صدر ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو حراست میں لینے کے ” رائلی ایکٹ“پر دستخط کر دیئے
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جنوری ۔2025 ) صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو حراست میں لینے کے ” رائلی ایکٹ“پر دستخط کر دیے ہیں اس قانون کے تحت ان غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا جا سکے گا جن پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام ہے . یہ قانون 22 سالہ لیکن ریلی ریاست جارجیا میں نر سنگ کی طالبہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جسے فروری 2024 میں وینزویلا کے شہری ہوزے انتونیو ابارا نے اس وقت ہلاک کردیا تھا جب وہ جوگنگ کر رہی تھی ہوزے ایبارا غیر قانونی طور پرامریکہ میں مقیم تھے انہیں نومبر میں مجرم پایا گیا تھا اور عدالت نے بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنائی تھی.
(جاری ہے)
ایکٹ پر دستخط کرنے کی تقریب کے دوران مقتولہ لیکن ریلی کے والدین اور بہن بھائی بھی موجود تھے اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ گرمجوشی اور مہربانی کی روشنی تھیں جو آج ہو رہا ہے یہ آپ کی بیٹی کو زبردست خراج عقیدت ہے قبل ازیںصد رٹرمپ نے کہاتھا کہ وہ ایک ایسے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کریں گے جس میں پینٹاگان اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ جرائم کے مرتکب غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتانامو بے کے حراستی مرکزمیں رکھیں اس فوجی اڈے کو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. صدرٹرمپ نے کہاکہ یہ ایک تاریخی قانون ہے جو ہم آج بنا رہے ہیں یہ ان گنت جانیں بچانے والا ہے صدر ٹرمپ میکسیکو سے تارکین وطن کی امریکہ آمد روکنے کے لیے سرحد کو سیل کرنے اور امریکہ میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے سے متعلق کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر چکے ہیں. ایگزیکٹو آرڈر بنیادی طور پر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسی دستاویز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں ایگزیکٹو آرڈر میں وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے ری پبلکن سینیٹر کیٹی برٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے کئی دہائیوں سے ملک کے اندر اور سرحدی مسائل کے حل پراتفاق تقریباً ناممکن رہا ہے. انہوں نے غیرقانونی تارکین وطن سے متعلق قانون سازی کو انتہائی اہم امیگریشن انفورسمنٹ بل قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ کانگریس سے تقریباً تین دہائیوں بعد اس کی منظوری ہو گی پیو ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 تک امریکہ میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ دس لاکھ تھی دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ ہر دور میں امریکا سے غیرقانونی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کیا جاتا رہا ہے اورمروجہ طریقہ کارکے تحت صدرجوبائیڈن کی انتظامیہ کے چارسالہ دور میںساڑھے تین لاکھ کے قریب غیرقانونی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کیا گیا اسی طرح نائن الیون حملوں کے بعد صدر بش کے عہد صدارت میں بہت بڑی تعداد میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو بے دخل کیا گیا. ڈیموکریٹ صدر باراک اوبامہ دونوں ادوار صدارت کے دوران بھی لاکھوں کی تعداد میں غیرقانونی طور پر امریکا میں مقیم لاکھوں لوگوں کو بے دخل کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے صددور کے ادوار میں بے دخلیوں کا سلسلہ جاری رہا مگر اسے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت خاموشی سے جاری رکھا گیا اور کسی بھی انتظامیہ اسے اپنی سیاسی کامیابی کے طور پر میڈیا میں پیش نہیں کیا . برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“کی ایک رپورٹ کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک بمشکل ایک ہزار افراد کو ڈی پورٹ کیا ہے مگر پوری دنیا میں ایک خوف کی فضاءپیدا کردی گئی ہے جس سے امریکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ غیرقانونی تارکین وطن حکومتی امدادی پروگراموں سے مستفید نہیں ہوسکتے مگر وہ شہری ‘ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو مختلف مدوں میں ٹیکس کا ایک بہت بڑا حصہ ادا کرتے ہیں اسی طرح وہ گھروں کے کرائے‘اشیاءضروریہ کی خریداری‘توانائی کے استعمال سمیت تمام تر ضروریات پر ٹیکس اداکرتے ہیں. رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو امریکا سے بے دخل کیا جاتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر خوف وہراس پیدا کرنے کی پالیسی سے گریزکی وجہ سے اس کی میڈیا پر اس طرح سے بڑے پیمانے پر تشہیر یا اعلانات نہیں ہوتے رہے جیسا کہ واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کے عہد کے آغازمیں ہورہا ہے بڑے پیمانے پر بے دخلی کے پروگرام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں بہت ساری قانونی رکاوٹیں موجود ہیں صدر کا ایگزیکٹیو آرڈر حتمی قانون کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ بعد میں آنے والا صدر ان صدارتی حکم ناموں کو منسوخ کرسکتا ہے اسی طرح عدالتیں بھی ان حکم ناموں کا جائزہ لے کر انہیں منسوخ یا عمل درآمد روکنے کا حکم دے سکتی ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غیرقانونی تارکین وطن قانونی تارکین وطن کو ایگزیکٹو آرڈر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کیا گیا کے لیے رہا ہے کہ میں
پڑھیں:
ٹرمپ کا 30 ہزار تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کا اعلان
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بدنام زمانہ گوانتاناموبے ملٹری جیل میں 30 ہزار غیرقانونی تارکین وطن کو قید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ جیل 9/11 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
ٹرمپ نے یہ چونکا دینے والا اعلان اس وقت کیا جب انہوں نے لاکن ریلی بل پر دستخط کیے، جس کے تحت چوری اور پُرتشدد جرائم کے الزام میں دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن کو مقدمے سے پہلے حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس بل کا نام جارجیا کی نرسنگ کی طالبہ کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے گزشتہ سال وینزویلا کے ایک شہری نے قتل کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا کہ وہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کر رہے ہیں، جس میں پینٹاگون اور ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ گوانتاناموبے میں 30 ہزار تارکین وطن کو رکھنے کے لیے انتظام شروع کریں۔
انہوں نے دوسرے دورِ اقتدار کے آغاز پر تارکین وطن کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتاناموبے سے نکلنے کو ’ایک مشکل مقام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلان کیے گئے اقدامات ہمیں اپنی کمیونیٹیز میں تارکین وطن کے جرائم کے مسئلے کو ہمیشہ ختم کرنے کے لیے ایک قدم اور قریب لے آئیں گے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں مقتولہ امریکی طالبہ کے والدین کی میزبانی کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم لاکن کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ آج کے اقدام سے، ان کا نام بھی ہمارے ملک کے قوانین میں ہمیشہ زندہ رہے گا، اور یہ ایک بہت اہم قانون ہے۔‘
وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد یہ پہلا بِل ہے، جس پر ٹرمپ نے دستخط کیے ہیں۔ 20 جنوری کو ٹرمپ کی حلف برداری کے صرف دو دن بعد ریپبلکن کی زیر قیادت امریکی کانگریس نے اسے منظور کیا تھا۔
وینزویلا کے 26 سالہ جوز انتونیو ابارا کو 2024 میں لاکن ریلی کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا، جب وہ ایتھنز میں جارجیا یونیورسٹی کے قریب صبح کے وقت لاپتہ ہوگئیں۔
لیکن گوانتانامو کا اعلان ہی وہ چیز ہے جو میڈیا میں سرخیاں بنائے گا۔
القاعدہ کے 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے یہ جیل کھولی تھی، جہاں کئی افراد کو غیرمعینہ مدت کے لیے رکھا گیا۔ جن پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، یہ لوگ افغانستان، عراق اور دیگر آپریشنز کے دوران پکڑے گئے تھے۔
آغاز پر کیوبا کے مشرقی کنارے پر واقع اس جیل میں تقریباً 800 افراد کو رکھا گیا تھا۔ قیدیوں کے بیانات میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ان کے ساتھ ہونے والے تشدد اور بدسلوکی کا ذکر گیا گیا ہے، جس پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے۔
بدھ کے روز کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل نے ٹرمپ کے منصوبے کو ’ظلم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کو ایسے مراکز کے قریب رکھا جائے گا جو امریکہ نے تشدد اور غیرقانونی حراست کے لیے استعمال کیے تھے۔
سابق ڈیمو کریٹک صدور جوبائیڈن اور باراک اوباما نے جیل کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن دونوں اپنے دورِ حکومت کے اختتام تک اسے بند نہ کر سکے۔