اب’’سارک‘‘ کو فعال ہوناچاہیے…؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اس وقت بھارت بنگلہ دیش سے تقریباً بڑے بے آبرو ہوکر نکل چکاہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوامی لیگ کی حکومت تھی جس کی معاشی و سیاسی پالیسیاں عوام دوست نہیں تھیں ۔ہرچند کہ حسینہ واجد پندرہ سال بنگلہ دیش کی مالک کل بنی ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود عوام کی معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی ‘ جبکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں مزید خرابی کے آثار پیدا ہوتے رہے جو بنگلہ دیش کے عوام کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن رہے تھے۔ تاہم اس زوال پذیر معاشی صورتحال کے تناظر میں حکومت کو تبدیل کرکے اس کی جگہ عوام دوست حکومت قائم کرنے کا انقلابی قدم اٹھایا گیاتاکہ گلشن کا کاروبار ترقی کی جانب رواں دواں ہوسکے۔ چنانچہ بڑھتے ہوئے معاشی زوال کے پیش نظر نوجوان طبقہ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر نکل آیا اس نعرے کے ساتھ ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہیے‘ جو عوام کو معاشی تحفظ فراہم نہ کرسکے۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں تبدیلی کے لئے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اوراپنے اتحاد کے ذریعے حسینہ واجد کو بڑے بے آبرو انہ انداز میں ملک بدرکردیا۔ حسینہ واجد نے اپنے پرانے ملک بھارت میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور چاہتی ہے کہ آئندہ بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں اسے حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔ جوکہ نہ ممکن ہے۔ کیونکہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت حسینہ واجد پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس نے بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی میں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور عوام کا بے پناہ استحصال کیا گیا۔
اب بنگلہ دیش ہر لحاظ سے آزاد ہوگیاہے۔ لیکن اس کو اپنی نئی آزادی کو قائم رکھنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا۔ کیونکہ بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش کے اندر ’’جاسوسی‘‘ کاجو سیٹ اپ تھا وہ اب زیرزمین کارروائیاں کرنے میں مصروف ہے‘ لیکن اب بھارت کی یہ چال بازیاں کارگر ثابت نہیں ہوسکے گی۔کیونکہ اب بنگلہ دیش جاگ چکاہے۔ بھارت نے گزشتہ دہائیوں میں بنگلہ دیش کے عوام کا سخت استحصال کیا ہے‘ جس کی وجہ سے غربت اور افلاس میں اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اب صورتحال تیزی سے بہتری کی طرف جارہی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام نئی سیاسی سوچ کے ذریعے اس تبدیلی کو ایک دائمی سو چ میں بدلناچاہتے ہیں۔ جو عوام کے لئے دائمی ثمرات کا باعث بن سکے ۔
پاکستان ہمیشہ سے بنگلہ دیش کے عوام کا خیرخواہ رہاہے اور ماضی میں اس کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کرکے ان کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ یہ تعاون آج بھی جاری ہے جس کو بھارت روکناچاہتاتھا۔ لیکن میرے خیال کے مطابق اب بھارت کو اس میں کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی کیونکہ گزشتہ دہائیوں میں بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ بھارت کی جانب سے جو ناروا سلوک ہوا ہے‘ اس کا ازالہ صرف یہی ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقا ت کومضبوط بنائے اور آگے کی طرف بڑھے نیز سارک تنظیم کو بھی موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ سارک تنظیم کی مضبوطی جنوبی ایشیاء کے ممالک کے درمیان اچھے معاشی تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں۔ جو عوام کی بہبود کا سبب بن سکتے ہیں۔یہی اس تنظیم کا اصل مقصد ہے۔ اگر سارک تنظیم فعال ہوجاتی ہے تو اس سے نہ صرف بنگلہ دیش کو فائدہ پہنچے گا بلکہ جنوبی ایشیاء کا پورا خطہ اس سے مستفید ہوسکے گا۔سارک تنظیم کی بحالی سے عوام کی معاشی وسماجی بحالی میں ممکنہ مددمل سکے گی۔ جووقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سارک تنظیم اگر دوبارہ فعال ہوتی ہے تو اس سے براہ راست فائدہ اس خطے کے عوام کو پہنچے گا جو پائیدار امن کے قیام کی صورت میں سیاسی افق پر گہری معاشی تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں۔ پاکستان روز اول ہی سے سارک تنظیم کو موثر اور مستحکم بنانے میں اپنا کردار اداکرتاچلاآرہاہے لیکن بسا اوقات نیک تمنا کے درمیان شیطان حائل ہوجاتاہے۔ جیساکہ ماضی میں حسینہ واجد نے بھارت کے ساتھ مل کر ایسا کیاتھا ۔
لیکن اب بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی سے سارک ممالک میں بھی سیاسی تبدیلی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اور یہ محسوس کیاجارہاہے کہ اس خطے کے ممالک کے درمیان سیاسی ومعاشی اتحاد عوام کو نئی زندگی سے ہمکنار کرسکتاہے۔ دراصل خود بھارت ک اندار ایسے دانشور ایسا سوچ رہے ہیں‘ کیونکہ اس خطے کے ممالک کے درمیان مسلسل سیاسی کشیدگی سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اس معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ سارک تنظیم سے متعلق نئی حکمت عملی اپنائی جائے جو اس خطے کے مالک کو قریب لانے میں اپنا کلیدی کردارادا کرسکے ۔ یہی اس تنظیم کاروز اول سے خواب تھا۔ جس کی تعبیر اب ممکن ہوسکے گی۔ کیونکہ بنگلہ دیش میں تبدیلی کی وجہ سے اس خطہ میں ایک نیا سیاسی ماحول پیدا ہوا ہے جس کو آپس کے اتحاد کے ذریعے مزید عوام دوست بنایاجاسکتاہے۔
دراصل جدید زمانہ معاشی ترقی سے وابستہ وپیوستہ ہے۔ دنیا کے تمام بڑے اور چھوٹے ممالک معاشی ترقی کو اول قرار دے رہے ہیں اور اس ہی سوچ کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پاکستان بھی اب اس سوچ کے ذریعے اپنے ملک میں ایک گہری تبدیلی کا چراغ روشن کررہاہے تاکہ عوام کی سماجی زندگیوں میں پرمعنی تبدیلیاں آسکیں۔ ہرچند کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے لیکن اگر ہم آپس میں اتحاد پیدا کرکے اس جانب رواں دواں ہوسکے تو بہت کچھ حاصل کیاجاسکتاہے۔ پاکستان کے عوام نہ صرف اپنی آزادی کو محفوظ کیاہے بلکہ ترقی وتعمیر کے لئے راستے بھی تلاش کئے ہیں۔ جس پر وہ گامزن ہوکر معاشی ترقی کے خواب کو پورا کررہے ہیں۔ بلکہ کرنا بھی چاہیے کیونکہ جو قوم معاشی ترقی کا راستہ محض غیروں کی امداد پرانحصار کرتی ہے وہ کبھی بھی حقیقی ترقی نہیں کرسکے گی بلکہ ایسا معجزہ کبھی بھی نہیںہوا ہے ۔اگر جنوبی ایشیا کے ممالک آپس میں سیاسی ومعاشی اتحاد کو مضبوط بنانے کا عملی مظاہرہ کریں تو اس خطے میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے جو عوام کو معاشی طور پر مزید مضبوط بنانے کا سبب بن سکتی ہے۔ جنوبی مشرقی ایشیاء کے بعض ملکوں نے اتحاد کا یہ راستہ اپنایاہے جس کے سبب ان کی اقتصادی ترقی یقینی ہوگئی ہے بلکہ وہ اس خطے کے ممالک کے ساتھ سیاسی ومعاشی تعاون بڑھا کر اپنے عوام کے حالات میں گہری تبدیلی لارہے ہیں۔ ذرا سوچیئے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کے عوام بنگلہ دیش میں کے ممالک کے حسینہ واجد کے درمیان میں سیاسی اس خطے کے کے ذریعے بھارت کی عوام کے عوام کو کے ساتھ عوام کی رہے ہیں جو عوام کے لئے
پڑھیں:
ممکنہ معاشی وحربی تبدیلیاں
اپنے ملک یا ریاست کو ترقی دینا ہر حکمران کی اولیں ترجیح ہوتی ہے لیکن اِس کے ساتھ کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے ریاست یا ملک کے مفاد متاثر ہوں یا لاحق خطرات میںشدت آئے معاشی ترقی سے دفاعی مضبوطی بھی اہمیت کے اعتبار سے کم نہیں موجودہ دورمیں معاشی اور حربی مضبوطی دنیا سے جُڑے رہنے میں ہے مگر صدرٹرمپ کے اقدامات اور احکامات امریکی تنہائی کاباعث بن سکتے ہیں ٹھیک ہے ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کے نعرے پر انتخاب جیتااوراب صدرکے منصب پر براجمان ہیں اگر امریکی سب سے پہلے امریکہ کے نعرے کو پسندنہ کرتے توہر گزووٹ نہ دیتے لیکن بے احتیاطی کی اُنھیں اجازت نہیں ملی اپنے چارسالہ عہدے کی مدت کے آغازکے پہلے ہی دن بے احتیاطی کامظاہرہ کیاہے اورسو احکامات ایسے جاری کیے ہیں جن سے ایک طرف ملک کے کئی طبقوں میں تشویش کی لہرہے تودوسری طرف عالمی سطح پربھی امریکہ بارے پریشانی میں اضافہ ہواہے پریشانی کاشکارکئی قریبی اتحادی کینیڈا،فرانس ،جرمنی ، ڈنمارک سمیت دیگر کئی یورپی ممالک بھی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ امریکہ کے اپنے اتحادیوں سے بھی سیاسی اور دفاعی مفادات میں پڑسکتے ہیں۔
امریکہ بڑی طاقت ضرورہے لیکن اُس کی حربی ومعاشی قوت میں اتحادیوں کا اہم کردار ہے ڈالرکوجو غلبہ غاصل ہے یہ بھی اتحادیوں کا مرہونِ منت ہے ڈالرکا زوال امریکی ہوگا گزشتہ کئی دہائیوں سے تیل کی تجارت ڈالر میں ہورہی ہے جس کی وجہ امریکہ اورسعودی عرب میں طے پانے والا معاہدہ ہے معاہدے کے تحت سعودیہ اپنے دفاع کی ذمہ داری کے عوض تیل کی تجارت ڈالرمیں کر تا ہے مگر گزرے تین عشروں میں حالات کافی حدتک تبدیل ہوچکے عالمی معاشی نظام میں دیگر ممالک نے پیش رفت کی ہے جس سے امریکہ کوحاصل معاشی وحربی بالادستی میںکمزوری آئی چین سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک نے معیشت کے ساتھ اپنی حربی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے روس اپنے کھوئے وقارکی بحالی کے لیے سرگرم ہے برکس،شنگھائی تعاون تنظیم اور جی ایٹ جیسی تنظیموں میں شامل ممالک کا امریکہ پر انحصارکم ہوا ہے مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی میں تجارت کے معاہدے ہونے لگے ہیںیہ ایسی تبدیلی ہے جو امریکہ اور ڈالر کی بالادستی کے لیے بڑے چیلنجزکی طرف اِشارہ کرتی ہے اور احتیاط کی متقاضی ہے لیکن ٹرمپ کے احکامات اور اقدامات جارحانہ ہیں جن سے درپیش چیلنجز کم ہونے کی بجائے اضافہ ہوسکتا ہے ٹرمپ کی جیت ظاہر کرتی ہے کہ امریکی مقتدرہ فی الحال ایک قدم پیچھے ہو گئی ہے اور ملکی نظم ونسق اور پالیسی سازی میں مداخلت روک دی ہے جس سے نہ صرف امریکی بالادستی کو زوال آسکتا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی عدم مداخلت کی یہ پالیسی تلاطم لا نے کاموجب ہوسکتی ہے۔
امریکی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے سے ممکنہ معاشی و حربی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے لیے دنیا میں صف بندی کاآغاز ہو گیا ہے جرمن چانسلر اولاف شولس کا دورہ پیرس کے دوران اپنے میزبان فرانسیسی صدر امانوئل میکغوں کواعتماد میں لینا اِس بناپر بہت اہم ہے کہ دونوں میں یورپی یونین کی طرف سے ایک متفقہ اور جامع موقف اختیارکرنے اور اِس حوالے سے وسیع تر کوششوں پربھی اتفاق ہوگیا ہے تاکہ پورپی یونین میں شامل تمام ممالک کی نہ صرف معاشی ترقی ممکن ہو بلکہ دفاعی حوالے سے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے خودانحصاری کی پالیسی اپنائی جائے یہ بہت حیران کُن بات ہے دراصل ٹرمپ کے صدربننے سے یورپی یونین میں امریکہ مخالف لہر نے جنم لیا ہے ڈنمارک سے گرین لینڈ خریداری کے حوالے سے ٹرمپ کالہجہ دھمکی آمیز رہا ایسے لہجے کو کوئی بھی آزاد و خود مختار ملک پسند نہیں کر سکتا اب جبکہ حالات بدل چکے ہیں نوآبادیاتی نظام کے لیے حالات سازگار نہیں کیمونزم کاخطرہ دم توڑچکا علاوہ ازیں معاشی بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے یورپ کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصاربھی کم ہو رہا ہے اور نہ صرف یورپی ممالک کی معاشی صورتحال ماضی کی بہ نسبت بہترہے بلکہ حربی حوالے سے ترقی بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہی لیکن امریکہ چاہتاہے یورپی یونین نیٹودفاعی تنظیم کے اخراجات میں تعاون بڑھائے حالانکہ نیٹوامریکہ اور یورپی یونین دونوں کے لیے اہم ہے اسی لیے امریکی مطالبے کویورپی یونین میں شامل کچھ طاقتور ممالک سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ امریکی مطالبات پورے کرنے سے زیادہ اپنے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں ڈنمارک نے تو واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ وہ گرین لینڈ کے حوالے سے امریکی مطالبہ پوراکرنے کی بجائے سخت موقف رکھے گا ٹرمپ احکامات اتحادیوں کودورکر سکتے ہیں نہ صرف یورپ سے سیاسی و معاشی اختلافات تبدیلیوں کی راہ ہموار گی بلکہ امریکہ کا عالمی کردار محدودہونے کے ساتھ دنیامیں بڑے پیمانے پر معاشی و حربی تبدیلیاںیقینی ہیں ۔
ٹرمپ کو سب سے پہلے امریکہ کانعرہ لگاتے ہوئے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بطورصدر اُنھیں اپنے ملک کے مسائل حل کرنے اختیارحاصل ہواہے دنیاکودھمکانے اورلوٹنے کا اختیارنہیں مل گیا اگر وہ مستقبل میں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتے تونہ صرف اہم اتحادیوں سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ قرب وجوارمیں بھی ناپسندیدہ صورتحال جنم لے سکتی ہے کینیڈاسے ملک کو ضم کرنے کا مطالبہ وگرنہ بھاری ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دانشمندانہ نہیں یہ خطے میں بااعتماد ساتھیوں کوکھونے پر منتج ہوسکتی ہے پیرس کے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے(جس پر دوسو سے زائد ممالک کے دستخط ہیں)سے علیحدگی،بیرونی امداد بندکرنے اور عالمی اِدارہ صحت سے الگ ہونے کا اعلان امریکی مفادکے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا ہواتو دنیامحتاجی سے نکلے گی اگر ایک راستہ بند ہو تومتبادل ملنانظامِ قدرت ہے ملک یا ریاست وہی زیادہ محفوظ اور مستحکم ہوتی ہے جو قُرب وجوار میں خطرات سے محفوظ ہومگرتارکینِ وطن کی بے دخلی ،کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر پچیس فیصد ڈیوٹی عائد کرنے جیسے اعلانات سے ہمسائیگی میں نفرت بڑھے گی کینیڈا کی وزیرِ خارجہ نے توصاف کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ اقدامات پر اُن کی حکومت سخت ردِ عمل دے گی یہ ٹرمپ اقدامات پر ہمہ گیر خطرات کی طرف اِشارہ ہے۔