قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے گزشتہ روز ا سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فیصد اضافے کی تجویز منظوری دیدی ۔ سردار ایاز صادق نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بتایا کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا تقاضا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کے ارکان کی جانب سے بیک آواز ہو کر کیا گیا تھا۔

ان ارکان کی جانب سے تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو منظور نہیں کیاگیا اور قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے تنخواہوں اور مراعات میں 140 فیصد اضافے کی تجویز منظور کر لی۔ جس کے تحت اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ ماہانہ5 لاکھ 19 ہزار روپے مقرر ہوئی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پہلے ہی ا سپیکر وزرا اور مشیروں کی تنخواہوں میں لاکھوں روپے کے اضافہ کا بل منظور کیا جا چکا ہے، ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے ان کی تنخواہیں کم از کم وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ کے مساوی مقرر کرنے کا تقاضا کیا گیاتھا جو تمام کٹوتیوں کے بعد الاؤنسز سمیت5 لاکھ 19 ہزار روپے بنتی ہے۔ فنانس کمیٹی نے یہ تجویز من و عن منظور کر لی۔ اب ارکانِ پارلیمنٹ کو دیگر سہولتیں بھی وفاقی سیکریٹری کے مساوی حاصل ہوں گی،

گزشتہ سال 16 دسمبر کو پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائیندگان کی تنخواہ پر نظرثانی کا بل منظور کیا گیا تھا جس کے تحت پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ 76 ہزار ماہانہ سے بڑھا کر 4لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ اسی طرح ڈپٹی  اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے جبکہ پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 لاکھ 51 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے ماہانہ کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی بھی اب اتنی ہی تنخواہ وصول کریں گے۔ اسی طرح دوسری صوبائی اسمبلیوں میں بھی ا سپیکر، وزیروں، مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے ارکان اسمبلی اور سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کو درست اور حق بجانب ثابت کرنے کیلئے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس صاحبان کی تنخواہوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا جن کے بقول سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں اور چیف جسٹس صاحبان کی تنخواہیں 25 سے 28 لاکھ روپے ماہانہ تک بڑھ چکی ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے ارکان پر بجلی، گیس کے بلوں، پارلیمنٹ لاجز کے کرایہ اور مہمانوں کی آؤ بھگت سمیت مالی اخراجات کا بہت زیادہ بوجھ ہے جس سے عہدہ براں ہونے کے لئے وہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافے کے متقاضی تھے۔

اس ضمن میں افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے اس فیصلے کی کسی ایک بھی رکن اسمبلی نے مخالفت نہیں کی،سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ورکنگ کلاس کا ایک بھینمائندہ موجود نہیں ہے؟ جس انداز میں یہ بل منظور کیاگیاہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ قومی اسمبلی میں کوئی بھی ایسا انسان موجود نہیں ہے جس کے دل میں اس ملک کے غریبوں کا کوئی خیال ہواور جو یہ سوچنے کی زحمت بھی کرتاہو کہ دن بھر محنت کرکے بمشکل چند سو روپئے کمانے والے اس ملک کے 90 فیصد سے زیادہ لوگوں کے گھروں میں چولھا کیسے جلتاہے ،اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ اس وقت عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اسمبلی میں موجود کسی بھی رکن کا تعلق عام آدمی سے نہیں ہے، ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آٹا کس بھاؤ بکتاہے اورایک پاؤ گوشت لینے کیلئے بھی عام آدمی کو کن حالات سے گزرنا پڑتاہے ،یہ وہ لوگ ہیں یہ وہ عوامی نمائندگان ہیں جن کو کوئی معاشی مسئلہ درپیش نہیں ہے؟

اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اپنی تنخواہوں میں لاکھوں روپے ماہانہ کا اضافہ کروانے والے ان لوگوں کو موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا؟ تو یہ بات واضح ہے کہ کوئی محب وطن انسان اِس کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اِس وقت حکومت نہیں ریاست بچانے کے نعرے پر کام کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے، سیاست بچانے کے بجائے ریاست بچانے کا نعرہ لگانے والے ان ارکان اسمبلی نے ریاست کی جڑوں پر ہی وار کردیا،ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی تجویز متفقہ طورپر منظور کئے جانے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سنہرے وعدے کرکے عوام کے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچنے والے ان لوگوں کا بنیادی مقصد قومی خزانے کی لوٹ مار کرکے اپنی تجوریاں بھرنے کے سوا کچھ نہیں ہے،تنخواہوں میں اضافہ کرانا چونکہ مشترکہ مقصد تھا اور اس میں سب کا مشترکہ مفا د وابستہ تھا اس لئے کسی نے اِس پر احتجاج کرنا تودور کی بات اعتراض بھی نہیں کیا اور عوام کو درپیش مسائل کی بات بھی نہیں کی۔

تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دینے کے بعد اب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق یہ بیان دے کر قوم کے ہمدرد اور ہیرو بننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھوں نے معاملہ بڑھنے نہیں دیا اور 10 لاکھ سے شروع ہونے والا مطالبہ 5 لاکھ 19ہزار میں کرا دیا ،۔اس سے پہلے صوبائی اسمبلیوں پر بھی یہ نوازشات ہو چکی ہیں۔ 76 ہزار روپے لینے والے ایم پی اے کو 4 لاکھ روپے بغیر مطالبے کے دینا شروع کردئیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے گھروں کا کرایہ ساڑھے3لاکھ ٗ جوڈیشل الاؤنس 10 لاکھ کردیا گیا جو پہلے بالترتیب 64 ہزار اور 4 لاکھ28 ہزار ہوتا تھا۔ ایف بی آرکے افسران کو بھی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت ریٹنگ اور ریوارڈ سسٹم کو شروع کرکے نئی گاڑیاں ٗ تنخواہوں میں اضافہ اور اضافی الاؤنس کی نوید دی گئی تھی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی پولیس افسران کو بھی نقد انعام کی دوڑ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ من پسند افسران کی تجوری بھری جاسکے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کوئی پاکستانی کسی کو ایم۔ این۔ اے بننے پر مجبور نہیں کرتا یہ لوگ ‘‘خدمت کے جذبے سے سرشار ہونے کا نعرہ لگا کر’’ بلندو بالا دعوے کرکے اِ ن مقدس مقامات تک رسائی کرتے ہیں اور پھر اپنی ان خدمات کے بدلے سرکاری خزانے سے اربوں روپے وصول کرلیتے ہیں اور خزانہ اس حد تک خالی ہوجاتاہے کہ ایک ٹوٹی ہوئی نالی ٹھیک کرنے اور کھلے ہوئے مین ہول یا گٹر پر ڈھکن لگانے کیلئے بھی فنڈ نہیں بچتا اور غریبوں کے بچے کھیلتے ہوئے ان میں گر کر جان کھوبیٹھتے ہیں،2018سے آج تک قومی و صوبائی اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن اراکین اگر کسی بات پر اکٹھا ہوئے ہیں تو وہ ہے تنخواہوں میں اضافہ،کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کے99فیصد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ اس وقت صاحب استطاعت ہیں اور 80فیصد ایسے ہیں جو اپنے کاروبار کو بڑھانے اور اْس کی ڈھال بننے کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ان لوگوں نے سیاست میں قدم ہی اس لیے رکھا کہ اپنے ناجائز کاموں کو قانونی شکل دے سکیں اور تنخواہوں اور مراعات کے ذریعے اپنی تجوریاں بھر سکیں یعنی اپنی رکنیت کو کمائی کا ذریعہ بنائیں؟

سوال یہ ہے کہ اگر یہ لوگ واقعی عوام کی خدمت کے جذبے کے تحت سیاست میں آئے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کرکے رکن اسمبلی بنے ہیں تو کیا ان کو اس ملک کے عوام کی اکثریت کی حالت نظر نہیں آتی؟ ۔اسی طرح پولیس کا محکمہ ہو یا قانون نافذ کرنے والا کوئی بھی دوسرا ادارہ اس میں شامل ہونے والے ہر فرد کو علم ہوتاہے کہ اس ملازمت کے عوض اسے کتنی اجرت اور مراعات ملیں گی اور اس ملازمت میں کون سی دشواریاں اور خطرات پیش آسکتے ہیں اس لئے اپنے فرائض کی احسن طورپر ادائیگی کی صورت میں تعریفی سند دینے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن نقد انعام کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آتی۔

یہ صحیح ہے کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں شتر بے مہار اضافے سے عام آدمی ہی نہیں، متوسط اور کسی حد تک اس سے اوپر کے طبقات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ روز افزوں مہنگائی سے حکومت کے ٹھوس، مربوط اور جامع اقدامات و فیصلوں سے ہی عوام کو نجات مل سکتی ہے۔ اس کے لئے فیصلے انہی منتخب ایوانوں میں ہونے ہیں جن کے ارکان عوام کے اقتصادی مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل منظور کرا رہے ہیں جس کے لئے ایسی تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں کہ یہ ارکان اقتصادی مسائل کے بوجھ تلے دبے مظلوم انسان نظر آئیں۔ ہمارے مروجہ انتخابی نظام میں تو غریب عوام میں سے کوئی شخص قومی، صوبائی اسمبلی یا سینٹ کا انتخاب لڑنے کا تصور تک نہیں کر سکتا جبکہ عوامی نمائیندگی کی داعی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں نے خود انتخابات کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ عام آدمی ان کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا۔

کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ لاکھوں، کروڑوں روپے میں فروخت ہوتے ہیں جو پارٹی فنڈ کے نام پر امیدواروں سے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امیدواروں کو کروڑوں روپے انتخابی مہم پر بھی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ان اخراجات کا کوئی عام اور غریب آدمی متحمل ہی نہیں ہو سکتا چنانچہ یہ طبقہ منتخب ایوانوں میں خالصتاً اپنی نمائیندگی سے محروم رہتا ہے اور جو ان کی فلاح اور مہنگائی میں ریلیف کے وعدے کر کے ان سے ووٹ لے کر منتخب ایوانوں میں جاتے ہیں، وہ منتخب ہونے کے بعد نہ صرف انہیں خاطر میں نہیں لاتے بلکہ ہر قسم کے وسائل رکھنے کے باوجود اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھوا کر قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈالتے رہتے ہیں جبکہ یہ بوجھ بھی انواع و اقسام کے ٹیکسوں اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کی شکل میں راندہ درگاہ عوام کی جانب ہی منتقل کر دیا جاتا ہے۔ پارٹی فنڈ اور انتخابی مہم پر کروڑوں کے اخراجات کرنے والے ان ارکان کے بارے میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں معدودے چند ہی ایسے ارکان ہوتے ہیں جن کے پاس دولت و وسائل کی کمی ہو گی جبکہ ان ارکان کی اکثریت تو پہلے یہ جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے گھروں کے آنگن مال و دولت سے بھرے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں مزید اضافہ کی بھلا کیا مجبوری ہو سکتی ہے۔ بطور پارلیمنٹرین ان کا مطمع نظر تو ملک کی ترقی، قومی معیشت کا استحکام اور پسے، کچلے ہوئے محروم طبقات کی فلاح ہونا چاہیے جو سلطانی جمہور کا خاصہ ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی مراعات یافتہ اشرافیہ طبقہ عوامی نمائیندہ ہونے کے ناطے سارے وسائل اپنی جانب منتقل کر لیں اور سلطانی جمہور کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے ہی نہ دیں تو عوام کو سلطانی جمہور سے متنفر کر کے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے میں وہ خود پیش پیش ہوں گے۔

اسی تناظر میں عوام آمریتوں کے ادوار میں اپنے اقتصادی مسائل کے حوالے سے مطمئن ہوتے ہیں کہ ان ادوار میں کم از کم وزیروں، مشیروں، اور ارکانِ اسمبلی و پارلیمنٹ کی بھاری تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اٹھنے والے اربوں، کھربوں کے اخراجات کی تو قومی خزانے میں بچت ہو جاتی ہے اور یہ اخراجات عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے مختص کردئے جاتے ہیں۔ جب سلطانی جمہور میں عوام کے منتخب نمائیندوں کے ہاتھوں ہی عوام کی زندگیاں اجیرن ہو رہی ہوں اور پہلے سے مراعات یافتہ طبقات سلطانی جمہور کے سارے ثمرات خود حاصل کر رہے ہوں تو عام آدمی کو سلطانی جمہور کے ثمرات کے محض خواب دکھا کر انہیں اس کے ساتھ کیونکر اور کب تک وابستہ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ یقیناپارلیمنٹرین حضرات اور دوسرے تمام منتخب عوامی نمائندوں اور سیاسی قیادتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ انھیں سسٹم کے ساتھ عوام کو کیسے وابستہ رکھنا ہے اور ان کا سسٹم پر اعتماد کیسے بڑھانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: تنخواہوں میں اضافے تنخواہوں میں اضافہ اسمبلی اور سینیٹ کی تنخواہوں میں صوبائی اسمبلی سلطانی جمہور پنجاب اسمبلی ارکان اسمبلی ایوانوں میں قومی اسمبلی پارلیمنٹ کی روپے ماہانہ اسمبلی میں لاکھ روپے ہزار روپے اسمبلی کی کی تنخواہ ارکان کی اضافے کی بھی نہیں ان ارکان کے ارکان ہوتے ہیں ہیں اور عوام کو نہیں کی کیا گیا عوام کی کرنے کا کی جانب نہیں ہے والے ان کے تحت ہے اور ملک کے کے لئے

پڑھیں:

پی ٹی آئی نہیں آئی لیکن مذاکراتی کمیٹی برقرار رہے گی: اسپیکر قومی اسمبلی

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق—فائل فوٹو

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نہیں آئی لیکن مذاکراتی کمیٹی برقرار رہے گی۔

اسلام آباد میں حکومتی کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کر کے بتائیں گے، ہم اپنا اجلاس کریں گے اس میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ توقع رکھتا تھا کہ آج اپوزیشن کے دوست تشریف لائیں گے، آج 45 منٹ انتظار کیا، میسج بھی کیا، وہ نہیں آئے، مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جس پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو بھی کریڈٹ حکومت کو جائے گا: شبلی فراز

تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو بھی کریڈٹ حکومت کو جائے گا۔

ایاز صادق کا کہنا ہے کہ ان کی غیرموجودگی کی وجہ سے مذاکرات آگے نہیں چل سکے، اپوزیشن سے درخواست کرتا ہوں مذاکرات کا راستہ نکالا جائے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ 7 ورکنگ دنوں میں دوبارہ اجلاس ہوگا، آج 7 دن پورے ہوگئے، اس متعلق ہم نے سب کو اجلاس کی دعوت دی۔

ان کا کہنا ہے کہ 3 ملاقاتیں کیں لیکن ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے مذاکرات آگے نہیں چل سکتے، اب مذاکرات کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔

ایاز صادق نے یہ بھی کہا کہ میری حکومت اور اپوزیشن سے گزارش ہے کہ مذاکرات کا راستہ دوبارہ اختیار کیا جائے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اُمید ہے اپوزیشن اسپیکر سے رابطہ کرے گی، مناسب نہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں ہم یک طرفہ بیان دیں۔

متعلقہ مضامین

  • مودی دور حکومت: بہتر معیار زندگی کی امید کھونے والے بھارتیوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ
  • پیسے آتے کس کو برے لگتے ہیں، ارکان پارلیمنٹ تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے پر بہت خوش
  • سر سید یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ
  • ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!
  • نوازے ہوؤں کو نوازے ہے سرکار میری
  • ارکان اسمبلی کی اسکیموں کیلیے 50 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری
  • حکومت سے مذاکرات میں شرکت نہیں کرینگے: عمر ایوب
  • پی ٹی آئی نہیں آئی لیکن مذاکراتی کمیٹی برقرار رہے گی: اسپیکر قومی اسمبلی
  • ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فیصد اضافہ شرمناک ہے،حافظ نعیم الرحمن