حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) ریڈ کراس کے حوالے کیے گئے اسرائیلی فوجی اگام بیرگر ان آٹھ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے پہلی تھی، جنہیں حماس کی طرف سے آج رہا کیا جا رہا ہے۔ یہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم آج جمعرات کو ہی مزید دو اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ ساتھ پانچ تھائی باشندوں کو بھی رہا کرنے والی ہے۔ ان آٹھوں افراد کو اسرائیلی جیلوں سے آج ہی 110 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا جا رہا ہے۔
مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف
رواں ماہ کے اوائل میں غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا یہ اپنی نوعیت کا تیسرا تبادلہ ہے۔
(جاری ہے)
بیس سالہ بیرگر کو ان چار دیگر اسرائیلی خاتون فوجیوں کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا، جنہیں حماس نے حال ہی میں رہا کر دیا تھا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان نازک قرار دی جانے والی فائر بندی کا مقصد غزہ میں جنگ کو ختم کرنا اور ان درجنوں یرغمالیوں کو رہا کرانا ہے، جنہیں اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے اکتوبر 2023ء میں یرغمال بنالیا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی طرف سے زیر حراست فلسطینیوں یا باقاعدہ سزا یافتہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی اس فائربندی معاہدے کا حصہ ہے۔
غزہ: نوے فلسطینی قیدی رہا
غزہ سیزفائر کے بعد سے پچھلے صرف تین دنوں میں ہی لاکھوں فلسطینی خوشی خوشی شمالی غزہ واپس آئے۔ تاہم ان کی وطن واپسی تلخ و شیریں رہی، کیونکہ تقریباً ہر کسی کا کوئی نہ کوئی دوست یا رشتے دار اس جنگ میں ہلاک ہو چکا ہے۔ پندرہ ماہ کی اس جنگ کے دوران غزہ پٹی کے بیشتر علاقے اور محلے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بیرگر کی واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''بیرگر اب واپس اسرائیلی سرزمین پر آ گئی ہیں۔‘‘
فوج نے ایک بیان میں کہا، ''تھوڑی ہی دیر پہلے بیرگر سرحد پار کر کے اسرائیلی علاقے میں داخل ہوئیں۔‘‘
ادھر تل ابیب کے ایک چوک میں لوگوں نے بیرگر کی اسرائیل واپسی کو بڑی اسکرینوں پر دیکھا اور خوشی سے تالیاں اور سیٹیاں بجائیں۔
دو یرغمالوں کی رہائی خان یونس میںفائر بندی معاہدے کے تحت حماس جمعرات کو مزید دو اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ ساتھ پانچ تھائی یرغمالیوں کو بھی رہا کر رہی ہے۔
ان کی رہائی کے لیے ایک اور 'ہینڈ اوور پوائنٹ‘ جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ جگہ حماس کے مارے جانے والے رہنما یحییٰ سنوار کے تباہ شدہ گھر کے سامنے ہے۔
وہاں بھی ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔جمعرات کو رہا ہونے والے دیگر دو اسرائیلیوں کا نام اربیل یہود اور گاڈی موسیٰ ہے۔ پانچ تھائی شہریوں کی رہائی بھی متوقع ہے لیکن سرکاری طور پر ان کی شناخت ظاہرنہیں کی گئی۔
اسرائیل اس ماہ کے شروع میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اس طرح کے تیسرے تبادلے میں آج 30 نابالغ افراد سمیت مزید 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے والا ہے۔
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی
پڑھیں:
ہم ریاست فلسطین کے قیام کے اپنے حق سے کبھی دستبردار نہ ہونگے، حماس
فلسطینی مزاحمتی تحریک کے رکن سیاسی بیورو نے اعلان کیا ہے کہ حماس نے مذاکرات جاری رکھنے کیلئے ایک وفد مصر بھیجا ہے جبکہ حماس کا اصرار ہے کہ یہ وفد صرف اور صرف اسی معاہدے کو قبول کریگا کہ جو جنگ کے مستقل خاتمے اور غاصب صیہونی فوج کے مکمل انخلاء کا باعث ہو گا! اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن سیاسی بیورو باسم نعیم نے اعلان کیا ہے کہ حماس کا ایک وفد جنگ بندی مذاکرات جاری رکھنے کے لئے قاہرہ میں موجود ہے۔ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے فلسطینی قوم، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی اپنے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہو گی، باسم نعیم نے کہا کہ حماس کا یہ وفد جنگ کے خاتمے، انسانی امداد کے لئے بارڈر کراسنگز کے دوبارہ کھولنے اور سماجی معاونت کمیٹی کی تشکیل کے طریقوں پر بات چیت کے لئے قاہرہ میں موجود ہے۔ حماس کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ سماجی معاونت کمیٹی کی تشکیل پر نہ صرف فلسطین اور عرب و اسلامی ممالک کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی قبول کیا جاتا ہے تاکہ وہ غزہ میں حکومتی امور کو منظم کر سکے اور اس کی تعمیر نو کے لئے سازگار حالات فراہم کر سکے۔
ادھر العربی الجدید نے بھی ذرائع سے نقل کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ حماس کے ایک وفد نے خلیل الحیہ کی سربراہی میں آج قاہرہ میں مصری انٹیلیجنس کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں ان ناموں پر تبادلہ خیال اور غور کیا گیا کہ جو غزہ میں شہری مسائل کو سنبھال سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مصر کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی میں مستقبل کا نظم و نسق ایسا ٹیکنوکریٹک ہونا چاہیئے کہ جس پر تمام فلسطینی جماعتوں اور بیرونی ممالک کا اتفاق ہو۔