آن لائن گستاخانہ مواد پھیلانےپر 2 مجرمان کو سزائے موت سنادی گئی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ’آن لائن گستاخانہ مواد پھیلانے‘ کے جرم میں 2 افراد کو سزائے موت سنا دی۔
سیشن جج افضل مجوکہ نے سزا موت کے وارنٹ جاری کیے، وارنٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں مجرمان کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 (سی) کی خلاف ورزی پر موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔
دونوں وارنٹس میں لکھا گیا ہے کہ مجرمان کو اس وقت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے جب تک ان کی موت واقع نہ ہو جائے، تاہم یہ سزائے موت اسلام آباد ہائی کورٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔
جج نے نوٹ کیا کہ مجرمان سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کوٹ میں 30 دن کے اندر اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
مجرمان کو دفعہ 295 (بی) کی خلاف ورزی پر عمر قید جبکہ دفعہ 298 (اے) کے تحت تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی، اسی طرح پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کی دفعہ 11 کی خلاف وزری پر 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔
ملزمان کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد میں مقدمہ درج تھا۔
2021 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق ایک مجرم کو اسلام آباد میں ’گستاخانہ مواد واٹس ایپ گروپ پر پھیلانے ’ پر گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ 25 جنوری کو راولپنڈی کی ایک عدالت نے سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں 4 مجرمان کو سزائے موت سنائی تھی۔ عدالت نے مجرمان کو سیکشن 295 (سی) کے تحت سزائے موت، سیکشن 295 (بی) کے تحت 10 سال قید اور سیکشن 295 (اے) کے تحت 10، 10 لاکھ روپے جرمانے کا حکم بھی دیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام آباد سزائے موت مجرمان کو کے تحت
پڑھیں:
26 ویں ترمیم کی بنیاد ایک خط ہے جس نے ملک کا نظام بدل دیا، جسٹس محسن اختر کیانی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ 26 ویں ترمیم کی بنیاد ایک خط ہے جس نے پورے پاکستان کے نظام کو تبدیل کردیا، امید ہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اسے سنے گا اور یہ مسئلہ حل ہوگا۔
اسلام آباد میں ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی بنیاد ایک خط ہے، جس نے پورے ملک کا نظام بدل کررکھ دیا ہے، مجھے اس خط کا زکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مضبوط میڈیا چاہیے جو لوگوں کے سامنے ہر چیز سامنے رکھے، مضبوط بار چاہیے جن میں سے ججز منتخب کیے جائیں، ہر بار کا حق ہے کہ اس کو جگہ ملے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے ہم ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجیں گے، ہم یہاں اسلام آباد کے ہی ججز کو تعینات کریں گے، نئی تعیناتیاں بھی اسلام آباد سے ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ امیج بنا ہوا ہے کہ باہر سے ججز یہاں تعینات ہو جاتے ہیں اور یہاں کے ججز کا حق ختم ہو جاتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ جو جج تعینات ہو وہ اسلام آباد بار سے ہو۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک خط نے پورے ملک کے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، 26ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی ہے، میرا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ ہی سنے گا۔
انہوں نے کہاکہ یہ مسئلہ پاکستان کے عوام اور نظام کی بقا کے لیے حل ہو گا، ہمیں وہ آزاد جج چاہییں جو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھیں، لوگوں کی امید آج عدلیہ، پارلیمان اور میڈیا سے ہے۔