UrduPoint:
2025-04-13@16:18:53 GMT

امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیوبا کی گوانتانامو بے میں تارکین وطن کے حراستی مرکز کی تعمیر کا حکم دیا ہے، جس میں ان کے بقول ایسے 30 ہزار افراد کو رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے کی یہ نئی سہولت اس کی اعلیٰ حفاظتی فوجی جیل سے الگ ہو گی اور یہ "امریکی عوام کے لیے خطرہ بننے والے بدترین غیر قانونی اجنبی مجرموں" کی رہائش ہو گی۔

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

امریکی صدر نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ ملک بدر کیے گئے تقریباﹰ تیس ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رہائش فراہم کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

بعد میں شام کو ہی ٹرمپ نے محکمہ دفاع اور ہوم لینڈ سکیورٹی کو اس کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

ٹرمپ کے پہلے ایگزیکٹو آرڈرز ان کی ترجیحات کے مظہر

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے میں "تارکین وطن کی سہولت" کا استعمال ان "بدترین مجرموں اور غیر قانونی بیرونی افراد کو حراست میں لینے کے لیے کیا جائے گا، جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔"

ٹرمپ نے مزید کہا، "ان میں سے کچھ تو اتنے برے ہیں کہ ہم ان کے ممالک پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک پائیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں۔

"

امریکہ اور افغان طالبان میں قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت، رپورٹ

کیوبا کی منصوبے پر تنقید

بدھ کی شام کو سرحد سے متعلق ٹرمپ کے خاص عہدیدار ٹام ہوم نے کہا کہ گوانتنامو بے پر موجود سہولت میں توسیع کی جائے گی اور امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے ذریعے اسے چلایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کو امریکی کوسٹ گارڈ کے ذریعے سمندر میں روکے جانے کے بعد ہی براہ راست وہاں پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ کہ اس کے لیے "اعلیٰ ترین" حراستی معیار نافذ کیے جائیں گے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس سہولت کی تیاری پر کتنی لاگت آئے گی اور یہ کب مکمل ہو گی اور یہ کہ "اعلیٰ ترین" حراستی معیار کیا ہو گا۔

ادھر کیوبا کی حکومت نے اس منصوبے کی مذمت کی اور امریکہ پر "مقبوضہ" زمین پر تشدد اور غیر قانونی حراست کا الزام لگایا۔

امریکہ نے گوانتانامو بے میں قید گیارہ یمنی شہریوں کو رہا کر دیا

ٹرمپ کا مہاجرین کی ملک بدری میں اضافے کا وعدہ

انتخابی مہم کے دور ٹرمپ نے امیگریشن کو کافی حد تک کم کرنے اور سرحدی کنٹرول کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا تھا اور عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ہی انہوں نے اس سلسلے میں سرحد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔

ان کی انتظامیہ بھی ان کے ان احکامات اور اس پر عمل کو کافی نمایاں کر کے پیش کر رہی ہے، جیسے وسطی امریکہ میں تارکین وطن کو لے جانے والے امریکی فوجی طیاروں کی تصاویر کو خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔

لاکھوں افراد کی ممکنہ ملک بدری امریکی معیشت کے لیے خطرہ بھی

اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کے دوران بھی تارکین وطن کی اسی طرح کی ملک بدری ہوئی تھی، تاہم اس وقت امریکہ نے اس کے لیے فوجی طیارے استعمال نہیں کیے تھے۔

ٹرمپ نے بدھ کے روز امیگریشن سے متعلق بل پر دستخط کے موقع پر کہا کہ کچھ لوگوں کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، جن کے وہاں رہنے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ٹرمپ نے کہا، "ان میں سے کچھ اتنے برے ہیں کہ ہم ان ممالک پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک سکیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ پھر واپس آئیں، اس لیے ہم انہیں گوانتانامو بے بھیجنے والے ہیں۔

" گوانتانامو بے، ایذا رسانی اور تشدد کے لیے بدنام

گوانتانامو بے ایک فوجی جیل ہے، جو جنوری 2002 میں جنوب مشرقی کیوبا میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر قائم کی گئی تھی۔

اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے، 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو انجام دینے کے دوران، امریکہ کی طرف سے پکڑے گئے افراد کو حراست میں رکھنے کے لیے اس جیل کا انتخاب کیا تھا۔

بش انتظامیہ نے اس بدنام زمانہ جیل کا انتخاب اس کی منفرد حیثیت کی وجہ سے کیا تھا، کیونکہ یہ علاقہ امریکی کنٹرول میں تو ہے، تاہم تکنیکی طور پر یہ امریکہ کے اندر نہیں ہے۔

لیکن جن سینکڑوں افراد کو گوانتانامو بے میں رکھا گیا وہ ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں ان کے پاس کسی طرح کے کوئی بھی قانونی حقوق نہیں تھے۔

برسوں اس جیل میں بند قیدیوں کے ساتھ جسمانی زیادتیوں کے سلوک، تشدد اور ایذا کے ذریعے پوچھ گچھ کے الزامات بھی لگتے رہے اور امریکی حکومت نے سینکڑوں افراد کو بغیر کسی الزام اور مقدمہ چلائے تقریباﹰ دو دہائی تک قید میں رکھا، جس پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گوانتانامو بے میں تارکین وطن کو افراد کو نے کہا کے لیے اور یہ گی اور کہا کہ

پڑھیں:

امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایرانی دارالحکومت تہران سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق خلیجی ریاست عمان کی ثالثی میں مسقط میں امریکہ اور ایران کے مابین بالواسطہ بات چیت کا، جو اولین مرحلہ کل ہفتہ 12 اپریل کو مکمل ہوا، اس کے اختتام پر یہ اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے وفود سات دن بعد دوبارہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے ملیں گے۔

اس مکالمت میں پیش رفت کے بارے میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سرکاری ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ ویک اینڈ پر اگلی بات چیت میں بھی ثالثی عمان ہی کرے گا جبکہ تہران اور واشنگٹن کے مذاکراتی نمائندوں کے مابین براہ راست کوئی بات چیت عمل میں نہیں آئے گی۔

اسماعیل بقائی نے کہا، ''اس بات چیت میں توجہ صرف ایرانی جوہری پروگرام پر اور تہران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز رہے گی۔

(جاری ہے)

‘‘ یہ اگلی بات چیت ہفتہ 19 اپریل کے روز ہو گی۔

ساتھ ہی اسماعیل بقائی نے کہا، ''یہ طے ہے کہ ثالثی عمان ہی کرے گا۔ تاہم ہم مستقبل میں مزید مذاکرات کے لیے جگہ کے انتخاب پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔‘‘

کل ہونے والی بات چیت کا خاص پہلو

مسقط میں ہفتہ 12 اپریل کو تہران اور واشنگٹن کے مابین جو بالواسطہ بات چیت ہوئی، اس میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔

اس مکالمت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ، اور ایران کے مابین ہونے والے اولین مذاکرات تھے۔ ایسی کوئی بھی دوطرفہ بات چیت صدر ٹرمپ کے 2017ء سے لے کر 2021ء تک جاری رہنے والے پہلے دور صدارت میں ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔

اس مکالمت کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے وفود ایک ہی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ وہ دو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے آپس میں پیغامات کا تبادلہ کر رہے تھے۔

اگر ایران نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام نہ چھوڑا تو اسرائیل ’حملے کی قیادت‘ کرے گا، ٹرمپ

اولین رابطوں کے بعد ابتدائی ردعمل

امریکہ اور ایران دونوں نے ہی پہلے مرحلے کی اس بات چیت کو تعمیری قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ واقعی کسی نہ کسی حل تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ایسا حقیقتاﹰ کب تک ممکن ہو پاتا ہے۔

ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: معاہدہ یا پابندیاں، ٹرمپ

مسقط مذاکرات کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ ایران کے ساتھ امریکہ کی اس بالواسطہ بات چیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، ''میرے خیال میں یہ بات چیت ٹھیک چل رہی ہے۔ ویسے، جب تک آپ کچھ کر نہ چکیں، تب تک کچھ بھی زیادہ اہم نہیں ہوتا۔‘‘

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو سرکاری میڈیا نے دو دیرینہ حریف ممالک کے مابین شاذ و نادر ہی ہونے والی اس بات چیت کو سراہا اور اسے تہران اور واشنگٹن کے تعلقات میں ایک ''تاریخی موڑ‘‘ کا نام دیا۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • ٹرمپ کا گرین کارڈ ہولڈرزاور تارکین وطن کی سخت نگرانی کا حکم
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کا نفاذ، گرین کارڈ ہولڈرز سمیت تمام تارکین وطن کی کڑی نگرانی کا فیصلہ
  • امریکہ کیجانب سے یمن پر حملوں کا مقصد غزہ میں جاری نسل کشی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، انصار الله
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی
  • ٹرمپ کا ممکنہ فیصلہ جنوبی کوریا کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتا ہے، امریکی جنرل
  • چین کی جوابی کاروائی امریکی مصنوعات پر125فیصدنیا ٹیرف عائدکرنے کا اعلان
  • امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟