Daily Ausaf:
2025-01-30@21:23:17 GMT

The Art of the Deal اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بڑے نظریئے کے ساتھ جینا انسان کا بڑا اور اہم وصف ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تاریخ میں وہی لوگ زندہ ہیں جنہوں نے کوئی نیا نظریہ یا زندگی گزارنے کا نیا فلسفہ پیش کیا ۔مگر اکیسویں صدی کے پر آشوب دور میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کا کو ئی نظریہ یا جینے کا کوئی فلسفہ نہیں مگر بہت کم ناکامیوں کے ساتھ ڈھیروں کامیابیاں اس کے در پر دستک دیتی دکھائی دیتی ہیں ۔وہ حال ہی میں دوسری بار ایک سپر پاور کا صدر بننے میں کامیاب ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک متنازع شخصیت کا حامل شخص جس کی زندگی کاروباری کامیابیوں سے مزین ہے، مگر سیاست کے میدان میں مطلق غیر روایتی طرز سے داخل ہوا اور دنیا بھرمیں ایک منفرد مقام حاصل کرلیا۔ بنیادی طور پر اس کی زندگی کا محور و مرکز کاروبار رہا ہے۔ڈونلڈ نے اپنے نام ’’ٹرمپ‘‘ کو ایک برانڈ کے طور پر استعمال کیا اور کامیابی کی علامت بن گیا۔ٹرمپ کا قول ہے کہ’’ایک مضبوط برانڈ اعتماد پیدا کرتا ہے اور مارکیٹ میں آپ کو ممتاز کرتا ہے‘‘۔
ٹرمپ کی کا روباری حکمت عملیوں کا مرکز ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ، برانڈنگ ،نیٹ ورکنگ تھی۔وہ ہمیشہ بڑے خواب دیکھنے اور دبنگ فیصلے کرنے کا قائل رہا ۔ٹرمپ نے 1987ء میں اپنے ایک دوست ٹونی شوارٹز کے ساتھ مل کر ایک کتاب”The Art of the Deal” لکھی جو گیارہ ابواب پر مشتمل ہے ،جس میں ٹرمپ کے کاروباری اصول اور روزمرہ کے شیڈول درج ہیں ۔جن میں اس امر کا ذکر ہے کہ وہ مختلف منصوبوں پر کس طرح کام کرتے ہیں۔اس کتاب میں ٹرمپ نے کاروباری ڈیل میں کامیابی کے گیارہ اصول درج کئے ہیں۔’’کام کا ہفتہ وار شیڈول بنانا‘‘ ’’بڑے خواب دیکھنا‘‘ ’’دوسروں سے بہتر تیاری کرنا‘‘ ’’خطرات مول لینا‘‘ ’’کبھی شکست تسلیم نہ کرنا‘‘ ’’ہمیشہ متبادل رکھنا‘‘ ’’زیادہ سے زیادہ ممکنات پر بات کرتے ہوئے معاملات میں لچک رکھنا‘‘ ’’گاہک کو خوش رکھنا‘‘ ’’کہیں کمزوری نہ دکھانا‘‘ ’’دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنا‘‘ اور ’’ہر تفصیل پر گہری نظر رکھنا‘‘۔
مذکورہ کتاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی متعدد پروجیکٹس کی کہانیاں لکھی ہیں ۔اس کتاب نے ٹرمپ کی شہرت کو چار چاند لگادئیے اور امریکی میڈیا نے ان کی مقبولیت کو عروج پر پہنچا دیا اور یہ کتاب 48 ہفتوں تک نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلررہی۔”The Art of the Deal” نے ہر عمر کے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا۔فقط پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ہی نہیں دیگرپیشوں سے منسلک ہزاروں افرادنے اس کتاب سے استفادہ کیا اور اپنی کاروباری زندگی کو بنانے سنوارنے میں کامیاب وکامران ہوئے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر کوئی نظریہ کوئی مخصوص سیاسی منشور نہ رکھنے کے باوجود، اس پر مستزاد ایک انتہائی متنازعہ سیاسی کردار رکھے والے ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار امریکہ کے صدر بن گئے۔امریکہ کے یہ دوسری بارمنتخب ہونے والے سنتالیسویں صدرکے والد فریڈ ٹرمپ بھی ریئل اسٹیٹ کے ایک کامیاب ڈیلر تھے جنہوں نے نیویارک میں زیادہ ترمتوسط درجے کے رہائشی تعمیراتی منصوبے انجام دیئے۔انہوں نے اپنے بیٹے کو ملٹری اکیڈمی نیویارک اور فورڈم یونیورسٹی سے تعلیم دلوانے کے بعد وائن سکول آف فنانس،یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے اکنامکس میں ماسٹر کروانے کے بعد ریئل اسٹیٹ کے کاروبار ہی سے منسلک کردیا اور ان کا کامیاب کاروباری فرزند دنیا کی سپرپاور کا صدر بن گیا ۔
2025ء کے پہلے ہی مہینے ٹرمپ نے دوسری بار امریکہ کے صدر کا حلف اٹھایا ہے۔پہلے دورصدارت میں بھی ان کی پالیسیز جارحانہ رہیں اور ان کے رویوں میں بھی تلخیاں بہت رہیں ،وہ اپنا تمام عرصہ اقتدار خود کو اور امریکہ کو عالمی سطح پرایک طاقتور ملک بنانے کے جنون میں رہے ۔ انہوں نے دیگر طاقتوںکے ساتھ گرم جوش تعلقات بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی اپنی ایک الگ حیثیت بنانے میں سرگرم رہے ۔انہوں نے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا تصور قوم کے سامنے رکھا اور دوسری بار صدر بننے میں بھی اپنے اس aim پرقائم رہے۔وہ امریکی معیشت کے بارے حد سے زیادہ فکر مند ہیں اورحوالے سے وہ نئے دور حکومت میں تجارتی معاہدوں کی تشکیل نو پرتوجہ دیں گے ۔چین کے ساتھ تعلقات میں سخت تجارتی رویہ اپنائیں گے تاکہ صنعتوں کو امریکہ واپس لایا جاسکے۔امیگریشن قوانین پر خصوصی نظر ثانی کے امکانات کو ترجیح دینے کے ساتھ عین ممکن ہے کہ جنو بی سرحد پر دیوار چننے کے معاملے پر کسی جذباتی فیصلے پر مصر ہوں ۔بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے یقیناً نیٹو اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں پر دبائو ڈالنے کے ساتھ ساتھ چین روس اور ایران سے تعلقات میں سخت گیر پالیسیز پر عمل پیرا ہوں گے۔اپنی سوشل میڈیا مخالف مہم کو مستحکم بنانے پر بھی ممکنہ توجہ دیں گے اور اپنے جذبات و احساسات براہ راست عوام تک پہنچانے میں اپنے ’’ٹرتھ سوشل‘‘ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو مزید متحرک رکھیں گے۔’’امریکہ فرسٹ کے نعرے کے حوالے سے حسب عادت تجارتی تعلقات میں امریکہ کے مفادات کو سرفہرست رکھیں گے ۔ نیوزی لینڈ اور دیگر قریبی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی نئے سرے سے دیکھ بھال کریں گے۔ سکیورٹی اور دفاعی حوالے سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بیچ گزشتہ دور حکومت میں پیداہونے والی پیچیدگیوں پر بھی نظر ثانی کریں گے۔ غرض ملکی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے عالمی معاملات میں زیادہ مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائیں گے، تاہم نیوزی لینڈ و دیگر علاقوں کی اپنی علاقائی عالمی سطح پر متحرک رہنے کے چیلنج پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ کا ارتکاز لازماً زیادہ ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے کے ساتھ

پڑھیں:

ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟

نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے بارے کہا جاتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے انتخابات جیتتے ہی کہا تھا:’’ اقتدار سنبھالتے ہی مَیں کئی ممالک کی امداد بند کردوں گا۔‘‘اپنے کہے پر موصوف نے یوں عمل کیا ہے کہ صدر بننے کے چند روز بعد(26جنوری کو) اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اُنھوں نے کئی ممالک کی امداد فوراً بند کر دی ہے ۔

مبینہ طور پر اِن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور یوکرائن، تائیوان ، اُردن اور کئی دیگر ممالک بھی ۔امریکی حکام نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ کے اِس حکم سے پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے تقریباً 22منصوبے(تعلیم، زراعت ، صحت اور گورننس) متاثر ہوں گے ۔ ساتھ ہی یہ بھی اُمید دلائی گئی ہے کہ امداد کا یہ تعطل ابتدائی طور پر90ایام کے لیے ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نامزد مشیر، رچرڈ گرینل، نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی بارے پہلے جو ٹویٹ کیا اور پھر امریکی میڈیا کو جو انٹرویو دیا، یہ بھی اِس امر کا مظہر ہے کہ ٹرمپ حکومت کے بعض حکام کے پاکستان حکومت بارے کیا خیالات ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے رچرڈ گرینل کے بیان پر بجا ردِ عمل دیا ہے ۔

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس روز ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے کچھ اداروں کی امداد بند کی، اُسی روز امریکا سے ایک ہائی پاور بزنس وفد پاکستان اُترا۔ اِس وفد ، جس کی سربراہی ٹرمپ خاندان کے ایک قریبی فردGentry Beachکررہے تھے، نے جناب شہباز شریف سے بھی مثبت ملاقاتیں کی ہیں اور پاکستانی میڈیا سے بات چیت کے دوران حوصلہ افزا پیغام دیا ہے ۔ وفد کے سربراہ نے یہ حیران کن بیان بھی دیا ہے کہ رچرڈ گرینل کا بیان دراصل گمراہ کن تھا۔

 ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کی ایک خبر کے مطابق وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کے زیر صدارت پاکستان کے 6سفیروں کا ایک اہم اجلاس ہُوا ہے ۔ اِس میں اِس امر پر غور کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر نئی امریکی انتظامیہ سے کیسے معاملہ کیا جائے ؟ ٹرمپ انتظامیہ اور ٹرمپ کابینہ میں اکثریتی طور پراسرائیل نواز اور بھارت نواز عناصر شامل ہیں ۔ اور یہ قدم ٹرمپ صاحب نے دانستہ اُٹھایا ہے ۔اِس اقدام سے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے’’ سریر آرائے سلطنت‘‘ ہونے سے قبل ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا ۔

بھارت نواز وزرا اور پرو انڈیا منتظمین کے انتخاب کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور چین کے ساتھ کیا معاملات کرنے والے ہیں ۔ اِس کا اظہار ممتاز برطانوی جریدے’’دی اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے مضمون بعنوانXiJingping has much to worry about in 2025 میں بھی یوں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کس طرح چین کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ، جئے شنکر،کی ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ، مایئکل والز، سے تفصیلی ملاقات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اِس پیش بندی کی موجودگی میں پاکستان اور شہباز حکومت کے لیے از بس ضروری ہوگا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی شخصیات ٹرمپ انتظامیہ کے اُبھرتے متوقع طوفانوں کا مقدور بھر مقابلہ کر سکیں ۔ ایسے میں پاکستان کو واشنگٹن میں اپنی نئی لابیاں بھی تشکیل دینا ہوں گی جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔

اقتدار میں آنے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ شام ، حماس ،لبنان اور حزب اللہ کے مسائل سے تقریباً نمٹ چکے تھے ۔یوکرائن بارے ٹرمپ کی خاص توجہ مبذول ہوگی۔ اِس کا واضح اظہار ’’فارن افیئرز‘‘ کے تازہ شمارے میں Alina Polyyakovaکا لکھا آرٹیکل خاصا چشم کشا ہے ۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ٹرمپ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام ہی میں یوکرائن جنگ کو جائز و ناجائز طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اِس وسیع تر اور دُور تک پھیلے عالمی کینوس میں ٹرمپ، پاکستان بارے کیا سوچ رکھتے ہیں، واضح طور پر کچھ کہنا فی الحال دشوار ہے۔ ٹرمپ صاحب مگر اپنے پہلے دَورِ اقتدار میں پاکستان بارے جو سنگین کلمات ادا کر چکے ہیں، وہ تو حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ وہ الفاظ اگر پوری معنویت کے ساتھ ہماری مقتدرہ کے ذہنوں میں محفوظ ہیں تو ہم سب قرائن سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان کو کن خاص نظروں سے دیکھا جارہا ہوگا ۔

لیکن پاکستان کسی بھی طرح امریکا سے دُوری افورڈ نہیں کر سکتا۔ امریکا اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔ 2024 میں امریکا واحد ملک رہا جسے پاکستان نے سب سے زیادہ برآمدات کیں :5 بلین ڈالرز سے زائد ۔ اگلے روز ہمارے اخبارات میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان (جوناتھن لالی) کا جو آرٹیکل شائع ہُوا ہے، اِس سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ پاکستان کی تجارت و ٹریڈ کے لیے امریکا کسقدر اہمیت رکھتا ہے۔ اگر صرف ٹریڈ کی مَد کو ہی پیشِ نگاہ رکھ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم اِس ضمن میں بھی امریکا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

ہماری کمزور معیشت میں ہمیں جس شدت سے ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور فیٹف کی ضرورت ہے، اِس میدان میں بھی ٹرمپ کا امریکا (ناراضی کی صورت میں) پاکستان کے لیے کئی رکاوٹیں اور مسائل ، بآسانی، پیدا کر سکتا ہے ۔ پاکستان کے انتشاری عناصر اور بانی پی ٹی آئی کے پچھلے ڈیڑھ برس سے پسِ دیوارِ زنداں رہنے کو بھی ٹرمپ حکومت سہل انداز میں ایکسپلائیٹ کر سکتی ہے ۔بانی پی ٹی آئی کو احتساب عدالت کی طرف سے14سال کی سزا سنائے جانے کے بعد امریکا میں بروئے کار پی ٹی آئی حکومت کے خلاف زیادہ متحرک ہو چکی ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسے امریکی صدر ہیں جنھوں نے اپنی پہلی صدارتی شکست ( جو بائیڈن کے مقابل) سے بچنے اور بائیڈن کو اقتداری حلف نہ لینے کی کوشش میں Self Coupکا رسک بھی لے لیا تھا ۔ ٹرمپ کو اُمید تھی کہ وہ اپنے سیاسی حامیوں اور وٹروں کی Capitol Hillپر یلغار کروا کر امریکی فوج اور امریکی عدلیہ کی حمائت حاصل کرلے گا۔

اُن کے حامیوں نے امریکی دارالحکومت کی مرکزی عمارت پر حملہ کیا تو سہی مگر ناکام رہے ۔ ٹرمپ کو ’’اندر‘‘ سے مطلوبہ اور متوقع حمائت بھی نہ ملی ۔ اُلٹا امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کے حملہ آور حمائتیوں کو سزائیں دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ایسے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہم کسی بھی منفرد اور پُر خطر اقدام کی اُمید اور توقع رکھ سکتے ہیں ؛ چنانچہ ٹرمپ کی قصرِ ابیض میں پھر سے آ جانے کے بعد دُنیا کے کئی ممالک اگر مشوش ہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسی عالمی صورتحال میں امریکی صدر بنے ہیں جب اسرائیل نے غزہ کو برباد کر ڈالا ہے اور 50ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی غزہ و اسرائیل میں سیز فائر تو ہو چکا ہے، لیکن اِس فائر بندی کو مستقل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج شام تباہ اور لاوارث ہے ۔ شام کی یہ صورت اسرائیل کے لیے آئیڈیل ہے ۔ ایران درست ہی کہتا ہے کہ شامی حکومت کا خاتمہ اسرائیل اور امریکا کے گہرے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ عالمِ عرب میں رُوس اپنے اکیلے دوست ملک، شام، سے محروم ہو چکا ہے ۔لبنان میں بروئے کار ’’حزب اللہ‘‘ کی اسرائیل کے خلاف شمشیر زنی تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔

یورپ پریشان ہے کہ ٹرمپ صاحب یوکرائن جنگ سے تعلق منقطع کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کی لاتعلقی سے اگر یوکرائن میں رُوس کی جیت ہو گئی تو یورپی یونین کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ مگر ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ’’ اگر امریکا نے کسی ملک کا تحفظ کرنا ہے تو اُسے جنگی اخراجات کے لیے امریکا کو ادائیگیاں کرنی چاہیے‘‘ تو یہ الفاظ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی کر جاتے ہیں ۔ مسائل و پریشانیوں کا ایک طومار ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر ہر ملک کو درپیش ہے ۔پاکستانی حکام کو مگر دانشمندی اور حکمت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ نئی راہیں اُستوار کرنی ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟
  • فلسطینیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی جاری،اسرائیلی جارحیت میں بچے سمیت 2شہید
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو وائٹ ہاﺅس دورے کا دعوت نامہ
  • سی این این سے 18 سال سے وابستہ صحافی جِم اکوسٹا مستعفی
  • ممکنہ معاشی وحربی تبدیلیاں
  • امریکی نو سامراجیت
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نریندرمودی سے رابط‘بھارت امریکہ میں بننے والے مزید سیکورٹی آلات خریدے.امریکی صدر
  • ڈنمارک کا گرین لینڈ اور جزائر فیرو کے ساتھ شراکت پر دو ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ
  • مجھے سو فیصد یقین نہیں کہ تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتا، ڈونلڈ ٹرمپ