سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس، جسٹس جمال کی گزشتہ روز کی آبزرویشن پر وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس، جسٹس جمال کی گزشتہ روز کی آبزرویشن پر وضاحت WhatsAppFacebookTwitter 0 30 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: (آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانیوالی آبزرویشن پر وضاحت دے دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیل پر سماعت کررہا ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا،مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات عام تاثر میں کی، میں نے یہ کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے، کل کی آبزرویشن میں ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، میڈیا کے کچھ ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کیلئے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو کورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا نو مئی کا جرم ان دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہونگی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ا بزرویشن پر وضاحت فوجی عدالتوں سویلینز کے جسٹس جمال گزشتہ روز نے کہا کہ کے فیصلے کا ٹرائل ہوا تھا کے تحت
پڑھیں:
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنے دلائل ختم کرلونگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت دفاع نے 9 مئی کیس میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کردیا
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا آٹھ ججز فیصلے کو دو افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیکر جایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں،
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایئر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن دو ہزار دو سے لیکر ترمیم تک سولہ ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔
وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف نہ آنے والے جرائم کیلئے ترمیم کی گئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں، جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے، وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکومت بلوچستان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ عدالتی فیصلے سے متاثرہ کیسے ہیں۔