میں نے نہیں بلکہ متھیرا نےمجھے۔۔۔!!! چاہت فتح اپنے دفاع کیلئےمیدان میں آگئے
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
سوشل میڈیا پر گانے گاکر مشہور ہونے والے چاہت فتح علی خان نے متھیرا کی جانب سے لگائے گئے الزامات مسترد کردیے۔
چاہت فتح علی خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں نے متھیرا کی کمر پر نہیں بلکہ متھیرا نے میری کمر پر ہاتھ رکھا تھا، شو ہِٹ ہوگیا تو اب مجھ پر ہراسگی کا الزام عائد کررہی ہیں، میں نے ان کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے وکیل سے رجوع کر لیا ہے۔انسٹاگرام پر جاری ویڈیو میں چاہت فتح علی نے کہا کہ متھیرا اب سوشل میڈیا پر آکر میرے خلاف باتیں کر رہی ہیں جب کہ انہوں نے خود منت سماجت کرکے مجھے اپنے شو میں مدعو کیا تھا اور شو بہت اچھا ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ دورانِ انٹرویو متھیرا نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے 52 گانے ریلیز کیے، اتنی جلدی اتنے سارے گانوں کی شوٹ کیسے کی؟ تو میں نے کہا کہ شو کے بعد بتاؤں گا اور جب شو ختم ہوا تو فوٹو سیشن کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس وقت کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے اس میں واضح ہے کہ میں نے نہیں بلکہ متھیرا نے میری کمر پر ہاتھ رکھا تھا جس پر میں نے انہیں سیدھا کیا اور کہا کہ اس طرح تصویر کھنچواتے ہیں۔
چاہت فتح علی خان نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دوسری ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس ویڈیو میں متھیرا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ میرا گانا کیسے شوٹ ہوتا ہے، گانے کی شوٹنگ کے دوران متھیرا نے بھی خوب انجوائے کیا جسے سب دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ شو کے دوران مجھ سے اتنے سوال کیے لیکن میں نے ہنس کر جواب دیا تاکہ شو ہٹ ہو جب شو ہٹ ہو گیا تو متھیرا مجھ پر ہراسگی کا الزام عائد کر رہی ہیں، میرے خلاف بیان دے رہی ہیں، خاموش نہیں ہو رہیں، میں نے انہیں ہراساں نہیں کیا، میں نے اپنے وکیل سے رجوع کر لیا ہے، میں انہیں عدالت میں لے کر جاؤں گا۔
چاہت فتح علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ متھیرا نے مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ میں شو پر اپنی ٹیم کے ساتھ گیا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تمام ویڈیوز میری نہیں، یہ ویڈیوز متھیرا کے شو کی ٹیم نے ریکارڈ کیں اور جاری کیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر چاہت فتح علی کہ متھیرا نے کہا کہ کہ میں
پڑھیں:
سوشل میڈیا نے مادری زبانوں سے ہمارا تعلق مضبوط کیا یا کمزور؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) گزشتہ برس ستمبر میں لوک سُجاگ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس کے مطابق ”گزشتہ پانچ برسوں میں 25 سے 30 لاکھ پنجابیوں نے اپنی مادری زبان پنجابی سے بدل کر اردو کر لی۔" مذکورہ تحقیق اس رجحان کی مختلف سماجی وضاحتیں پیش کرتی ہے، جن میں سے ایک پنجابی والدین کا بچوں کے ساتھ اردو بولنے کا فیصلہ تھا، جس کے بعد اگلی دو نسلوں میں زبان بدل کر رہ گئی۔
اگرچہ بہت سے ماہرین زبانوں کے اندراج کے معاملے میں مردم شماری کے طریقہ کار اور عملے کی جلد بازی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر وہ بھی اس حقیقت سے انکاری نہیں کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں کئی گھرانوں کی زبان اُردو بنتی جا رہی ہے۔
ماہرین اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ایجوکیشن سسٹم کو سمجھتے ہیں، جہاں مادری زبانوں کو کچھ خاص لفٹ نہیں کروائی جاتی۔
(جاری ہے)
مادری زبانیں کس حد تک ہمارے ایجوکیشن سسٹم کا حصہ ہیں؟پاکستان میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے، جہاں سندھی زبان کو چوتھی سے بارہویں کلاس تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں سرکاری اور نجی اسکولوں کی تفریق نہیں۔
سن 2011 میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے میں پہلی سے پانچویں جماعت تک مادری زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا عملی نفاذ 2018 میں ہوا۔
ماں بولی: چھ نکات ڈھاکے والے اور چار تقاضے پشاور کے
ڈی ڈبلیو اُردو سے بات کرتے ہوئے مردان کے پرائمری اسکول ٹیچر عالمگیر خان بتاتے ہیں، ”صوبے میں ابتدائی طور پر پانچ مادری زبانیں بطور لازمی مضمون پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ آج پشتو، ہندکو، سرائیکی، کھوار اور کوہستانی زبانیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ مگر پرائیویٹ اسکولوں کا الگ نظام ہے، جہاں مقامی زبانیں پڑھانے کا سلسلہ شروع ہی نہیں ہو سکا۔
"معلم اور دانشور عابد میر بلوچستان کی صورتحال واضح کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”بلوچستان میں کوئی بھی مادری زبان اسکول کی سطح پر رائج نہیں۔ نہ بلوچی، نہ براہوی، نہ پشتو، نہ سندھی، سرائیکی، نہ کوئی اور زبان۔"
کیا اس حوالے سے صوبائی حکومتوں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی؟ عابد میر کہتے ہیں، ”ڈاکٹر مالک کی حکومت میں مادری زبانوں کے پرائمری سطح کے قاعدے بنائے گئے مگر انہیں پڑھانے والے ٹیچر ہی دستیاب نہ تھے، سو وہ پراجیکٹ ناکام رہا۔
"پنجاب یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایجوکیشن سسٹم میں کسی بھی سطح پر مادری زبان کا مضمون لازمی نہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سماجی دانشور احمد کہتے ہیں، ”مادری زبانوں اور ایجوکیشن سسٹم کی بحث کافی حد تک غیر متعلق ہو چکی۔ ایجوکیشن سسٹم کا روایتی ڈھانچہ چند برسوں کا مہمان ہے۔ ویسے بھی آپ کو یہاں کیا توقع ہو سکتی ہے کہ جو کام 75 برس میں نہ ہوا، وہ اب ہو گا؟ اب ہمیں بدلتی دنیا کے تناظر میں مادری زبانوں کی بقا اور نفاذ کا جائزہ لینا ہو گا۔
" نئی نسل اور 'مادری زبان‘ کا بدلتا مفہوماحمد اعجاز کہتے ہیں، ”پہلے یہ تھا کہ بچے کی ساری تعلیم و تربیت کا انحصار روایتی ایجوکیشن سسٹم پر تھا، جو اب تبدیل ہو چکا۔ آج کے بچوں کے لیے سب سے بڑا سکول 'سکرین‘ ہے۔ انہیں کچھ پوچھنا ہو تو وہ گوگل سے پوچھتے ہیں والدین یا اساتذہ سے نہیں۔ وہ یوٹیوب سے ایسے کارٹون دیکھتے ہیں جن کی زبان انگریزی یا فرانسیسی ہوتی ہے، وہ انہی کی طرح سوچتے، انہیں جیسا لباس پہنتے اور انہیں کی زبان میں بات کرتے ہیں۔
ان کے لیے مادری زبان وہ نہیں، جو ان کی ماں بولتی ہے بلکہ وہ ہے جسے وہ موبائل اور ٹی وی پر سنتے ہیں۔ ہماری زبانوں، جن پر ہم بہت جذباتی ہوتے ہیں، ان میں لکھی ہوئی ہماری کتابیں ہمارے بچے نہیں پڑھیں گے۔"ماہر لسانیات زیف سید بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہمارے چھوٹے بچوں کو بے پناہ متاثر کر رہے ہیں۔
دو تین سال کے بچے، جو ٹائپ نہیں کر سکتے وہ آڈیو فنگشن سے اپنی مرضی کی چیزیں تلاش کر کے دیکھتے ہیں۔ وہ انگریزی اتنی ہی روانی سے بولتے ہیں، جیسے ہم پشتو یا پنجابی بولتے تھے۔"وہ ایک اور اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ”کروڑوں کی آبادی والے ملک میں ایسے بچے بہت معمولی تعداد میں ہیں، اس لیے میرا خیال ہے یہ مقامی زبانوں کے لیے 'خطرے کی گھنٹی‘ جیسا عمل نہیں۔
البتہ کم تعداد کے باوجود یہ بچے زیادہ موثر ہوں گے، یہ ایک طرح سے آئندہ نسلوں کی مٹھی بھر اشرافیہ ہو گی، یہ بچے مقامی کلچر سے زیادہ انٹرنیشنل کلچر سے خود کو ہم آہنگ محسوس کرتے ہیں۔ ہم یہ ایسے بچوں کی بات کر رہے، جو گزشتہ آٹھ دس برس میں پیدا ہوئے۔ ان سے بڑے بچوں کا سوشل میڈیا سے تعلق مختلف نوعیت کا ہے۔" سوشل میڈیا نے کس طرح مادری زبانوں سے ہمارا تعلق مضبوط کیا؟پنجاب کا اپنی ماں بولی سے تعلق نسبتاً زیادہ کمزور ہے مگر آپ دیکھیں تو گزشتہ کچھ برسوں سے پنجابی مسلسل اپنے مقامی تہوار منا رہے ہیں، کانفرنسیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس پہلی بار پنجابی اسمبلی میں اُردو اور انگریزی کے علاوہ پنجابی، سرائیکی، میواتی اور پوٹھوہاری زبانوں میں تقاریر کرنے کی اجازت دی گئی۔پنجابی زبان کے مصنف اکمل شہزاد گھمن سمجھتے ہیں کہ ثقافت اور زبان کے حوالے سے پنجاب کے بدلتے ہوئے رویے میں سوشل میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”ہمارے پنجاب میں پنجابی گانا سننا خالص'پینڈو‘ کام سمجھا جاتا تھا۔
اب آپ دیکھیں کہ شہروں کے ممی ڈیڈی بچے یو یو ہنی سنگھ اور دلجیت دوسانجھ کو سن رہے ہیں۔ پنجاب کے دور افتادہ گاؤں میں ننگے پیروں والے پس ماندہ طبقات کے بچے بھی 'جٹ محکمہ‘ پر ڈانس کر رہے ہیں اور لبرٹی یا بحریہ کے برگر بھی۔"وہ کہتے ہیں، ”یہ ایک زبان تک محدود نہیں، سب زبانوں کا معاملہ ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں کے بچے مقامی رنگوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے فیس بک اور انسٹا پیج بنا کر بیٹھے ہیں۔
ان کی لاکھوں میں فالوونگ ہیں، ایک پوری مارکیٹ ڈویلپ ہوئی ہے۔ جھومر، ہو جمالو اور چھاپ کبھی اتنے باعث فخر نہ تھے، جتنے آج ہیں۔"زبان کا ارتقا
زیف سید کہتے ہیں، ”سوشل میڈیا نے پس منظر میں رہنے والے کئی موضوعات کو فرنٹ پر لا کھڑا کیا، جس میں سے ایک مقامی کلچر اور مادری زبان ہے۔ اب مقامی زبانوں میں زیادہ مواد تخلیق ہو رہا ہے۔
چند برس پہلے آپ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ محض خوبصورت انداز میں پوٹھوہاری بولنے پر لاکھوں لوگ آپ کے فین کلب میں شامل ہو جائیں گے۔"وہ ایک خدشے کا اظہار کرتے ہیں، ”بہت چھوٹے بچے سیکھنے کے لیے اچھے ویژولز پر انحصار کرتے ہیں۔ دلچسپ تصاویر اور گرافکس انہیں اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ہم ان کے لیے مواد ہی تخلیق نہیں کر رہے۔ باقی زبانیں تو کیا اردو میں بھی ڈھنگ کا کوئی یوٹیوب چینل نہیں۔ آج یہ معمولی تعداد میں شہری بچے سہی مگر دائرہ روز بروز پھیلتا جائے گا اور ہمارے دیہات بھی اس کی لیپٹ میں آئیں گے۔ ایسے انقلاب سے پہلے بظاہر ایک ہی راستہ ہے کہ بچوں کے لیے مادری زبانوں میں دلچسپ مواد تخلیق کریں۔"