مہران بیس حملوں میں اربوں کے طیارے تباہ ہوئے، کیا نو مئی کا جرم زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیس کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ نجی ٹی ی وی ڈان نیوز کے مطابق دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیس کا بھی ذکر ہے، پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کل دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا، مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے کہا یہ تم نے کیا بول دیا؟ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ 21 ویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیس کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشت گرد مارے گئے تھے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشت گردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل 21 ویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرا مقدمہ یہ نہیں کہ ان ملزمان کو چھوڑ دیا جائے، مقدمہ صرف یہ ہے کہ سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، کیوں حکومت کو سول عدالتوں پر اعتماد نہیں؟ 54 سال سے سویلینز کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے، جسے ختم ہونا چاہیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی 9 مئی کے ملزم نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو پڑھا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سویلینز اور یونیفارمڈ میں کیا کوئی فرق ہوتا ہے؟ فوجی سول جرم کرے تو اس کو تو سارے حقوق ملتے ہیں۔ وکیل احمد حسین نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو قانون سازی کے ذریعے ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، عام شہریوں کو تو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سویلین، فوجی کے ساتھ مل کر جرم کرے تو کیا ٹرائل نہیں ہوگا؟ وکیل نے موقف اپنایا کہ کل اگر تمام جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا تو کیا ہوگا؟ سویلینز کے ٹرائل کو درست کہنے کے لیے کہنا ہوگا کہ تمام بنیادی حقوق اس ٹرائل میں محفوظ ہیں۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ویں ترمیم کے فیصلے میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس جمال مندوخیل نے نے ریمارکس دیے کہ سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں طیارے تباہ ہوئے جی ایچ کیو حملہ زیادہ سنگین ہے خواجہ حارث نے وکیل خواجہ مئی کا جرم نے کہا کہ کا ٹرائل ہوا تھا کے تحت
پڑھیں:
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: عدالت نے 9 مئی مقدمات سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں مانگ لیں
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کے علاوہ دیگر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی تفصیلات فراہم کرے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی فرد پر الزامات عائد کرنے سے قبل تحقیق کی جاتی ہے؟
جس پر جسٹس علی مظہر نے وضاحت دی کہ پہلے تفتیش کی جاتی ہے، پھر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ٹرائل اور منصفانہ ٹرائل میں کیا فرق ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ اگر ملزم کے پاس وکیل نہ ہو تو کیا وہ سرکاری خرچ پر وکیل حاصل کر سکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں حکومت ملزم کو وکیل فراہم کرتی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہر ملزم کو عدالت کا پسندیدہ بچہ سمجھا جاتا ہے، تو کیا فوجی عدالتوں میں بھی ملزم کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ملزم کو تمام قانونی حقوق اور تحفظ فراہم کیے جاتے ہیں۔
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ بطور چیف جسٹس بلوچستان میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنیں، اور ان فیصلوں میں کبھی بھی یہ نہیں لکھا جاتا کہ ملزم قصوروار ہے یا نہیں، جب ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے جس میں تمام عدالتی کارروائی اور شواہد شامل ہوتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ جب عام شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوتا ہے تو کیا میڈیا اور ملزم کے اہلخانہ کو اس کی کارروائی تک رسائی ہوتی ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ قانون میں ان دونوں کو رسائی دینے کا ذکر ہے، تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں رسائی نہیں دی جاتی۔
دوران سماعت، جسٹس نعیم اختر نے وزارت دفاع کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر دیگر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی مثالیں فراہم کریں۔
جسٹس حسن اظہر نے مزید سوال کیا کہ کیا جو افسر کیس کی سماعت کرتا ہے، اس کے پاس تجربہ ہوتا ہے یا وہ پہلی بار اس منصب پر بٹھایا جاتا ہے؟ کیا جج ایڈووکیٹ بھی عدالت میں موجود ہوتا ہے اور کیا وہ کورٹ مارشل کر سکتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ ججز کے ساتھ جج ایڈووکیٹ بھی موجود ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ان فیصلوں کا عوامی سطح پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمیں ایک بے لگام معاشرتی صورتحال کا سامنا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سیشن ججز کو 20، 20 سال کی محنت کے بعد یہ منصب ملتا ہے، لیکن اب ایسا ہو رہا ہے کہ آٹھ ججز کے فیصلے کو دو ججز غلط قرار دیتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں وقفہ دے دیا۔