اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز بل صدر کی جانب سے واپس کرنے کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ چھوٹا سا مسئلہ ہے کیا ہو جائے گا، یونیورسٹی بنتی ہے تو بننے دیں،چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل آفس حکومت کو اس حوالے سے بریف کرے۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز بل صدر کی جانب سے واپس کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، وکیل فاروق ایچ نائیک نے مدارس رجسٹریشن بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مدارس رجسٹریشن بل بھی صدر نے واپس کیا پھر دوبارہ پارلیمنٹ سے پاس ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ صدر نے بل واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا، اب مشترکہ اجلاس میں پیش ہوگا، نیشنل کی حد تک کابینہ ڈویژن کا آرڈر ہے،چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ضروری تو نہیں جہاں لفظ نیشنل ہو وہاں گورنمنٹ ہی ہو، پرائیویٹ بھی ہوسکتا ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یونیورسٹی میں جو ہو گا ملک کیلئے اچھا ہوگا، چیف جسٹس نے کہاکہ چھوٹا سا مسئلہ ہے کیا ہو جائے گا، یونیورسٹی بنتی ہے تو بننے دیں،چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل آفس حکومت کو اس حوالے سے بریف کرے،وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ صدر کے اعتراض کو کون ہٹائے گا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جس طرح 2بل پاس ہوئے اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے،فروری میں دوبارہ مشترکہ اجلاس ہوگا، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کرلیا۔

سیلینا گومز امریکی صدر کے تارکین وطن کیخلاف کریک ڈائون پر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑیں

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل چیف جسٹس نے کہاکہ

پڑھیں:

کون سا کیس کہاں لگے گا، فیصلہ ججز کمیٹی کا اختیار ہے، جسٹس منصور کے 2 حکم واپس لینے کا حکمنامہ جاری

سپریم کورٹ آف پاکستان میں بینچز  اور ججز کمیٹیوں کے اختیارات  کے معاملے سے متعلق آئینی بینچ نے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے 2 حکمنامے واپس لینے کا تحریری آرڈر جاری کر دیا۔

جاری کردہ تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ 13 اور 16 جنوری کے حکمنامے بغیر کسی اختیار کے تھے، دونوں حکمنامے واپس لیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی بینج نے جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز واپس لے لیے

اس میں کہا گیا کہ ججز کمیٹیاں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کام کرتی ہیں، کون سا کیس کہاں لگے گا فیصلہ کرنا کمیٹیوں کا اختیار ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کسٹمز ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران  جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز واپس لے لیے تھے جب کہ اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کا توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے قانونی تشریح کا مقدمہ  جج جسٹس منصور علی شاہ کے ریگلولر بینچ میں فکس کرنے پر وضاحت طلب کی تھی۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جسٹس منصور شاہ کے ریگولر بینچ میں قانونی تشریح کا مقدمہ فکس کرنے پر استفسار کرتے ہوئے فکسر برانچ کے افسران کو نوٹس جاری کر کے 7 روز میں وضاحت طلب تھی۔

ذرائع کے مطابق نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ آئینی بینچ کا مقدمہ جسٹس منصور ریگولر بینچ میں کیسے لگ گیا، اس پر افسران وضاحتی جواب جمع کرائیں۔ 

جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ نے کسٹم ڈیوٹی ایکٹ کا آرٹیکل 191A تناظر میں سننے کا فیصلہ کیا تھا جس کو پریکٹس اور پروسیجر کمیٹی نے آئینی بینچ کو بھجوادیا تھا۔
 

متعلقہ مضامین

  • ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہم جہاں سے چلے ہیں وہیں کھڑے ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ
  • کون سا کیس کہاں لگے گا، فیصلہ ججز کمیٹی کا اختیار ہے، جسٹس منصور کے 2 حکم واپس لینے کا حکمنامہ جاری
  • نیشنل یونیورسٹی سیکیورٹی سائیسز بل صدر کی جانب سے واپس کرنے کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ 
  • حکومتی محکمے نے رمضان المبارک میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ ظاہر کر دیا
  • ملٹری ٹرائل میں سیکیورٹی وجوہات کے باعث رشتے داروں، صحافیوں کو رسائی نہیں دی جاتی، اٹارنی جنرل
  • چینی سرمایہ کاروں نے پولیس کیخلاف دائر درخواست واپس لینے کا فیصلہ
  • پولیس کیخلاف درخواست واپس لینے کیلئے 6 چینی باشندوں کے حلف نامے جمع
  • حکومت کا توہین عدالت کیس میں جسٹس منصورعلی شاہ کے آرڈر کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی حکومت کا جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج  کرنے کا فیصلہ