کیا 9 مئی کا جرم مہران اور کامرہ بیس حملوں سے زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 30 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا ہے کہ مہران اور کامرہ بیس حملوں میں اربوں کے طیارے تباہ ہوئے، کیا 9 مئی کا جرم زیادہ سنگین ہے؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیل پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا،مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات عام تاثر میں کی، میں نے یہ کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے، کل کی آبزرویشن میں ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، میڈیا کے کچھ ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔

آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے: وکیل وزارت دفاع

دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، 21ویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کیلئے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔

جی ایچ کیو پر حملہ کرنیوالوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو کورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا نو مئی کا جرم ان دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہونگی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔

وکیل وزارت دفاع کے دلائل مکمل

اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا رہے ہیں، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔

نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے: عدالت

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیے کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیں، نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے، جس پر وکیل بلوچستان حکومت نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جس میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو چار سال کیلئے شامل کیا گیا، پہلے دو سال کیلئے ملٹری کورٹس بنیں بعد میں دو سال کی توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی تک ترمیم کے تناظر میں بحال ہے؟

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کیلئے ترمیم ہوئی تھی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن ٹو ون ڈی ٹو پر کسی عدالتی فیصلے میں بحث نہیں ہوئی، سیکشن ٹو ون ڈی ٹو مخصوص افراد کیلئے ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق بلا تفریق ملک کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔

پنجاب اور بلوچستان حکومت نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے

بعدازاں پنجاب اور بلوچستان حکومت نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے ، وزارت داخلہ،وزارت قانون اور شہدا ء فاؤنڈیشن نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کہا گیافوجی عدالت سے فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں رٹ کی گنجائش ہے، رٹ دائر کرنے کی گنجائش بنیادی حقوق سلب کرنے کا جواز نہیں بن سکتی، رٹ سننا یا نہ سننا ہائیکورٹ کی صوابدید پر ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سول ملزم اور فورسز سے وابستہ ملزم میں فرق نہیں ہونا چاہیے؟ ایک سویلین کو آئین بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، آئین سب سے سپریم لاء ہے۔

سویلین اور فورسز سے وابستہ ملزم میں فرق ہونا چاہیے: ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ بالکل دونوں ملزمان میں واضح فرق ہونا چاہیے، مسلح افواج میں جانے والے نے خود کو آرمی ایکٹ کے تابع کرنے کی رضامندی دی ہوتی ہے، ایک عام شہری کا معاملہ اس سے الگ ہوتا ہے، سپریم کورٹ میں آئین کا آرٹیکل آٹھ تین پڑھنا چاہوں گا، یہاں کہا گیا آرمی ایکٹ کو آرٹیکل آٹھ میں بنیادی حقوق سے مستثنیٰ کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ آرٹیکل آٹھ تین میں آرمڈ فورسز کے “ممبرز” کا ذکر ہے، آئین سازوں نے آرمڈ فورسز کے “ممبرز” کا ذکر کر کے سب واضح کر دیا، واضح ہو گیا اس قانون کا اطلاق عام شہریوں پر نہیں ہے، اگر عام شہریوں کیلئے گنجائش چھوڑنا ہوتی تو الفاظ مختلف ہوتے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پھر آرٹیکل آٹھ تین میں ممبرز آف آرمڈ فورسز کے بجائے صرف آرمڈ فورسز ہوتا؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ جی بالکل ممبرز کا ذ کر آنے سے طے ہو گیا عام شہریوں کا وہاں ٹرائل نہیں ہوگا، دوسرا نکتہ ہے کہ عام شہریوں کا اندر گٹھ جوڑ ہو تو ٹرائل ہو سکتا ہے، گٹھ جوڑ کے الفاظ بھی آئین یا قانون میں نہیں صرف ایک فیصلے میں ہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث خواجہ حارث کے دلائل اپنا جسٹس جمال خان مندوخیل نے مہران اور کامرہ بیس جسٹس حسن اظہر رضوی سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں خواجہ احمد حسین وکیل وزارت دفاع بلوچستان حکومت زیادہ سنگین ہے نے جواب دیا کہ خواجہ حارث نے ا رمڈ فورسز عام شہریوں سپریم کورٹ ا رمی ایکٹ جی ایچ کیو مئی کا جرم ا رٹیکل 175 فیصلے میں نے کہا کہ ترمیم کے کے فیصلے کا ٹرائل کہا کہ ا ہوا تھا کرنے کی کے تحت کا ذکر

پڑھیں:

سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور قائم مقام چیف جسٹس کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔ دلائل کے آغاز میں وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔ جسٹس علی مظہر  نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سینارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نےجواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔

جسٹس علی مظہر نے کہا آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کر کے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکر آتا ہے۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اور جوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 3 ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبالے اور انہیں کام سے روکنے کے لیے 7 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • 9 مئی حملوں کے مقدمات  4 ماہ میں نمٹانے کا حکم،  سپریم کورٹ نےہر پندرہ دن بعد رپورٹ مانگ لی
  • سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
  • سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد
  • 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز :سپریم کورٹ کا بڑا حکم
  • 9 مئی کیسز، اے ٹی سی کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لیں
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • سپریم کورٹ کی 9مئی واقعات سے متعلق کیسز کا ٹرائل چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • 9 مئی: سپریم کورٹ نے ملزمان کی ضمانت منسوخی کی اپیلیں نمٹادیں، 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت