پاک بحریہ کا بحیرہ عرب میں کامیاب ریسکیو آپریشن، 8 ماہی گیروں کو بچا لیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
کراچی: پاک بحریہ نے بحیرہ عرب میں کامیاب ریسکیو آپریشن کے دوران 8 ماہی گیروں کو بچا لیا۔
جیونی کے جنوب میں موجود بلوچ ماہی گیروں کی القادری نامی کشتی انجن کی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ہوئی، کشتی میں موجود ماہی گیروں نے امداد کے لیے ریڈیو کالز دیں۔
کشتی کی کال کو جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر نے بروقت مانیٹر کیا اور پاک بحریہ کے میری ٹائم ہیڈ کوارٹرز سے ریسکیو آپریشن کی درخواست کی۔
پاک بحریہ کے سیکنگ ہیلی کاپٹر نے سبک رفتاری سے حادثے کے مقام پر پہنچ کر تمام 8 ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کیا۔
ریسکیو کیے گئے تمام ماہی گیر مقامی بلوچ ہیں جن کو طبی امداد کے لیے گوادر منتقل کیا گیا ہے، ریسکیو کیے گئے ماہی گیروں نے پاک بحریہ سے اظہارِ تشکر کیا۔
پاک بحریہ ملک کی بحری سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سمندر میں رونما ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ماہی گیروں پاک بحریہ
پڑھیں:
شدید بیمار پاکستانی بچے کا چین میں کامیاب علاج
ہیفے(شِنہوا) چین کے مشرقی صوبے آنہوئی کے دارالحکومت ہیفے میں سیپٹک جھٹکے سے بگڑنے والے سالمونیلا ٹائیفی سے ہونے والے میعادی بخار کا شکار 2 سالہ پاکستانی بچے کو زندگی بچانے والے علاج کے بعد صحت یاب ہونے پر آنہوئی پراونشل چلڈرن ہسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔
بچے کو مسلسل تیز بخار کے باعث21 مارچ کو ہسپتال داخل کرایا گیا۔ ابتدائی ٹیسٹوں میں سی ری ایکٹو پروٹین کی خطرناک حد تک بلند مقدار سامنے آئی جو کہ اہم انفیکشن کی علامت ہے۔ ہسپتال کے ہیماٹولوجی اور آنکولوجی شعبے کے ایسوسی ایٹ چیف فزیشن وانگ چھینگ جن نے کہا کہ غیر مستحکم علامات اور بخار میں مسلسل رونے کے باعث بچے کی حالت نازک تھی۔ اس کے والدین انتہائی پریشان تھے۔
ہسپتال میں داخلے کے دوران بچے کی حالت تیزی سے بگڑنے لگ گئی جس نےانیمیا اور تھرومبوسائٹوپینیا کو ظاہر کیا۔ ڈاکٹروں کو ہیموفیگوسائٹک لمفوہسٹوسائٹوسس(ایچ ایل ایچ) کی تشخیص کا شبہ تھا جو کہ ایک نایاب اور جان لیوا حالت ہے۔ وانگ نے سمجھایا کہ ایچ ایل ایچ کی تشخیص کے لئے 8میں سے 5معیار پورے کرنا ضروری ہیں۔ بچہ پہلے ہی 4 معیار پورے کر چکا تھا جس سے اس کی حالت بہت سنگین ہوگئی تھی۔
چین میں ایک دہائی تک قیام کرنے والےبچے کے والد محمد نصر احمد نے اس مشکل وقت کو اذیت ناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بیٹے کو تکلیف میں دیکھ کر بے بس ہوگئے تھے۔ میری بیوی، ہمارے خاندان اور میں نے دن رات اس کی صحت یابی کے لئے دعا کی۔
ہسپتال نے علاج کا موزوں منصوبہ تیار کرنے کے لئے کثیر جہتی طبی ٹیم کو متحرک کیا۔ درست اینٹی انفیکشن تھراپی اور انتہائی نگہداشت کے ذریعے بچے کی حالت مستحکم ہوگئی۔ وانگ نے کہا کہ یہ ایک خطرناک معاملہ تھا۔ خوش قسمتی سے بیماری ایچ ایل ایچ کی جانب نہیں بڑھی۔
نصر نے کہا کہ میں اپنے بچے کو بچانے پر چینی داکٹروں کا انتہائی شکر گزارہوں۔ انہوں نے کہا کہ طبی ٹیم نے نہ صرف ماہرانہ علاج فراہم کیا بلکہ انہیں بیٹے کی حالت اور علاج کے منصوبے پر آگاہ رکھنے کے لئے انگریزی زبان کا وی چیٹ گروپ بھی بنایا۔
طبی ٹیم نے ہمدردانہ دیکھ بھال پر بھی توجہ دی۔ نرسوں نے بچے کو نئے کپڑے تحفے میں دئیے اور نصر کے لئے رات گزارنے کے لئے ایک فولڈ ہونے والے پلنگ کا انتظام کیا۔نصر نے کہا کہ نرسوں کی مہربانی نے ہماری تشویش کم کرنے میں مدد دی۔
نصر نے14 دن ہسپتال میں قیام کو اجاگر کرتے ہوئےبھرپور شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی ڈاکٹروں اور نرسوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ہمدردی نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔ پاکستان اور چین آہنی بھائی ہیں۔ انہوں نے مقامی دوستوں اور پاکستان میں خاندان سے ملنے والے تعاون کا بھی حوالہ دیا۔
آنہوئی ایگریکلچر یونیورسٹی میں زرعی ریموٹ سینسنگ میں پوسٹ ڈاکٹرل محقق نصر حال ہی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہیفے منتقل ہوئے۔ان کا معاملہ بالخصوص زراعت میں چین اور پاکستان کے گہرے تعلقات کو ظاہر کرتا ہے جو پاکستان کی معیشت کا ستون ہے۔
یونیورسٹی کے بین الاقوامی دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ژانگ ہوا جیان نے کہا کہ بہت سے پاکستانی طلبہ یہاں جدید زرعی ٹیکنالوجیز سیکھنے آتے ہیں جس سے دوطرفہ تعاون کو فروغ ملتا ہے۔
ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد نصر نے ڈاکٹر وانگ کو اپنے گھر روایتی پاکستانی کھانے کی دعوت دی۔ وانگ نے کہا کہ بچوں کو صحت یاب ہوتے دیکھنا اور ان کے خاندانوں کا اعتماد حاصل کرنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہ کامیاب علاج چین کی بچوں کی نگہداشت کی صلاحیتوں میں ترقی اور صحت کے عالمی شعبے میں اس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
ہسپتال کے نائب صدر لیو ہونگ جن نے مساوی علاج کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سنگین حالت میں مبتلا بچوں کے علاج کے طریقہ کار موجود ہیں جس سے تشخیص اور علاج کو یقینی بنایا جا سکے۔