سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: جسٹس جمال مندوخیل کی اپنے گزشتہ روز کے ریمارکس پر وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز دیے گئے اپنے ریمارکس کے حوالے سے وضاحت کردی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
آج سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل
ان کا کہنا تھا کہ کل خبر چلی میں نے کہا 8 ججز کےفیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیل پر سماعت میں وقفہ
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا گیا ہے۔
سماعت شروع ہوتے ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کرتے ہی شق 19 کا حوالہ دیا تو جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ میرا سوال گزشتہ روز بھی یہی تھا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر چارج ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فئیر ٹرائل میں کیا فرق ہے، چارج فریم ہونے کے بعد شامل تفتیش کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ ہو تو کیا آرڈر کے خلاف کوئی ریمیڈی کرسکتے ہیں، مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر اعتراف نا کرے تو پھر کیا طریقہ کار ہوگا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اعتراف نا کرنے کی صورت میں بھی کیس وہی چلے گا؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ جج اور ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا کیس نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہوسکتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان، ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھا جاتا ہے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور۔
انہوں نے کہا کہ جب رٹ میں ہائیکورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں