UrduPoint:
2025-01-30@22:04:00 GMT

پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا طویل سفر

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا طویل سفر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا عمل ایک پیچیدہ داستان کی طرح ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا، جب حکومت نے مدارس کو ایک ضابطے کے تحت لانے کی کوشش کی تاکہ ان کے نصاب، فنڈنگ اور تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔

مدارس کی رجسٹریشن کا عمل دنیا بھر میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا کہ مدارس پر یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ وہ شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔

یہاں شبہات ان کی فنڈنگ اور فنڈنگ سورسز پر بھی اٹھتے رہے کیونکہ مدارس پر دیگر تعلیمی اداروں کی طرح چیک اینڈ بیلنس ناکافی تھا۔

2002 میں پہلی بار فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں مدارس کو سرکاری اداروں کے ساتھ منسلک کر کے رجسٹر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ عمل ہر بار کسی نہ کسی تنازعے کا شکار ہو کر ناممکن ہی ہو جاتا رہا۔

(جاری ہے)

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 17738 رجسٹرڈ مدارس موجود ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ صوبہ پنجاب میں ہیں۔

پنجاب میں ان کی تعداد 10012 ہے جبکہ بلوچستان میں یہ تعداد 575 بنتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں مدارس کی تعداد تو 4005 ہے لیکن طلبا کی تعداد سب سے زیادہ اسی صوبے میں ہے۔ یہ تعداد اندازاً 1283024 بنتی ہے جبکہ پنجاب میں یہ تعداد 664065 کے لگ بھگ ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں ان تمام مدارس کو محکمہ تعلیم کی سرپرستی میں دے دیا گیا تھا تاکہ ان کی فنڈنگ وغیرہ محکمہ تعلیم ہی کے ذریعے کی جاتی رہے اور یکساں نصاب بھی متعارف کرایا گیا تھا تاکہ مدارس کے بچے بھی سائنسی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

یہ پورا عمل خیبر پختونخوا میں اے پی ایس حملے کے بعد کافی تیزی کے ساتھ کیا گیا۔ مدارس کی محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے حوالے سے الگ سے ایک ادارہ بنایا گیا، جسے ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیئس ایجوکیشن کہا جاتا ہے اور جس کی سربراہی سابق میجر جنرل غلام قمر کر رہے ہیں۔

اس ڈائریکٹوریٹ کے تحت مدارس کو تعلیمی ادارے سمجھتے ہوئے ان کی رجسٹریشن وزارت تعلیم میں ہوتی ہے، اس کے علاوہ ان کا سالانہ آڈٹ ہوتا ہے اور ان کے نصاب میں مرحلہ وار جدید علوم کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

اس محکمے کے تحت مدارس میں طلبا کو گرانٹس دی جاتی ہیں اور مدارس میں تعلیم کے خواہاں غیر ملکی طلبا کو ویزا بھی جاری کیا جاتا ہے۔ اس ڈائریکٹوریٹ کے ملک بھر میں کل 16 دفاتر قائم ہیں جہاں مدارس کو رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

واضح طورپر محکمہ تعلیم کے ساتھ منسلک کرنے سے مدارس بھی حکومتی فنڈنگ اور چیک اینڈ بیلنس یعنی آڈٹ کے دائرے میں آئے اور عام تعلیمی اداروں اور مدارس کے طلبا کے درمیان نصابی مضامین کا فرق بھی کم ہونا شروع ہوا۔

متعدد دینی جماعتیں اس فیصلے سے ناخوش تھیں۔ شاید مدارس کا کنٹرول حکومتی اختیار میں دینے سے علماء کا ہولڈ ان پر کمزور ہو رہا تھا کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا ووٹ بینک یہی مدارس اور ان کے طلبا رہے ہیں۔

2024 میں 26 وی ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ مولانا فضل الرحمن نے دینی حلقوں کے دو مطالبات کو منظور کروانے کی شرط رکھی بصورت دیگر حکومت کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی، پہلا سودی نظام کا خاتمہ اور دوسرا دینی مدارس کی رجسٹریشن کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے ماتحت لانا اور مولانا اپنے ان دونوں مطالبات کو منوانے میں کامیاب بھی رہے۔

سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے مطابق دینی مدارس کی رجسٹریشن ڈپٹی کمشنر کرے گا نا کہ محکمہ تعلیم۔ موجودہ ترمیمی مسودہ میں ایک رجسٹرڈ مدرسہ اپنے ذیلی کیمپس بغیر کسی رجسٹریشن کے کھول سکے گا۔ ہر مدرسہ سالانہ آڈٹ رپورٹ جمع کرائے گا، آڈٹ ایک آڈیٹر کرے گا اور آڈٹ رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی مدرسہ اشتعال انگیز یا شدت پسندی کی حمایت والا مواد نہیں پڑھائے گا۔

عمران خان کے دور حکومت میں مدارس اور تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب کو لاگو کیا گیا جس کا مقصد روایتی تعلیمی اداروں اور مدارس میں جانے والے طالب علموں میں تدریسی فاصلے کو کم کرنا تھا لیکن عمومی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا کے والدین کی جانب سے اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا کہ اس یکساں نصاب نے تعلیمی اداروں کے طلبا کو مدارس کے طلبا کے معیار پر لا کھڑا کیا ہے اور مجبوراﹰ انہیں اسی نصاب کو پڑھنے پر مجبور بھی کیا جا رہا ہے۔

ابتدا میں یہ نصاب چھٹی جماعت تک لاگو کیا گیا تھا۔

پاکستان میں دینی مدارس کے حوالے سے عمومی خیال یہ ہے کہ وہاں پڑھنے والا بچہ شدت پسندانہ اور پر تشدد خیالات کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ دہشت گردی میں ملوث بڑے گروپوں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر پر تشدد گروپوں کے کچھ ارکان پاکستان میں قائم دینی مدارس ہی سے منسلک رہے ہیں اور اس بارے میں بہت سی رپورٹیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

اکتوبر 2019 میں پاکستان تحریک انصاف نے وزارت داخلہ، سکیورٹی ایجنسیوں اور صوبوں کے ساتھ پانچ سال سے زائد طویل مشاورت کے بعد دینی مدارس کو 'تعلیمی ادارے‘ سمجھتے ہوئے انہیں محکمہ تعلیم کے تحت ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت کا مطالبہ چند مذہبی گروپوں نے بھی تسلیم کر لیا۔

مدارس کے اس نئے طریقہ کار کو جہاں کچھ مدارس نے مثبت مانا اور کہا کہ اس سے مدارس کے تعلیمی نظام پر مثبت اثر پڑا ہے، وہیں دوسری جانب جمعیت علماء اسلام (ف) نے نہ اسے 2019 میں تسلیم کیا اور نہ ہی آج، 2019 کے بعد سے جمعیت کے بہت سے مدارس تو رجسٹر ہی نہیں کرائے گئے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دینی مدارس کی رجسٹریشن تعلیمی اداروں محکمہ تعلیم پاکستان میں مدارس کو مدارس کے تعلیم کے کے طلبا کے ساتھ کے بعد ہے اور کے تحت

پڑھیں:

پاکستان کے دورے پر آئے افراد کے لیے فون رجسٹریشن کی سہولت

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے پاکستان کے دورہ کرنے والے مسافروں کو عارضی بنیادوں پر فون رجسٹر کرنے کی سہولت کی یاددہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ 120 دن سے زیادہ قیام رکھنےئ والے افراد اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے میں موبائل ڈیوائس رجسٹریشن پر ٹیکس رقم کیسے معلوم کی جا سکتی ہے؟

ایک پریس ریلیز میں پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ پاکستان آنے والوں کو مختصر مدت کے لیے رجسٹریشن کی عارضی سہولت دی جاتی ہے  لہٰذا اب 120 دن سے زیادہ قیام کرنے والے اپنے موبائل فون باقاعدہ رجسٹرڈ  کراسکتے ہیں۔

پی ٹی اے نے کہا کہ پاکستان میں موبائل فون لانے والے مسافر اپنی ڈیوائس رجسٹرڈ  کرائیں اور رجسٹریشن کے لیے ایف بی آر کے مقرر کردہ ٹیکس کی ادائیگی بھی یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیے: 5 جی ٹیکنالوجی کے اجرا میں حائل چیلنجز کیا ہیں؟ پی ٹی اے نے بتادیا

واضح رہے کہ  بیرون ملک سے آنے والے افراد کو موبائل فون رجسٹریشن میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ انہیں پاکستان میں استعمال کے لیے بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا تھا۔

حکومت نے اس حوالے سے نرمی برتتے ہوئے 60 دن کی عارضی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی تھی لیکن اس مدت کو اب 120 دن تک بڑھادیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ٹی اے غیر ملکیوں کے لیے فون رجسٹریشن فون رجسٹریشن

متعلقہ مضامین

  • سائنس کے فروغ کیلیے رواں تعلیمی سال کو ’’سائنس ان سندھ‘‘ کے نام سے منانے کا اعلان
  • والدین ہم قدم، تعلیم میں والدین کی شمولیت کے نئے دور کا آغاز
  • کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
  • پاکستان کے دورے پر آئے افراد کے لیے فون رجسٹریشن کی سہولت
  • وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات یکم فروری سے شروع ہوں گے
  • طالبان نے افغان لڑکیوں کو پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی ’مشروط‘ اجازت دیدی
  • نوجوان کی محبت میں آنیوالی امریکی خاتون کا کراچی ایئرپورٹ پر طویل انتظار
  • طالبان نے افغان لڑکیوں کو پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی مشروط اجازت دیدی
  • وفاق المدارس العربیہ کے تحت سالانہ امتحانات کا آغازیکم فروری سے ہوگا