اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کے بعد قومی بچت اسکیموں پر منافع کی شرح میں بھی دو فیصد تک کمی کردی تاہم اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس، اکاونٹس، سروہ اسلامک ٹرم اکاونٹس، سروہ اسلامک سیونگ اکاونٹس پر منافع کی شرح میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے۔

سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ریگولر انکم سرٹیفکیٹ پرمنافعے کی شرح 12 فیصد سالانہ سے کم کرکے 11.

88 فیصد سالانہ کردی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بہبود سیونگز سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 13.92 فیصد سالانہ سے کم کرکے13.68 فیصد سالانہ کردی گئی ہے، پنشنرز سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح 13.92 فیصد سالانہ سے کم کرکے 13.68 فیصد سالانہ کردی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کے فیصلے کے تحت شہدا فیمیلیز ویلفیئر اکاونٹس پرمنافع کی شرح 13.92فیصد سالانہ سے کم کرکے13.68 فیصد سالانہ کردی گئی ہے، اس کے علاوہ تین ماہ کی مدت کے شارٹ ٹرم سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 3190روپے فی لاکھ سے کم کرکے2810 روپے فی لاکھ کردی گئی ہے۔

اسی طرح 6 ماہ کی مدت کے شارٹ ٹرم سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 6370 روپے فی لاکھ سے کم کرکے 5660 روپے فی لاکھ کردی گئی ہے اورایک سال کی مدت کے شارٹ ٹرم سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 12380روپے فی لاکھ سے کم کرکے 11380روپے فی لاکھ کردی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق سیونگز اکاونٹس پر منافع کی شرح 13.50 فیصد سے کم کرکے 11.50فیصد سالانہ کردی گئی ہے جبکہ سروہ اسلامک ٹرم اکاونٹس، سروہ اسلامک سیونگزاکاونٹس کے لیے منافعے کی شرح میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فیصد سالانہ سے کم کرکے منافع کی شرح 13 سروہ اسلامک فی لاکھ

پڑھیں:

پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بندرگاہوں کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہ کرنے، ٹیکس چوری، بدعنوانی، جعلی بلنگ، افغان تجارتی راہداری کے غلط استعمال اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان کے باعث پاکستان کو میری ٹائم سیکٹر میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے (18 ارب ڈالرز) کا نقصان ہو رہا ہے۔

اعلیٰ سطح کی ٹاسک فورس کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک باخبر سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ پورٹس کو مکمل استعداد کیساتھ استعمال نہ کرنے سے سرکاری خزانے کو 3190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

میری ٹائیم شعبے میں ٹیکس چوری سے 1120ارب، جعلی بلنگ اور بدعنوانی کی وجہ سے 313 ارب، ٹرانس شپمنٹ (ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ یا پھر وسطی ایشیا یا چائنا جیسے مقامات پر سامان کی منتقلی کا عمل) سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے 70 ارب، گوداموں کی کمی اور ویلیو ایڈیشن کی قلت سے 196 ارب، جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم کے غلط استعمال سے سالانہ 60 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔

یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے۔ اس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ زبردست صلاحیتوں اور جیو اسٹریٹجک فوائد کے باوجود پاکستان اصل صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر سکا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بھی بندرگاہ دنیا کی بہترین 60 بندرگاہوں میں شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق، عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ 61 ویں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 146ویں نمبر پر ہے۔

گزشتہ 10برسوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں سالانہ 3.3؍ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی کل صلاحیت (125 ملین ٹن) کا صرف 47؍ فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یہ ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ٹیکس کی وصولی 660؍ سے 1470؍ ارب روپے تک کے درمیان رہی ہے۔

پورٹ قاسم اتھارٹی ملکی کارگو کا 35؍ فیصد سنبھالنے والی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت کا کل 50؍ فیصد ہی استعمال کر رہی ہے جو 89؍ ملین ٹن ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں بندرگاہ سے جمع کیا جانے والا ٹیکس 690؍ ارب سے 1140؍ ارب روپے تک کے درمیان رہا ہے۔ پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی موجودہ صلاحیت 25؍ لاکھ ٹن ہے جو بندرگاہ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یعنی 2045ء تک بڑھ کر 40؍ کروڑ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اقتصادی لحاظ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیگر وجوہات کے علاوہ بحیرہ احمر کا بحران بھی پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کیلئے جیو اسٹریٹجک فائدہ سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات عالمی کمپنیاں مثلاً مرسک، ڈی پی ورلڈ اور ہچیسن پورٹس نے تسلیم کی ہے او ریہ کمپنیاں پاکستان کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر سمندری اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 19؍ لاکھ تربیت یافتہ سیلرز (Seafarers) عالمی جہاز رانی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں تربیت یافتہ سمندری سیلرز کی موزوں تعداد فراہم کرتا رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہوئی ہے۔

مکران اور سندھ کے ساحلوں کے ساتھ متنوع علاقہ جات میں بے پناہ صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹاسک فورس نے یہ بھی تجویز دی کہ شاندار ساحلی مقامات، تاریخی مقامات، آثار قدیمہ کے مقامات، قدیم مذہبی مقامات وغیرہ اگر درست انداز سے ترقی یافتہ ہوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔

یوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے دو لاکھ 40؍ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے خصوصی اقتصادی زون کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جسے اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔

یہ زون سمندر کی تہہ میں موجود وسائل سے مالا مال ہے جن میں تیل، گیس، اور دیگر معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ان وسائل کی تلاش اور قومی معیشت میں انضمام کیلئے اہم انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ایک سوچے سمجھے اور طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں
  • پنشنرز کیلئے خوشخبری،وفاقی حکومت نے فیملی پنشن رولز میں بڑی تبدیلی کر دی
  • فری پلاٹ سکیم، ٹی آو آرز کیلئے 8 رکنی کمیٹی قائم: سالانہ ایک لاکھ گھروں کی تعمیر ہر صورت ہو گی: مریم نواز
  • ارکان اسمبلی کی اسکیموں کیلیے 50 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری
  • سالانہ ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کا ہدف ہر صورت پورا کیا جائے:وزیراعلیٰ پنجاب
  • مریم نواز کی پنجاب میں سالانہ ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کا ہدف پورا کرنے کی ہدایت
  • حکومت کاسوئی گیس کمپنیوں کے منافع میں سے 82 ارب روپے منتقل کرنے کا فیصلہ
  • دوران ملازمت دنیا بھر میں سالانہ 27 لاکھ 80 ہزار مزدور ہلاک
  • پختونخوا اسمبلی: نگراں دور میں بھرتی ملازمین کو ہٹانے کا بل منظور