جرمنی: قدامت پسندوں کے امیگریشن منصوبے قانونی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) جنوبی جرمن شہر آشافن برگ میں حال ہی میں ایک چاقو حملے، جس میں ایک دو سالہ بچے اور ایک بالغ کی ہلاکت کی خبر نے ملک بھر میں تشویش پھیلا دی۔ اس کے بعد سے جرمن سیاستدانوں نے ملک کے امیگریشن قوانین پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور سے قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی زیر قیادت مرکز سے دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے بلاک کی طرف سے امیگریشن قوانین کو سخت تر کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگا۔
آشافن برگ کے واقعے کا حملہ آور ایک افغان شہری نکلا۔ اس مشتبہ ملزم کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی اور اسے ملک بدر کیا جانا تھا۔ اسی تناظر میں میرس نے امیگریشن سے متعلق اپنا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔
(جاری ہے)
جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی
میرس نے کہا ہے کہ اگر 23 فروری کو جرمنی کے وفاقی انتخابات میں CDU بلاک جیت جاتا ہے، تو وہ اپنے منصوبے کو جلد از جلد نافذالعمل بنانے کے لیے کام کریں گے۔
تاہم میرس کے اس منصوبے پر اہم سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا میرس کی تجاویز یا منصوبہ جرمن اور یورپی یونین کے قوانین کے تحت 'قانونی‘ ہیں۔'آخری حربہ‘
جرمنی ''شینگن فری موومنٹ ایریا‘‘ کا حصہ ہے اور اس طرح سرحدی چیکنگ کی اجازت محض ''عوامی امن یا داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرے‘‘ کی صورت میں ممکن ہے۔
شینگن کے اندر سرحدی چیکنگ پہلے بھی کی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر COVID-19 وبا کے دوران اور بعد میں دہشت گرد حملوں کے خطرات کے تناظر میں۔جیسے کہ اگست میں شہر زولنگن میں چاقو کے حملے کے بعد سے جرمنی میں سرحدی کنٹرول نافذ ہے۔ وہاں بھی، مشتبہ حملہ آور سیاسی پناہ کا ناکام درخواست گزار تھا اور اس کی ملک بدری کی تاریخ طے تھی۔
جرائم کے مرتکب شامی، افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے، میرس
یورپی یونین کے قوانین کے تحت بارڈر کنٹرول ''آخری حربہ‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اسے صرف ایک محدود مدت کے لیے ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کے اصولوں میں کھلی سرحدوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جرمنی کی 3,800 کلومیٹر طویل سرحد پر مسلسل کنٹرول یا گشت کی اجازت نہیں ہے۔داخلے پر پابندی
جرمنی کے قدامت پسند سیاستدان فریڈرش میرس کے منصوبے کا ایک اور حصہ متنازعہ ہے۔ یعنی مطلوبہ قانونی دستاویزات کے غیرحامل تمام افراد کی جرمنی میں '' داخلے پر پابندی‘‘۔
یہاں تک کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے بھی جو اپنے ملکوں میں کسی تنازعے کی صورت میں نہایت جلدی اور ایمرجنسی میں فرار پر مجبور ہوئے ہوں۔ہجرت کے قوانین کے ایک ماہر ڈینیئل تھیم نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا، ''یورپی یونین کے قوانین کا تقاضا ہے کہ پناہ کے متلاشیوں کو پہلے ملک میں داخل ہونے دیا جائے۔‘‘
تھیم کے مطابق ابتدائی چھان بین کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ آیا سیاسی پناہ کے کسی متلاشی کو یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔
انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے جرمن برطانوی معاہدہ طے
اس کے باوجود، کچھ خاص حالات میں پناہ گزینوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی قریبی رشتہ دار پہلے ہی وہاں پناہ کے لیے درخواست دینے کے عمل میں ہو، تو انہیں جرمنی میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کے ان معیارات کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہ صرف یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس سے لامحالہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات پیدا ہوں گے۔
آسٹریا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ جرمنی کی طرف سے مسترد کیے گئے کسی بھی پناہ گزین کو ''واپس نہیں لے گا۔‘‘ممکنہ قومی ایمرجنسی کا اعلان
جرمنی قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کے لیے کسی قانون کا استعمال کر سکتا ہے اور اس طرح اپنی قومی سرحدیں بند کرنے کی اجازت کو ممکن بنا سکتا ہے۔ زولنگن شہر کے حملے کے بعد فریڈرش میرس نے دیرپا سرحدی چیکنگ کو نافذ کرنے کے امکانات کے لیے یورپی یونین کی فعالیت کا معاہدے (TFEU) کے آرٹیکل 72 کا ذکرکیا تھا۔
اے ایف ڈی کی فتح سے نسل پرستی بڑھے گی، تارکین وطن کا خدشہ
ایسے کسی اقدام کے سامنے بھی تاہم کئی مشکلات حائل ہوں گی۔ برلن حکومت کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملک ایک قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کیونکہ جرمنی میں موجودہ سرحدی کنٹرول حالیہ برسوں میں غیر قانونی نقل مکانی میں نمایاں کمی کا باعث بنا ہے۔
تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہم کیوں؟
موجودہ سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹ جماعت (SPD) کی زیرقیادت حکومت نے اپنے فوری ردعمل میں اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر حقائق یہ بھی ہیں کہ اس طرح غیر قانونی پناہ گزینوں کو یورپی یونین کے اسی ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے۔
عوامی جائزوں میں میرس کا بلاک عوامی مقبولیت میں آگے ہے۔
اگر فریڈرش میرس جرمنی کے آئندہ چانسلر کا عہدہ حاصل کر لیتے ہیں، تو بھی ان کی حکومت کے لیے اس پانچ نکاتی منصوبے کی منظوری مشکل ہو گی۔ ان کی حکومت کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہو گا کہ جرمنی کو سیاسی پناہ کی درخواستوں یا جرائم کی غیرمعموملی لہر کا سامنا ہے۔ اس کے بعد بھی، سرحدی قوانین کو کھولنے کے لیے مستثنیات کی اجازت دینا یورپی عدالت برائے انصاف (ECJ) کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک، ای یو کی کسی رکن ریاست کی طرف سے ایسا کوئی استثنیٰ حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ک م/ ع ت )نینا ویرک ہوئزر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین کے قوانین سیاسی پناہ قوانین کے کی اجازت سکتا ہے پناہ کے ہے اور کیا جا اور اس کے لیے کے بعد
پڑھیں:
امریکا میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا کے لیے خطرے کی گھنٹی، 122 کی امیگریشن حیثیت منسوخ
ٹیکساس: امریکا میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے تعلیمی ویزا پر خطرے کی تلوار لٹکنے لگی، خصوصاً ریاست ٹیکساس میں، جہاں 122 سے زائد غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ یا ان کی امیگریشن حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
یہ تبدیلیاں امریکی نظام Student and Exchange Visitor Information System (SEVIS) میں کی گئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان طلبہ کی قانونی حیثیت اب خطرے میں ہے۔ حکام کی جانب سے اب تک کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آئی، تاہم امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سخت پالیسیوں، سوشل میڈیا مانیٹرنگ اور حالیہ سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
ٹیکساس کی متاثرہ یونیورسٹیوں میں نمایاں تعداد یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس اور یونیورسٹی آف ٹیکساس، آرلنگٹن کے طلبہ کی ہے، جن میں ہر ایک سے 27 طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ دیگر یونیورسٹیوں میں ڈیلس، ایل پاسو، ریو گرینڈ ویلی، اے اینڈ ایم، ویمنز یونیورسٹی، اور ٹیکساس ٹیک شامل ہیں۔
امریکی محکمہ داخلہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ طلبہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کرے گا تاکہ "یہودی مخالف" مواد پر نظر رکھی جا سکے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بعد سامنے آیا، جن کا تعلق فلسطین کی حمایت میں کیمپس مظاہروں سے ہے۔
امیگریشن وکیل نعیم سکھیا کے مطابق SEVIS سے نکالنا کسی بھی طالب علم کو امیگریشن نظام سے فوری طور پر باہر نکال دیتا ہے، جس سے نہ صرف ان کا تعلیمی مستقبل، بلکہ اُن کے اہل خانہ کی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے طلبہ کو فوری طور پر اپنے DSO سے رابطہ اور Reinstatement کی درخواست دینے کا مشورہ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر #SaveTexasStudents کے ہیش ٹیگ کے تحت ایک مہم بھی چل رہی ہے، جس میں انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بعض طلبہ تنظیمیں اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
یونیورسٹیوں کی جانب سے طلبہ کو تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، تاہم موجودہ صورت حال نے بین الاقوامی طلبہ کے لیے امریکا میں تعلیم کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔