اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جنوری 2025ء) غزہ اور مغربی کنارے میں بکھرے گولہ بارود سے شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اور انسانی امداد کی فراہمی کا عمل بھی متاثر ہو رہا ہے۔ جنگ بندی کے بعد 24 افراد دھماکہ خیز مواد کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں جسے صاف نہ کرنے کی صورت میں مزید نقصان کا خدشہ ہے۔

بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این مائن سروس' کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نمائندے لوک اِرونگ نے کہا ہے کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران غزہ میں اَن پھٹے گولہ بارود کی بہت بڑی مقدار جمع ہو چکی ہے۔

اس میں فضا سے گرائے گئے بم، مارٹر گولے، راکٹ، گرنیڈ اور کئی طرح کا دھماکہ خیز مواد شامل ہے۔ Tweet URL

وسطی غزہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے نیویارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد اس گولہ بارود کی زد میں آ کر 92 لوگوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

جنگ بندی کے بعد جب لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں کی جانب واپس آئے ہیں تو وہاں انہیں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد ملا ہے۔ اسی طرح امدادی قافلوں کا بھی روزانہ ایسے مواد سے واسطہ پڑ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ادارہ مقامی شراکت داروں کی مدد سے، پمفلٹ اور پوسٹروں کی تقسیم اور تعلیمی و تربیتی پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو اس خطرے کے بارے میں آگاہی دے رہا ہے۔

جن علاقوں میں یہ خطرہ زیادہ ہے وہاں ادارے کی ٹیمیں امدادی قافلوں کے ساتھ چلتی ہیں تاکہ انسانی نقصان کو روکا جا سکے۔مغربی کنارے کے حالات

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اَن پھٹے گولہ بارود کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ بارودی سرنگوں کی صفائی سے متعلق فلسطینی اتھارٹی کے مرکز کی مدد سے اس خطرے پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس ضمن میں لوگوں کو خطرے سے آگاہی دینے اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے تعلیم و تربیت مہیا کی جا رہی ہے۔ بے گھر اور پناہ گزین آبادیوں کے لیے یہ خطرہ کہیں زیادہ ہے جس کے باعث ایسے تربیتی پروگراموں میں انہیں خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ بھر میں ملبے کے ڈھیر لگے ہیں جن سے انسانی صحت اور ماحول کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

اس ملبے کی مقدار 2008 کے بعد غزہ میں ہونے والی دیگر تمام جنگوں میں اکٹھے ہونے والے ملبے کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہے۔

15 ماہ تک جاری رہنے والی بمباری سے گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ قابل رہائش نہیں رہے۔ ملبے میں ممکنہ طور پر بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کےعلاوہ مضر صحت ایسبیسٹاس کی موجودگی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

مستقل جنگ بندی کی امید

پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی نے امید ظاہر کی کہ غزہ میں حالیہ جنگ بندی سے کشیدگی کا مستقل خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کے ایک بچے اشرف کے الفاظ دہرائیں گی کہ 'امید ہے یہ جنگ بندی حقیقی ہو گی اور لوگوں کو ہمیشہ کی طرح مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

' انہوں نے بتایا کہ اس جنگ سے لوگوں پر جو نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور علاقے میں تمام لوگ دکھ کی کیفیت میں ہیں۔

حنان بلخی نے کہا کہ کسی ایک علاقے میں جنگ بندی دوسرے علاقے میں ظلم و تشدد کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ ادارہ مغربی کنارے کے حالات کا بغور جائزہ لے رہا ہے جہاں اکتوبر 2023 کے بعد طبی سہولیات متواتر حملوں کی زد میں ہیں۔

انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ کسی اور ادارے کے پاس غزہ میں لوگوں کو امداد اور ضروری خدمات مہیا کرنے کی اس قدر وسیع صلاحیت موجود نہیں جو 'انروا' کے پاس ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گولہ بارود انہوں نے لوگوں کو رہا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

کیا وہ واقعی پاگل تھا؟

ایک پاگل تھا، پاگل ہی تھا کیوں کہ وہ جو کچھ کرتا تھا، بولتا تھا ، وہ پاگل ہی کرتے ، دانا، ہوشیار اورعقل مند نہیں کرتے۔ وہ نہ جانے کہاں سے آیا تھا ، گاؤں کے کنارے قبرستان کے پاس جوتے گانٹھنے کا اڈہ لگائے ہوئے تھا، جوتے بڑے کمال کے گانٹھتا تھا اورپیسے بھی بہت کم لیتا تھا، اس لیے لوگ اچھی تعداد میں آتے تھے۔

ایک دن گاؤں کے کچھ شریر لڑکوں نے سوچا کہ یہ بہت کماتا ہے، اس کے پاس بہت مال ہوگا لیکن اڈے کی تلاشی لی تو کچھ بھی نہ ملا چنانچہ غصے میں اس کے سارے آوزار لے جاکر کہیں دبادیے۔ بیچارے کے پاس آوزار نہ رہے تو مزدوری کرنے لگا لیکن یہاں سارے مزدور اس کے دشمن ہوگئے کہ وہ ان کی طرح کام چوری نہیں کرتا تھا، جی جان لگا کر کام کرتا تھا۔ مزدوروں نے اسے اپنے ڈھب پر لانا چاہا لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں حق حلال روزی کماؤں گا ۔

آخر مزدوروں نے جب دیکھا کہ وہ پورا کام کرکے مالکوں کوخوش کرتا ہے اورہمارے بارے میں بدظن کررہا ہے تو ایک دن اس کی جھونپڑی میں گھس کر اسے خوب مارا پیٹا اورجو کچھ ہاتھ لگا، وہ بھی لے گئے لیکن اسپتال میں اس نے کسی پر الزام نہیں لگایا، تشدد کرنے والے مطمئن ہوگئے کہ ہماری نقاب پوشی کی وجہ سے اس نے ہمیں پہچانا نہیں ہے لیکن جب وہ دکھاوے کی عیادت کے لیے گئے تو اس نے کہا، میں نے تم سب کو پہچانا ہے اورمعاف بھی کردیا ہے لیکن استدعاکرتا ہوں کہ راہ راست پر آجاؤ، حرام کی مت کماؤ ،حلال میں برکت ہوتی ہے ۔

وہ متعجب ہوکر بولے، جب تم نے ہمیں پہچان لیا تھا تو پولیس کے سامنے ہمارا نام کیوں نہیں لیا۔ جواب میں اس نے کہا ، پولیس والے تمہیں لے جاتے تو پیچھے تمہارے بچے پریشان ہوجاتے ، بھوک کاشکار بھی ہوجاتے، اس لیے ۔وہ لوگ اتنے ممنون اورمتاثر ہوگئے کہ انھوں نے بھی ایمانداری سے کام شروع کر دیا۔ وہ لڑکے جو اس کے اوزار لے گئے تھے، برے نہیں تھے، صرف بگڑے بچے تھے اوران ہی لوگوں کے تھے، انھوں نے بھی ایک دن چپکے سے اوزار اس کی چھونپڑی میں رکھ دیے ۔

اسپتال سے فارغ ہوکر اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا، لوگوں کو اس بات پر حیرانی تھی کہ وہ پیسے کما کر لے جاتا کہاں ہے؟ اپنے اوپر تو ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا، پھر لوگوں کو آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ وہ چپکے چپکے سے گاؤں کے غریبوں ، بیواؤں ، یتیموں اورمعذوروں پر اپنی کمائی خرچ کرتا ہے ۔ایک اورکام وہ یہ بھی کرتا تھا کہ گاؤں میں جہاں جہاں وہ راستے خراب دیکھتا، اسے ٹھیک کردیتا تھا، کوڑا کرکٹ بھی صاف کرتا تھا، کسی کے ہاں میت ہوتی، قبرکھودنے بھی لگ جاتا ، قبرستان کی شکستہ قبریں بھی ٹھیک کرتا تھا اوراس میں درخت بھی لگاتا تھا ،تھوڑے ہی عرصے میں قبرستان سایہ دار درختوں سے بھر گیا اورتجہیز و تکفین کو آنے والے جو پہلے دھوپ میں جلتے تھے ،اب سائے میں آرام سے رہتے۔ اپنے اڈے کے قریب قبرستان میں اس نے ایک کنواں بھی کھدوایا ، لوگ اب وہاں آسانی سے وضو بھی کرتے اورپانی بھی پیتے ۔ آہستہ آہستہ خاموشی سے لوگ اس سے متاثر ہونے لگے اوراسی کی طرح بننے کی کوشش کرنے لگے۔ لڑائی جھگڑے، حرام خوری کم ہوگئی۔ لوگ جو پہلے ایک دوسرے سے لڑتے تھے، حسد کرتے تھے، نفرت کرتے تھے، آپس میں شیر وشکر ہوگئے حالانکہ وہ کسی کو کچھ کہتا نہیں تھا ، لوگ خود بخود اس کے جیسے ہوتے گئے ۔ لیکن لوگوں کو اس بات سے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایک تو وہ داڑھی نہیں رکھتا تھا، دوسرے نماز بھی نہیں پڑھتا تھا اور روزے بھی نہیں رکھتا تھا ۔

آخر ایک دن کچھ لوگ اس کے پاس گئے اورکہا کہ تم اتنے اچھے ہو،کبھی کوئی برا کام نہیں کرتے ہو، اتنا لوگوں کے کام آتے ہو، لوگوں کی مدد کرتے ہو یعنی ہرلحاظ سے اچھے ہو تو داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اورروزے کیوں نہیں رکھتے؟ تھوڑی دیر تک وہ چپ رہا، سکون سے سب کچھ سن رہا تھا، پھر آہستہ آہستہ بولنے لگا ۔داڑھی میں اس لیے نہیں رکھتا کہ یہ میرے محبوب نبیﷺ کی پیاری سنت ہے اوراگر میں اسے اپنے اورگناہگارچہرے پر رکھ لوں اورپھر بھی گناہ کروں گا تو یہ میرے نبیﷺ کی اوران کی اس پاک محترم اور بابرکت سنت کی توہین ہوگی، تضحیک ہوگی، بے حرمتی ہوگی، لہٰذا کوشش کرتا ہوں خود کو اوراپنے چہرے کو اس کے لائق بناؤں اوراگر بن سکا تو پھر محبت، احترام اورفخر سے اپنے چہرے کی زینت بنالوں گا۔

 اور نماز؟ لوگوں نے پوچھا ۔ہاں نماز۔۔۔ ؟ میرا خیال ہے کہ یہ نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی نہیں ہوگی کہ میں نمازی بن کر بھی ناجائز منافع خوری کروں، جھوٹ بولوں، اس کے احکام کی خلاف ورزی کروں، پیٹ میں حرام رکھوں ۔ اورہاں روزے؟ روزہ بھی صرف منہ کا نہیں ہوتا ، آنکھوں، زبان ،کانوں، ہاتھوں، پیروں اورذہن ودل کابھی ہوتا ہے اورخدا کو عملی طور پر یہ ثبوت دینا ہوتا ہے کہ ’’تمہارے حکم ‘‘پر میں جائزحلال چیزیں بھی استعمال کرنا بند کرسکتا ہوں تو ناجائز، ناروا اورحرام چیزیں کیوں نہیں چھوڑوںگا۔

میں ان محترم چیزوں کامنکر نہیں اورجب بھی خود کو ان کے قابل بناسکا، شروع کردوں گا ۔جب تک میں خود کو سدھار نہیں لیتا، دوسروں کو سدھرنے کے لیے کسے کہہ سکتا ہوں۔

 کیا وہ واقعی پاگل تھا؟

متعلقہ مضامین

  • ہم نے پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، ہمیں کوئی شکایت نہیں، افغان قونصل جنرل
  • پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل
  • میری زندگی میں 9 مئی کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، شیخ رشید
  • ٹرمپ انتطامیہ نے اسرائیل کیلئے بھاری مقدار میں‌جنگی ہتھیاراور بم ارسال کردیئے
  • افغانستان میں امریکی ہتھیار، پاکستان کے استحکام کے لئے خطرہ۔۔۔!امریکی اخبار کے خوفناک انکشافات
  • بارود کا ڈھیر
  • کیا وہ واقعی پاگل تھا؟
  • فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر، بارود سے آواز نہیں دبائی جا سکتی، اعظم نذیر تارڑ
  • بارود سے فلسطینیوں کی آواز دبائی نہیں جاسکتی : وفاقی وزیرقانون
  • آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ