ممبر آف پارلیمنٹ انجینیئر رشید کل سے تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال شروع کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
گزشتہ سال جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دوران پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے انجینیئر رشید کو عبوری ضمانت دی تھی لیکن عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ جیل میں چلے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے جیل میں قید رکن پارلیمنٹ عبدالرشید شیخ عرف انجینیئر رشید نے جمعہ سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ ملنے کے خلاف کل سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال شروع کریں گے۔ انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ جی این شاہین نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ جی این شاہین نے کہا کہ جیل میں بند رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس میں شرکت کے لئے بار بار ضمانت کی درخواست دی لیکن انہیں ضمانت سے انکار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنما اپنے اے آئی پی کے لیڈر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے سرینگر اور جموں میں بھوک ہڑتال کریں گے۔ انجینئر رشید مبینہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کیس میں اگست 2019ء سے تہاڑ جیل میں ہیں۔ انہوں نے 2024ء کا پارلیمانی الیکشن جیل سے لڑا اور بارہمولہ پارلیمانی سیٹ سے 4 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے صدر اور ایم ایل اے سجاد لون کو بھاری اکثریت سے شکست دی۔
گزشتہ سال جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دوران پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے انجینیئر رشید کو عبوری ضمانت دی تھی لیکن عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ جیل میں چلے گئے۔ اس دوران دہلی ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لئے انجینیئر رشید کی عبوری ضمانت کی درخواست پر این آئی اے کا موقف طلب کیا۔ جسٹس وکاس مہاجن نے کہا "اگلی سماعت کی تاریخ سے پہلے ضروری کام مکمل ہونے دیں"۔ انجینیئر رشید نے پارلیمنٹ کے آئندہ بجٹ اجلاس میں شرکت کی درخواست کی تھی، جو 31 جنوری کو شروع ہو کر 4 اپریل کو ختم ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں بھوک ہڑتال اجلاس میں شرکت ضمانت کی جیل میں
پڑھیں:
عوامی بھوک اور عوامی نمائندوں کی تنخواہیں
کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک بھی ورکنگ کلاس کانمائندہ موجود ہے ؟ تو اس کا جواب ہے جی ہرگز نہیں کیا اِن نمائندگان کو کوئی معاشی مسئلہ درپیش ہے ؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ کیا انہیں موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیے ؟ محب وطن انسان اِس کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اِس وقت حکومت نہیں ریاست بچانے کے نعرے پر کام کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔پھرپاکستان تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی نے جب تنخواہ 10 لاکھ کرنے کا مطالبہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے کیوں ہو گئے ؟ حکومت کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ جن کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے اُن کاکرپشن میں سزا یافتہ قائدتو پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھنے کا خواہش مند ہے مگر نپولین نے ٹھیک کہا تھا کہ مشترکہ خطرہ بدترین دشمنوں کو بھی یکجا کردیتا ہے ۔ پہلے عمران نیازی مشترکہ خطرہ تھا جس نے بدترین نظریاتی مخالفین کو اکھٹا کردیا اور اب مشترکہ مفاد تھا سو کسی نے اِس پر احتجاج کرنا تودور کی بات اعتراض بھی نہیں کیا اور عوام کو درپیش مسائل کی بات بھی نہیں کی ۔ وہ تو خدا بھلا کرے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز کا جنہوں نے معاملہ بڑھنے نہیں دیا اور 10 لاکھ سے شروع ہونے والا مطالبہ 5 لاکھ 19ہزار میں کرا دیا اور تنخواہوں کے مطالبے کے ساتھ بھی پٹھان کے قالین والا حساب ہو گیا ۔اس سے پہلے صوبائی اسمبلیوں پر بھی یہ نوازشات ہو چکی ہیں ۔ 76 ہزار روپے لینے والے ایم پی اے کو 4 لاکھ روپے بغیر مطالبے کے دینا شروع کردئیے گئے ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے گھروں کا کرایہ ساڑھے تین لاکھ ٗ جوڈیشل الائونس 10 لاکھ کردیا گیا جو پہلے بالترتیب 64 ہزار اور 4 لاکھ28 ہزار ہوتا تھا ۔ ایف بی آر آفیسران کو بھی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت ریٹنگ اور ریوارڈ سسٹم کو شروع کرکے نئی گاڑیاں ٗ تنخواہوں میں اضافہ اور اضافی الائونس کی نوید دی گئی تھی ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی پولیس افسران کو بھی نقد انعام کی دوڑ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ اُن کی بہترین کارکردگی سامنے آ سکے ۔ بندہ خدا ! کوئی پاکستانی کسی کو ایم ۔ این ۔ اے بننے پر مجبور نہیں کرتا یہ لوگ ’’ خدمت کے جذبے ‘‘ سے سرشار بلندو بالا دعویٰ کرکے اِ ن مقدس مقامات تک رسائی کرتے ہیں اور پھر ہمیں یہ خدمات اربوں روپے میں پڑتی ہیں ۔کسی اعلیٰ ریاستی ملازم کو بھی سی ایس ایس کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا اوراُس کے علم میں ہوتا ہے کہ وہ کیا بننے جا رہا ہے اور وہاں کی سہولتیں اور مراعات کیا ہیں۔ لیکن اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے پر انعام ٗ سرٹیفکیٹ یا میڈل تو ہو سکتا ہے لیکن نقد رقم انعام نہیں لالچ ہوتی ہے جوایک نسل سے شروع ہو کر پھر نسل در نسل ٗ نسلوں میں سرایت کرجاتی ہے ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اِن انعامات سے عوام کو بھی محروم نہیں رکھا گیا کیونکہ کچے کا چھوٹا ڈاکو پکڑانے پر 25لاکھ اور بڑے قاتل اور ڈاکو کو گرفتار کرانے پر 50 لاکھ ۔ سو مجھے امید ہے کہ وہ نو جوان جو اچھے مستقبل کی تلاش میں دنیا کے گہرے سمندروں میں ڈوبتے ہیں ٗ برفانی پہاڑوں اور تنگ تاریک رستوں کو تاراج کرتے ہیں اُن کیلئے کچے کے ڈاکو تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔
عزیز پاکستانیو! قومی اسمبلی میں صرف عبد العلیم خان ایک ایسا ایم ۔این ۔ اے ٗ ہے جس کے پاس تین وزارتیں ہیں لیکن وہ سرکار سے کسی قسم کی کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیتا ٗ وہ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتا اور جو تین گاڑیاں انہیں استعمال کیلئے دی گئیں انہوں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیں ۔ وہ اپنے عملے کا کسی قسم کاخرچ سرکار پر نہیں ڈالتے ۔ اُن کے دفاتر میں ہونے والی تمام میٹنگز میں چائے کا گھونٹ بھی سرکاری خرچ سے نہیں ہوتا ۔ یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عبد العلیم خان بیرونی ممالک سے آئے وزراء اور معز ز مہمانوں کی خاطر داری اپنی جیب سے کرتے ہیں ۔ اُن کی مواصلات کی وزارت انہیں پاکستان بھر میں لئے پھرتی ہے جس میں اُن کی صلاحیتوں سے لے کر وسائل تک سب کچھ اُن کا اپنا ہوتا ہے ۔نجکاری کے حوالے سے بھی انہیں اکثر پاکستان سے باہر جانا پڑتا ہے لیکن عبد العلیم خان تمام فضائی اور بیرون ملک رہنے کے اپنے اور اپنے عملے کے تمام اخرجات کا ایک پیسہ حکومت سے نہیں لیتے ۔عبد العلیم خان کی فلاحی خدمات کے وسیع دائر ے کے نزدیک سے بھی کوئی وزیر مشیر نہیں گزرتا ٗ اِس کیلئے اُن کا الگ سے وسیع نیٹ ورک کام کرتا ہے جو ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کر کے عوامی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے ۔ جنہوں نے پاکستان کو کچھ دینا ہواُن کی سوچ کا دائرہ قومی خزانے کی وسائل کے گرد نہیں گھومتا ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ شخص جب سٹیج پر کھڑا ہو کر گفتگو کررہا ہوتا ہے تو اپنا گریبان کھول کر سب سامنے رکھ دیتا ہے ۔عبد العلیم خان کو دیکھ کر اللہ جانتا ہے کہ ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ انسان کی نیت ہی وہ حقیقی قوت ہے جو انسان سے اچھا یا بُرا کام کراتی ہے۔ عبد العلیم خان نے ثابت کیا کہ خدمت کرنے کیلئے انسان کے اندر پاکستانیت ٗ اسلامیت اور انسانیت ہونی چاہیے ورنہ ایم این اے اور ایم پی اے تو لوگ حادثاتی طور پر بھی بن جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ مشہور اوربدنام کے فرق کو سمجھ نہیں پاتے اگر یہ فرق انہیں معلوم ہوتا تو کبھی اداروں پرحملہ کرنے والوں ٗ پندرہ سال کے اقتدار کی سازش کرنے والوں ٗ سائفر کا ڈرامہ کرنے والوں ٗ ایبسلیوٹلی ناٹ کا راگ الاپنے والوں ٗ دنیا بھر کے جنسی سکینڈل میں ملوث رہنے والوں ٗ ریاست مدینہ کے نام پر مدینے والے سے جھوٹ بولنے والوں ٗ اپنے انتخابی منشور پر عمل نہ کرنے والوں کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے ۔ یہ عبد العلیم خان ہی تھا جس نے غیرت کی بنیاد پر عمران نیازی کو گڈبائے کہا اور اپنا نیا سفر شروع کردیا ۔وہ چھوٹے موٹے وہ کام جن کیلئے ایم این اے اور ایم پی اے مدتوں سرکار کی مدد کا انتظار کرتے رہتے ہیں ٗمیں نے بارہا عبد العلیم خان کو اپنی جیب سے کراتے دیکھا ہے ۔ آج پاکستان کا عام آدمی دکھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران انعام و اکرام کے ذریعے ’’مغلِ اعظم ‘‘ بنے حکومت چلا رہے ہیں۔ ان تنخواہوں کو ایک سال اور پھر چار سال سے ضرب دے کر دیکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں ۔ ایک طرف ہم اُن بزرگوں کی پنشن کو مختصر کر رہے ہیں جنہوں نے طویل عرصہ ریاست کو اپنی خدمات دی ہیں اور اب انہیںریاست کی مدد کی ضرورت ہے لیکن ریاست پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو ہی نواز تی جا رہی ہے۔