ریگولیٹری اتھارٹی

سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کی بقول اس قانون کے سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی اور رجسٹریشن کے معیارات کا تعین کرنے اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔

ٹک ٹاک کا شوق ایک اور جان لے گیا

یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد کی شکایت پر 24 گھنٹے کے اندر کارروائی کرے گی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔

یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30 روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہوئے کام کر سکے گی اور معلومات شیئر کر سکے گی۔

اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔

ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی جبکہ اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ان پانچ اراکین میں سے ایک صحافی ہو گا، جس کا 10 سالہ تجربہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی میں سافٹ ویئر انجینیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہوں گے۔نو اراکین پر مشتمل اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔

پیکا کے خلاف احتجاج کیوں؟

28 جنوری، 2025 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر انتظام پیکا قانون سازی کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

صحافی  ناصر زیدی نے بتایا کہ منظور کردہ بل میں قانون کے سکوپ کو وسیع کر دیا گیا ہے جس میں شخصی آزادی اور سزا کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جب بھی کوئی قانون لے کر آتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ یہ تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان کے لیے ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے سیکرٹری جنرل آصف بشیر چوہدری نے کہا ہم ’سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے غیرجانبدارانہ چیک یا ریگولیشن کے حامی ہیں اور شاید اسی لیے حکومت نے ہم سے مشاورت بھی نہیں کی تاکہ من پسند قانون لایا جا سکے۔‘ ’ہمارا اس پر ایک اور اعتراض ہے کہ فیک نیوز اور غیرقانونی مواد اتنے مبہم الفاظ ہیں کہ ان میں کسی بھی فرد کو لایا جا سکتا ہے، اس کی تعریف ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ بالکل صادق اور امین کی تعریف جیسا ہے۔‘

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر قانونی مواد اتھارٹی میں کر سکے گی کے مطابق کے خلاف بھی غیر گی اور کے لیے

پڑھیں:

متنازع پیکا ایکٹ کیخلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے متنازع پیکا ایکٹ کی منظور کے خلاف ہنگامی اجلاس کل طلب کرلیا ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں نے احتجاج کیا، دارالحکومت اسلام آباد میں پی ایف یو جے نے زنجیریں پہن کر احتجاج کیا اور ڈی چوک پر دھرنا دیا۔

پولیس نے احتجاج کے دوران پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کو روکنے اور حراست میں لینے کی کوشش کی، ڈی چوک میں لگی خاردار تاریں لگنے سے پی ایف یو جے کی ریلی میں شریک متعدد صحافی زخمی ہوگئے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی رپورٹ تیار

دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل پر سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے رپورٹ تیار کرلی۔

اس موقع پر خطاب میں افضل بٹ نے کہا کہ اگر چاہتے تو رکاوٹیں عبور کرکے پارلیمنٹ کی طرف جاسکتے تھے، آج پی ایف یو جے کی اپیل پر صحافی خیبر سے کراچی تک احتجاج کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان کے صحافیوں کا مشکور ہوں جو ملک بھر میں سڑکوں پر آئے، یہ حکومت بدحواس ہے جسے اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔

پی ایف یو جے کے صدر نے مزید کہا کہ جمہوری حکومتیں اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت کےلیے خود دعوت دیتی ہیں، یہاں ہم مشاورت کےلیے کہتے رہے اور حکومت نے بات تک نہیں سنی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم رولز کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہم آزادی صحافت پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔

صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ یہ قانون صحافت کا گلا گھونٹنے کی حکومتی کوشش ہے، اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگا دی گئی ہیں، پیکا قانون ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرتے، اب بات چیت کا دور ختم ہو چکا ہے اب بات سڑکوں پر ہو گی۔

متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر، لاہور اور کوئٹہ میں بھی احتجاج کیے گئے۔

صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے کہا کہ ہم چپ ہوکر بیٹھنے والے نہیں، اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے، آپ گر جائیں گے، ہم ڈٹ کر کھڑے رہیں گے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کریں گے، عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • صحافی سراپا احتجاج‘حکومت پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر نظر ثانی کرے: گورنر پنجاب
  • محراب پور کے صحافی پیکا کے کالے قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں
  • آن لائن مواد کی کڑی نگرانی:پیکا ایکٹ 2025ء کیا ہے؟
  • متنازع پیکا ایکٹ کیخلاف کراچی سے خیبر تک صحافی سڑکوں پر نکل آئے
  • متنازع پیکا ایکٹ؛ ملک بھر  میں صحافیوں کے احتجاج
  • لاہور، پیکا ایکٹ کیخلاف صحافی برادری سراپا احتجاج
  • پیکا ایکٹ کیخلاف لاہور کی صحافی برادری سراپا احتجاج، ایکٹ واپس لینے کا مطالبہ
  • پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف صحافی برادری کا ملک بھر میں احتجاج
  • متنازع پیکا ایکٹ کیخلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب