City 42:
2025-04-16@04:37:13 GMT

شناختی کارڈ بنوانے والوں کے لیے اہم خبر

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ویب ڈیسک:  قومی شناختی کارڈ کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی گئی ، جس کے تحت تاحیات میعاد کے ساتھ منفرد شناختی کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔

 تفصیلات کے مطابق نادرا آرڈیننس 2000 کے سیکشن 44 کے تحت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) رولز 2002 میں اہم تبدیلیوں کی منظوری دے دی گئی۔

 پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ تبدیلیاں نظام کو مزید جامع بنانے، دستاویزات کو آسان بنانے اور لوگوں کے مخصوص گروپوں کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔

فورسز کا شمالی وزیرستان میں آپریشن، 6 خوارج ہلاک، مقابلے میں میجر اور سپاہی شہید

 ان میں سے ایک اہم اپ ڈیٹ خصوصی افراد کیلئے تاحیات میعاد کے ساتھ منفرد شناختی کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔

 رہائشی اور غیر رہائشی بالغ شہری جنہیں وفاقی یا صوبائی حکام نے "خصوصی افراد" کے طور پر تسلیم کیا ہے،وہ وہیل چیئر لوگو والے قومی شناختی کارڈز (NICs) کے اہل ہوں گے۔ نادرا ان خصوصی این آئی سی کے اجراء کا انتظام کرے گا۔

 معذور بچوں کے لیے، نادرا چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یا جووینائل کارڈ جاری کرے گا، جس میں وہیل چیئر کا نشان بھی ہوگا اور وہ قواعد کے مطابق مقرر کردہ مدت کے لیے درست ہوگا۔

چیف ٹریفک آفیسر کی افسر شاہی,  سی ٹی او نے انوکھی سزا دیدی

 اس کے علاوہ اعضا عطیہ کرنے والے افراد کو بھی تاحیات میعاد کا خصوصی کارڈ جاری کیا جائے۔ جس میں وہیل چیئر اور عطیہ دہندگان دونوں کی علامتیں ہوں گی۔

 یہ تبدیلیاں پاکستان بھر میں معذور افراد اور اعضاء کے عطیہ دہندگان کے لیے شمولیت کو یقینی بنانے اور ان کی شناخت کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں میں ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتی ہیں۔

 ان کارڈز کے لیے تاحیات درستگی کی پیشکش کرکے، حکومت لوگوں کے لیے خدمات تک رسائی کو آسان بنا رہی ہے اور معاشرے میں ان کی منفرد شراکت کے لیے پہچانی جاتی ہے۔

 شہری کی جیب سے ایک ہزار روپے نکالنے کا الزام, 5 اہلکار معطل

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: شناختی کارڈ کے لیے

پڑھیں:

نیا قانون اور ادارہ: فیک نیوز اور ڈی فیم کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ این سی سی آئی اے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر ’’سائبر تھانے‘‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔

پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی

پیکا ایکٹ کتنا صحیح کتنا غلط؟

پولیس سروس آف پاکستانکے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر وقار الدین سید کو اس نئے ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

’’میری تصاویر وائرل ہوئیں، اور کوئی دروازہ نہ تھا‘‘

کراچی کی رہائشی 26 سالہ ماہم (فرضی نام) کے لیے 2023 کا سال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔

(جاری ہے)

اُن کی نجی تصاویر اُن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد وائرل ہو گئیں اور انہیں بلیک میل کیا گیا۔

ماہم کے مطابق انہیں ایف آئی اے کے دفتر تک کورنگی سے گلستان جوہر جانا پڑا، جہاں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں محض ایک کاغذ تھما دیا گیا۔ کیس میں انصاف حاصل کرنے میں چھ ماہ لگے، وہ بھی اس وقت جب انہوں نے نجی طور پر ایک آئی ٹی ماہر کی مدد حاصل کی۔

ماہم کہتی ہیں، ’’اگر میرے ضلع میں کوئی سائبر تھانہ ہوتا تو میں فوری طور پر مدد حاصل کر سکتی تھی۔ میرے جیسے کئی لوگ صرف اس لیے خاموش رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔‘‘

80 فیصد شکایات، صرف 20 فیصد وسائل

2024 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی کل شکایات میں سے تقریباً 80 فیصد سائبر کرائمز سے متعلق تھیں۔

تاہم ایف آئی اے کے مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد حصہ سائبر ونگ کو فراہم کیا گیا، جبکہ 80 فیصد وسائل امیگریشن، اکنامک کرائم اور اینٹی کرپشن ونگز پر خرچ کیے گئے۔

این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، اسی فرق کو ختم کرنے اور سائبر کرائمز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نوعیت کے مطابق وسائل اور مہارت مختص کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔

لوگو، وردی، نئی شناخت اور اختیارات

این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود الحسن ستی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ اس ’’ادارے کے لیے مخصوص وردی، لوگو، اور دیگر انتظامی اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل این سی سی آئی اے کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ صرف شکایات سننے تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تکنیکی تربیت، ڈیجیٹل فارنزک، اور تیز رفتار کارروائی کے لیے ایک جامع فریم ورک پر کام کرے گا۔

محمود الحسن ستی کے مطابق، ’’جو شخص جان بوجھ کر کسی ایسی اطلاع کو، جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا اسے علم ہو یا خدشہ ہو، پھیلائے گا یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرے گا، اسے تین سال تک قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

‘‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک سوشل میڈیا کونسل بنائی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی رکھی جائے گی۔ قبل ازیں یہ اختیارات دفعہ 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس تھے۔

سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی

حکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔
ادارے کے مطابق، عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے پیکا قانون کا اردو ترجمہ ویب سائٹ پر جاری کیا جا رہا ہے۔

اگلے مراحل میں قانون کو پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں بھی ترجمہ کر کے عام فہم بنایا جائے گا۔

ایک سائبر کرائم ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب تک قانون کو آسان زبان میں نہ سمجھایا جائے، اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ اگر این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کی طرز پر روایتی پولیسنگ کی، تو عوام میں پذیرائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

‘‘ پیکا قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے خدشات

پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک پیکا قانون دراصل ’’مارشل لا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاست دانوں پر بھی لاگو ہوں گے، جیسا کہ فرحت اللہ بابر کو نوٹس دیے جانے کی مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’’شق 26 اتنی وسیع ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون کی شدت کا اندازہ تب ہوگا جب وہ خود اپوزیشن میں ہوں گے۔‘‘

پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

صحافیوں، ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے تاہم ان تحفظات کے حوالے سے کہا، ''یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی لگا رہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں۔ اصل ہدف ان افراد کو روکنا ہے جو یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر بغیر ثبوت کے لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • صحافی پر افغانی ہونے پر  شناختی کارڈ منسوخی کے خلاف کیس، وزارتِ داخلہ کو 30 روز میں اپیل پر فیصلہ کرنے کا حکم
  • لاہور ہائیکورٹ کا صحافی کا شناختی کارڈ منسوخ کرنے پر وزارت داخلہ کو 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم
  • وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ
  • نیا قانون اور ادارہ: فیک نیوز اور ڈی فیم کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی؟
  • نادرا نے برتھ یا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور نکاح نامے سے متعلق اہم وضاحت جاری کردی
  • نادرا نے پوسٹ آفس کے ذریعے شناختی کارڈ سروس بند کرنے کا اعلان کر دیا
  • نادرا کا پوسٹ آفس کے ذریعے شناختی کارڈ سروس بند کرنے کا اعلان
  •  پیدائش، وفات اور ازدواجی حیثیت میں تبدیلی کے اندراج سے متعلق نادرا کی وضاحت آگئی  
  • غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا انخلا ءتیزی سے جاری
  • برتھ، ڈیتھ سرٹیفکیٹس اور نکاح نامے کے حوالے سے نادرا کی اہم وضاحت جاری