(گزشتہ سےپیوستہ)
پھر موسیٰ ں نے ارشاد فرمایا، حمد ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھ سے بلا واسطہ کلام فرمایا، مجھ پر تورات نازل فرمائی، فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی نجات میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائی اور میری امت میں ایسی قوم بنائی جو حق سے موافق ہدایت اور انصاف کرتی ہے۔
پھر دائود علیہ السلام نے بھی دلچسپ انداز میں تقریر کی کہ:سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے مجھ کو ملک عظیم عطافرمایا، زبور کا علم دیا، لوہے کو نرم کیا، میرے لئے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا کہ وہ میرے ساتھ تسبیح پڑھیں اور مجھ کو علم و حکمت اور تقریر دلپذیر عطا کی۔پھر مقررین میں سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے خطاب فرمایا:ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے میرے لئے ہوا اور شیاطین و جنات کو مسخر کیا کہ میرے حکم پر چلیں، پرندوں کی بولی سکھائی، اور جن و انس، چرند و پرند کا لشکر میرے لئے مسخر کیا اور ایسی پاکیزہ سلطنت عطا کی کہ میرے بعد کسی کیلئے مناسب نہ ہوگی اور نہ مجھ سے اس پر کوئی حساب و کتاب ہوگا۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کی تعریف بیان کرکے یہ تقریر کی کہ ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں، جس نے مجھ کو اپنا کلمہ بنایا، اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرح بغیر باپ کے مجھ کو پیدا کیا اور پرندوں کے بنانے، مُردوں کے زندہ کرنے، کوڑھی اور مادر زاد اندھے کو اچھا کرنے کا معجزہ مجھ کو دیا، توریت اور انجیل کا علم عطا فرمایا، مجھ کو اور میری ماں کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھا، اور مجھ کو آسمان پر اٹھایا، کافروں کی صحبت سے پاک کیا۔
پھر آخر میں اس عظیم الشان جلسہ کے مہمان خصوصی نے دل پسند اور دلنشین انداز میں دلربا خطاب فرمایا:حمد ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھ کو رحمۃ اللعالمین بناکر بھیجا اور تمام عالم کیلئے بشیر و نذیر بنایا، مجھ پر قرآن کریم اتارا، جس میں تمام امور دینیہ کا (صراحۃً یا اشارۃً) بیان کیا، میری امت کو بہترین امت بنایا، اور میری امت کو اوّلین و آخرین بنایا یعنی ظہور میں آخری امت اور مرتبہ میں اوّل بنایا، میرے سینے کو کھولا، میرے ذکر کو بلند کیا، اور مجھ کو فاتح اور خاتم بنایا یعنی وجودِ نورانی و روحانی میں سب سے اوّل اور ظہور جسمانی میں سب سے آخری نبی بنایا، جب آنحضرت ﷺ اپنے خطبۂ تحمید سے فارغ ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام نے تمام انبیاء کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا انہی فضائل وکمالات کی وجہ سے محمدﷺ آپ سب سے بڑھ گئے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب میں بیت المقدس کے امور سے فارغ ہوا تو ایک سیڑھی لائی گئی کہ اس سیڑھی سے بہتر میں نے کوئی نہیں دیکھی (شرف مصطفی میں ہے کہ یہ زینہ جنت الفردوس سے لایا گیا اور اس کو دائیں بائیں اوپر نیچے سے فرشتے گھیرے ہوئے تھے) یہ وہ سیڑھی تھی کہ جس سے بنی آدم کی ارواح آسمان کی طرف چڑھتی ہیں اور مرتے وقت میت اسی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی ہے، میرے رفیق سفر جبرئیل امین نے مجھ کو اس سیڑھی پر چڑھایا یہاں تک کہ میں آسمان کے ایک دروازے پر پہنچا جس کو باب الحفظہ کہتے ہیں۔(وہاں مقرر فرشتے کا نام اسمٰعیل ہے جس کی ماتحتی میں بارہ ہزار فرشتے ہیں) (البدایہ والنہایہ)
چنانچہ انسانیت کو تنزل سے نکال کر مقام ارتقاء تک پہنچانے والے محمد رسول اللہ ﷺعروج و صعود کی تمام بلندیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آسمان اوّل پر پہنچے۔ جناب جبرئیل نے دروازہ کھلوایا دربان نے دریافت کیا تمہارے ساتھ کون ہے جبرئیل علیہ السلام نے کہا محمد رسول اللہ ﷺہیں، فرشتے نے دریافت کیا کہ ان کے بلانے کا پیام بھیجا گیا ہے؟ جبرئیل امین نے کہا ہاں، یہ سن کر فرشتوں نے دروازہ کھول دیا اور مرحبا کہا۔ یہاں آپ کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا اور اس مرحلہ پر مقیم انسانی ارواح اور فرشتوں سے تعارف ہوا۔
ایک نہایت بزرگ اور وجیہ شخصیت کی طرف دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کے باپ آدم علیہ السلام ہیں، ان کو سلام کیجئے، آپ نے سلام کیا، انہوں نے جواب دیا اور کہا فرزند صالح اور نبی صالح کو مرحبا ہو، پھر آپ کیلئے دعا خیر کی، حضرت آدم علیہ السلام کے دائیں اور بائیں بہت سے لوگ تھے، حضرت آدم علیہ السلام دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اور ہنستے، بائیں جانب دیکھتے تو مغموم ہوتے اور روتے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ دائیں جانب ان کی نیک اولاد کی صورتیں ہیں یہ اصحاب یمین اور اہل جنت ہیں، ان کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، بائیں جانب اولاد بد کی صورتیں ہیں، یہ اصحاب شمال اور اہل نار ہیں ان کو دیکھ کر روتے ہیں۔(مسلم۱؍۹۳)
پھر دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے، پہلے کی طرح جبرئیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، فرشتوں نے کہا خوش آمدید، آپ نے بہت اچھا کیا تشریف لائے، یہیں آپ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو دیکھا، جبرئیل نے کہا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام ہیں ان کو سلام کیجئے، آپ نے سلام کیا، ان دونوں حضرات نے سلام کا جواب دیا اور کہا صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید ہو‘ اس کے بعد تیسرے آسمان پر تشریف لے گئے، وہاں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور اسی طرح سلام وکلام ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا یوسف علیہ السلام کو حسن و جمال کا ایک بہت بڑا حصہ عطا کیا گیا ہے‘ پھر چوتھے آسمان پر تشریف لے گئے، وہاں حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، پھر پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی‘ اسی طرح چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپ ﷺنے فرمایا جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے، رونے کی وجہ پوچھی تو انہوںنے فرمایا، میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان پیغمبر میرے بعد بھیجے گئے جن کی امت کے جنت میں داخل ہونے والے میری امت کے جنت میں داخل ہونے والوں سے بہت زیادہ ہوں گے، تو مجھ کو اپنی امت پر حسرت ہے کہ انہوں نے میری ایسی اطاعت نہ کی جس طرح محمد (ﷺ) کی امت آپ کی اتباع کرے گی‘ پھر ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، اور دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت معمور سے پشت لگائے بیٹھے ہیں، اور بیت معمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جن کی باری دوبارہ نہیں آتی۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
پھر آپ کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف بلند کیا گیا جو اسی ساتویں آسمان پر ہی بیری کا ایک درخت ہے اس کے بیر اتنے بڑے جیسے (مقام) حجر کے مٹکے اور اس کے پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان ہوں، جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے‘ نیچے سے جو چیزاوپر جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر جا کر رک جاتی ہے پھر اوپر اٹھائی جاتی ہے اسی طرح جو چیز ملاء اعلی (اوپر) سے اترتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر آکر ٹھہر جاتی ہے پھر نیچے اترتی ہے اس لئے اس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے‘ اسی مقام پر حضور ﷺ نے جبرئیل امین کو اصلی صورت میں دیکھا اور اللہ جل شانہ کے عجیب و غریب انوارات و تجلیات کا مشاہدہ کیا اور بیشمار فرشتے اور سونے کے پتنگے وپروانے دیکھے جو سدرۃ المنتہیٰ کو گھیرے ہوئے تھے۔
آپ ﷺنے جنت کی سیر کی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میںہے کہ حضور ﷺنے فرمایا میں جنت میں داخل کیا گیا تو اس کے گنبد موتیوں کے تھے اور مٹی اس کی مشک کی تھی۔(کذا فی المشکوٰۃ عن الصحیحین)
پھر جہنم آپ کو دکھلائی گئی، آپ ﷺنے فرمایا دوزخ کو میرے سامنے کیا گیا تو اس میں اللہ کا غضب و عذاب اور انتقام تھا، اگر اس میں پتھر اور لوہا بھی ڈال دیا جائے تو اس کو بھی کھا لے۔(بیہقی )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ا دم علیہ السلام نے فرمایا نے مجھ کو مجھ کو ا جاتی ہے کیا گیا کی طرف نے کہا اور اس
پڑھیں:
امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات، شبلی فراز کی عمر ایوب، بیرسٹر گوہر کو نہ بلانے پر تنقید
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینیٹر شبلی فراز نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات میں عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر کو نہ بلانے پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات کے وقت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرز عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر کے بجائے عاطف خان اور ڈاکٹر امجد کو بلانے پر اسپیکر ایاز صادق کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرز کو نہ بلانا اسپیکر کی بدنیتی ہے، اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ہاؤس کا وقار مجروح کیا۔
امریکی ارکان کانگریس کی بانی سے ملاقات سے متعلق میرے سامنے کوئی بات نہیں ہوئی، عاطف خانپی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ایک سرکاری تقریب جہاں کانگریس مین نے گفتگو کی ، پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات پر بات چیت ہوئی، بانی پی ٹی ائی سے ملاقات یا رہائی سے متعلق میرے سامنے کوئی بات نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں عاطف خان اور ڈاکٹر امجد کی ایک تقریب میں امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات ہوئی ہے، عاطف خان کا کہنا ہے کہ ملاقات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ اور وفاقی وزراء موجود تھے۔
عاطف خان نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب کو بلایا گیا تھا یا نہیں، بانی پی ٹی ائی سے ملاقات یا رہائی سے متعلق میرے سامنے کوئی بات نہیں ہوئی، میرے سامنے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ کوئی بانی پی ٹی آئی سے ملنا چاہتا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملاقات کے لیے نہ ہی کوئی کارڈ آیا نہ ہی وٹس ایپ پر رابطہ کیا گیا، جہاں تک میرے علم میں ہے مجھے کوئی کال یا میسج نہیں آیا، امریکی سفارت خانے کی جانب سے کوئی کارڈ یا دعوت نامہ میں نے نہیں دیکھا۔