قسمت کا حال بتا کر، کرتب دکھا کر ،بہانے سے اشیا فروخت کرنا،زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا منظم بھیک مانگنا ہے،ترمیمی بل سینیٹ میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کی روک تھام کا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا،بل وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کیاگیا،بل کےمطابق بھیک مانگنے کیلئے بھرتی کرنے، پناہ دینے والے کو 7سال قید، 10لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ منظم بھیک مانگنے سے مراد کسی شخص کو جان بوجھ کر فراڈ یا خیرات وصول کرنے میں ملوث کرنا ہے،قسمت کا حال بتا کر، کرتب دکھا کر بھیک مانگنا منظم بھیک مانگنا کہلاتا ہے،منظم بھیک مانگنے سے مراد بہانے سے اشیا فروخت کرنا بھی ہے،زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا بھی منظم بھیک مانگنا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز بل صدر کی جانب سے واپس کرنے کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ زخم، بیماری، معذوری دکھا کر خیرات مانگنا بھی منظم بھیک کہلاتا ہے،خود کو بطور نمائش استعمال ہونے دینا بھی منظم بھیک کے زمرے میں آتا ہے،مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر بھیک مانگنے کو جرم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
پیکا ترمیمی بل سینیٹ میں بھی منظور، صحافیوں کا احتجاج
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2025ء) پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے منگل کے روز پیکا ترمیمی بل 2025 منظور کر لیا، جس میں آن لائن ڈس انفارمیشن یا غلط اور جھوٹی خبروں کی تشہیر پر تین سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
اس بل کے مسودے کے مطابق جو کوئی بھی آن لائن ایسی معلومات ''ارادتاﹰ پھیلائے‘‘ گا، جو''غلط یا جھوٹی ہوں اور خوف، افراتفری، انتشار یا بدامنی‘‘ کی وجہ بن سکتی ہوں، تو اسے تین سال تک کی سزائے قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس بل کو پچھلے ہفتے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا اور اب اس کے باقاعدہ قانون بننے کے لیے صرف ملکی صدر کی طرف سے منظوری باقی ہے۔
(جاری ہے)
ترمیمی بل پر تنقیدپاکستانی صحافی اس بل کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور آج منگل کے روز بھی جب یہ ترمیمی مسودہ سینیٹ میں منظور کیا جا رہا تھا، تو وہاں موجود صحافی احتجاجاﹰ سینیٹ کی پریس گیلری سے باہر چلے گئے تھے۔
آج منگل کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے پیکا ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے صحافی آصف بشیر چوہدری نے کہا حکومت نے نامہ نگاروں کو یقین دلایا تھا کہ اس مجوزہ قانون کے حوالے سے ان سے مشورہ کیا جائے گا لیکن انہیں ''دھوکہ دیا گیا اور ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔‘‘
آصف بشیر، جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رکن بھی ہیں، نے مزید کہا، ''ہم واقعی مس انفارمیشن کے خلاف ایک قانون چاہتے تھے لیکن اگر ایسا بحث و مباحثے کے بجائے خوف اور زور زبردستی سے کیا جائے گا تو ہم اسے ہر پلیٹ فارم پر چیلنج کریں گے۔
‘‘بقول آصف بشیر، ''آمریت کے ادوار میں بھی پارلیمان میں اس طرح زبردستی قانون سازی نہیں کی جاتی تھی جس طرح یہ حکومت اب کر رہی ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما اور ملکی سینیٹر شبلی فراز نے پیکا ترمیمی بل کو ''انتہائی غیر جمہوری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کی جماعت کے ایکٹیوسٹس کو ''سیاسی طور پر زیادہ نشانہ بنایا جائے گا۔
‘‘ حکومتی موقفاس بل پر عمومی تنقید کے برعکس پاکستان کے وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کی 'پولیسنگ‘ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں پھیلنے والے انتشار کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔‘‘
م ا / م م (اے ایف پی)