کلائی کی سرجری کے بعد ارچنا پورن سنگھ کی کام پر واپسی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
معروف بھارتی اداکارہ و میزبان ارچنا پورن سنگھ نے کلائی میں فریکچر ہونے کے بعد نئی امید کیساتھ کام پر واپسی کرلی۔
جند روز قبل ارچنا پورن سنگھ نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک نیا ویلاگ پوسٹ کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی تفصیلات بتائیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ارچنا راج کمار راؤ کے ساتھ ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھیں کہ اچانک حادثہ پیش آیا جس کے نیتجے میں ان کی کلائی میں فریکچر ہوگیا تھا۔
اس حادثے کے بعد ارچنا پورن سنگھ کو ممبئی کے اناوتی میکس سپر اسپیشیلٹی اسپتال لے جایا گیا جہاں انکی کلائی کی سرجری ہوئی۔
بعد ازاں اداکارہ نے اپنے ویلاگ میں راجکمار راؤ سے شوٹنگ ادھوری چھوڑنے پر معافی بھی طلب کی اور یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جلد کام پر واپس آئیں گی۔
اب حال ہی میں اداکارہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں انہوں نے ویلاگ کا ایک منظر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ،’جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ میں یہی ماننے کی کوشش کر رہی ہوں’۔
View this post on InstagramA post shared by Archana Puran Singh (@archanapuransingh)
ارچنا مزید لکھتی ہیں کہ،’میں بالکل ٹھیک ہوں اور ہمیشہ کی طرح مثبت سوچ رکھ رہی ہوں (بس ایک ہاتھ سے کچھ بھی کام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اب پتہ چل رہا ہے)۔’
ارچنا کی اداکار راجکمار راؤ سے معذرت:
اداکار و میزبان واقعے کو یاد کرتے ہوئے مزید بتاتی ہیں کہ گرنے کے باعث ان کے ہونٹوں کے گرد سوجن بھی آ گئی تھی اور انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی کلائی فریکچر ہو گئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے خوشی کی خبر شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ،’مجھے سرجری کے بعد ڈسچارج کردیا گیا ہے اور میں آج رات شوٹنگ پر واپس جا رہی ہوں کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو پروڈکشن کو بڑا نقصان ہوگا۔’
علاوہ ازیں اپنے تازہ ترین ویلاگ میں ارچنا پورن سنگھ نے اس واقعے سے حاصل ہونے والے سبق کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ،’میں نائٹ شفٹ میں کام کر رہی تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔ میں اب بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ کل میں شدید صدمے میں تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ آپریشن بہت تکلیف دہ ہوگا، لیکن سب ٹھیک رہا۔’
وہ کہتی ہیں کہ،’ میں نے اس تجربے سے کچھ سبق سیکھے ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب آپ خود کو تکلیف میں محسوس کرتے ہیں، وقت کے ساتھ سب کچھ سنبھل جاتا ہے۔’
کام کے حوالے سے بات کریں تو ارچنا پورن سنگھ کو حال ہی میں فلم ’وکی ودیا کا وہ والا ویڈیو’ میں دیکھا گیا تھا۔ اس فلم میں راجکمار راؤ، ترپتی دمری، ملیکہ شراوت، وجے راز اور دیگر اداکار بھی شامل تھے۔ تاہم، فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہ ہو سکی اور عالمی سطح پر صرف58.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ارچنا پورن سنگھ رہی ہوں کے بعد
پڑھیں:
واپسی کی لہر
اسلام ٹائمز: فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے اور ان کی زبردستی نقل مکانی کرنے کی سازش فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے قبضے کے ابتدا سے ہی جاری ہے۔ صیہونی جرائم پیشہ افراد نے ناجائز صیہونی ریاست کے قیام کے آغاز میں ہی، 1948ء میں ”حادثہء نکبہ“ کے دوران فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے خوفناک طرز کا قتل عام کیا۔ فلسطین کے ”مرکزی ادارہء شماریات“ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے آخر تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 5.48 ملین تک پہنچ گئی تھی جو کل فلسطینی آبادی کا تقریباً 38 فیصد یعنی 14.5ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 62 فیصد فلسطینی اپنے علاقوں سے باہر رہتے ہیں۔
فلسطینی آبادی کا یہ انخلا دو بڑے واقعات کے سبب ہوا۔ ایک کا سبب 1948ء میں جعلی صیہونی ریاست کے قیام ہے جب کہ دوسرے بڑے انخلا کی وجہ 1948ء کی جنگ ہے۔ نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے ذریعے فلسطینی عوام کو بے گھر کرنا صیہونیوں کا پرانا مشغلہ ہے۔ ان مظالم کے بعد جو فلسطینی اپنی جانیں بچانا چاہتے تھے وہ مغربی کنارے اور غزہ سمیت کئی علاقوں سے اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً اردن، لبنان، شام، مصر اور عراق وغیرہ میں ہجرت کر گئے۔ یہ ممالک اب تک ان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ محض اردن میں 40 لاکھ سے زائد فلسطینی اردن کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔
1948ء کے نکبہ کے واقعے میں آٹھ سے نو لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کی نقل مکانی کا یہ سلسلہ 1948ء اور 1968ء کی جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1967ء میں چار لاکھ فلسطینیوں نے اپنا وطن چھوڑا جن میں سے سے زیادہ تر مصر چلے گئے۔ 1978ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 65 ہزار فلسطینی پناہ گزین، لبنان سے بے گھر ہوئے۔ پھر 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لبنان سے ”پی ایل او“ کی موجودگی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران 15 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ 1968ء کی جنگ جو فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنی، فلسطینیوں کی نقل مکانی اس کے بعد بھی رکی نہیں۔ صیہونیوں نے اس جنگ کے بعد سے اپنی استعماری اور جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے حالات زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔
مقبوضہ فلسطین نے سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران کبھی بھی سلامتی اور استحکام نہیں دیکھا۔ صیہونی ہمیشہ سے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی بستیوں کو توسیع دے کر فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1977ء میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار تھی جو 2017ء میں بڑھ کر 60 ہزار ہوگئی۔ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل 2050ء تک ان بستیوں کی تعداد تقریباً دو ملین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ توسیع پسندی کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تمام فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اسرائیل کے لیے ہمیشہ ایک ایسا خواب رہی ہے جسے امریکہ کے تمام منصوبے بھی شرمندہء تعبیر نہ کر سکے۔
”الاقصیٰ آپریشن“ کے بعد صیہونیوں نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر کے یہ سمجھا کہ شاید اب ان کے اس پرانے دیرینہ خواب کو زندہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں عبرانی میڈیا نے اسرائیلی انٹیلی جنس کی وزارت سے متعلق ایک دستاویز کا انکشاف کیا تھا جس کے مطابق غزہ سے سینائی تک فلسطینیوں کی نقل مکانی کے منصوبے کو اسرائیل کا ایک مثالی منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم بیدار ضمیر عالمی رائے عامہ نے غزہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے اسرائیلیوں کی بربریت کا مشاہدہ کرنے کے بعد فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی اسرائیلی منصوبے کو کبھی قبول نہیں کیا۔
فلسطینی عوام کی نقل مکانی عرب ممالک، بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک خطرناک حقیقت ہے۔ اردن اور مصر اس مسئلے سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ مختلف امریکی حکومتوں نے فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے ”عارضی ہجرت“ کی اصطلاح بار بار استعمال کی ہے لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جو بھی نقل مکانی ہوگی، مستقل ہوگی۔ حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی قسم کا ایک منصوبہ ٹیبل پر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں فلسطینی اس دام فریب میں آ کر اپنے علاقے سے ہجرت کر کے وقتی طور پر اردن اور مصر میں آباد ہو جائیں گے اور یوں گریٹر اسرائیل کا ادھورا خواب پورا ہو سکے گا۔
فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔