Juraat:
2025-01-30@19:14:48 GMT

پورٹ قاسم، پی آئی بی ٹرمینل سے ریلوے لائن بچھانے میں ناکام

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

پورٹ قاسم، پی آئی بی ٹرمینل سے ریلوے لائن بچھانے میں ناکام

پورٹ قاسم اتھارٹی پی آئی بی ٹرمینل سے ریلوے لائن بچھانے میں ناکام ہو گئی، ملک کے دیگر شہروں میں کوئلے میں ٹرانسپورٹ کے ذریعے منتقلی سے ماحولیاتی آلودگی پھیل گئی۔ جرأت کے رپورٹ کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی اور پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل کے درمیان 6؍نومبر 2010کو عملدرآمد معاہدہ ہوا، معاہدے کے تحت پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل سے مین ریلوے لائن تک ریلوے کی پٹری بچھائی جائے گی تاکہ ویگنس میں کوئلہ بھرنے اور خالی کرنے کے لئے محفوظ طریقہ اپنایا جائے ۔ ستمبر 2014کی ایک ماہانہ پیش رفت رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل، پورٹ قاسم اتھارٹی اور پاکستان ریلوے کے افسران میں اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں طے ہوا کہ پی آئی بی ٹی کو مین ریلوے لائن سے ملانے کے لئے پاکستان ریلوے فزیبلٹی اسٹڈی تیار کرے گی، اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا مالی معاملات میں معاونت اور فزیبلٹی اسٹڈی کے لئے بہترین کنسلٹنٹ تعینات کیا جائے گا، سال 2019 تک ریلوے لائن بچھائی نہیں گئی جس کے باعث کوئلہ گاڑیوں میں ملک کے دیگر علاقوں میں بھیجا گیا جس کے باعث فضائی آلودگی اور ٹریفک میں اضافہ ہوا۔ پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل نے ریلوے لائن بچھانے کے لئے پورٹ قاسم اتھارٹی کو کوئی رقم جاری نہیں کی اور نہ ہی کوئلہ بھرنے کی جگہ پر سہولیات فراہم کیں، 5سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود ریلوے لائن بچھانے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کو اپریل 2020 میں آگاہ کیا گیا لیکن پورٹ انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا، جس پر اعلیٰ حکام نے ہدایت کی کہ ڈیپارٹمنٹل ایکشن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے لیکن اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا، اعلیٰ حکام نے پی آئی بی ٹی کو مین ریلوے لائن سے ملانے کے لئے ریلوے لائن بچھانے کی ہدایت کی ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل پورٹ قاسم اتھارٹی پی آئی بی کے لئے

پڑھیں:

پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بندرگاہوں کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہ کرنے، ٹیکس چوری، بدعنوانی، جعلی بلنگ، افغان تجارتی راہداری کے غلط استعمال اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان کے باعث پاکستان کو میری ٹائم سیکٹر میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے (18 ارب ڈالرز) کا نقصان ہو رہا ہے۔

اعلیٰ سطح کی ٹاسک فورس کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک باخبر سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ پورٹس کو مکمل استعداد کیساتھ استعمال نہ کرنے سے سرکاری خزانے کو 3190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

میری ٹائیم شعبے میں ٹیکس چوری سے 1120ارب، جعلی بلنگ اور بدعنوانی کی وجہ سے 313 ارب، ٹرانس شپمنٹ (ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ یا پھر وسطی ایشیا یا چائنا جیسے مقامات پر سامان کی منتقلی کا عمل) سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے 70 ارب، گوداموں کی کمی اور ویلیو ایڈیشن کی قلت سے 196 ارب، جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم کے غلط استعمال سے سالانہ 60 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔

یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے۔ اس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ زبردست صلاحیتوں اور جیو اسٹریٹجک فوائد کے باوجود پاکستان اصل صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر سکا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بھی بندرگاہ دنیا کی بہترین 60 بندرگاہوں میں شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق، عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ 61 ویں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 146ویں نمبر پر ہے۔

گزشتہ 10برسوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں سالانہ 3.3؍ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی کل صلاحیت (125 ملین ٹن) کا صرف 47؍ فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یہ ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ٹیکس کی وصولی 660؍ سے 1470؍ ارب روپے تک کے درمیان رہی ہے۔

پورٹ قاسم اتھارٹی ملکی کارگو کا 35؍ فیصد سنبھالنے والی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت کا کل 50؍ فیصد ہی استعمال کر رہی ہے جو 89؍ ملین ٹن ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں بندرگاہ سے جمع کیا جانے والا ٹیکس 690؍ ارب سے 1140؍ ارب روپے تک کے درمیان رہا ہے۔ پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی موجودہ صلاحیت 25؍ لاکھ ٹن ہے جو بندرگاہ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یعنی 2045ء تک بڑھ کر 40؍ کروڑ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اقتصادی لحاظ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیگر وجوہات کے علاوہ بحیرہ احمر کا بحران بھی پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کیلئے جیو اسٹریٹجک فائدہ سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات عالمی کمپنیاں مثلاً مرسک، ڈی پی ورلڈ اور ہچیسن پورٹس نے تسلیم کی ہے او ریہ کمپنیاں پاکستان کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر سمندری اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 19؍ لاکھ تربیت یافتہ سیلرز (Seafarers) عالمی جہاز رانی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں تربیت یافتہ سمندری سیلرز کی موزوں تعداد فراہم کرتا رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہوئی ہے۔

مکران اور سندھ کے ساحلوں کے ساتھ متنوع علاقہ جات میں بے پناہ صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹاسک فورس نے یہ بھی تجویز دی کہ شاندار ساحلی مقامات، تاریخی مقامات، آثار قدیمہ کے مقامات، قدیم مذہبی مقامات وغیرہ اگر درست انداز سے ترقی یافتہ ہوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔

یوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے دو لاکھ 40؍ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے خصوصی اقتصادی زون کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جسے اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔

یہ زون سمندر کی تہہ میں موجود وسائل سے مالا مال ہے جن میں تیل، گیس، اور دیگر معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ان وسائل کی تلاش اور قومی معیشت میں انضمام کیلئے اہم انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ایک سوچے سمجھے اور طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹکٹوں کی نئی پالیسی؛ پاکستان ریلوے نے اعلان کردیا
  • کراچی ، پورٹ قاسم کے قریب کمپنی میں گیس پائپ لائن پھٹنے سے 2 افراد جاں بحق اور 4 زخمی
  • کراچی: پورٹ قاسم کے قریب فیکٹری میں دھماکا، 2 افراد جاں بحق، 4 شدید زخمی
  • کراچی: پورٹ قاسم کے قریب بوائلر کی لائن پھٹنے سے 2 افراد جاں بحق
  • پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں
  • آن لائن مواد کی کڑی نگرانی:پیکا ایکٹ 2025ء کیا ہے؟
  • پاکستان ائیر پورٹ اتھارٹی کی جانب سے حج آپریشن کی ایس او پی جاری
  • پورٹ قاسم پر ماحولیاتی قواعد کی دھجیاں اڑنے لگیں
  • حماس کا فلسطینی اتھارٹی کے موقف سے اظہار بیزاری