کانگو: حکومت اور باغیوں کی لڑائی سے صحت کے بحران کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جمہوریہ کانگو میں حالیہ دنوں باغیوں کے حملوں سے پیدا ہونے والی ابتری کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر صحت کا بحران جنم لے سکتا ہے۔
ملک میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر بوریما ہاما سامبو نے کہا ہے کہ ملک کے مشرقی حصے میں ایم 23 باغیوں اور سرکاری فوج کے مابین لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں سلامتی کی صورتحال مخدوش ہے۔
ان حالات میں ادارے کے لیے ہسپتالوں کو مدد دینا ممکن نہیں رہا۔ راستے بند ہونے کے باعث ایمبولینس گاڑیوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے۔ Tweet URLانہوں نے بتایا ہے کہ صوبہ شمالی کیوو کا دارالحکومت گوما لڑائی کا مرکز ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک و زخمی ہوئے ہیں جبکہ رسائی اور تحفظ کے مسائل کی وجہ سے زخمیوں کو علاج معالجے کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
(جاری ہے)
ناقابل بیان تکالیفڈاکٹر سامبو نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ گوما شہر کی 20 لاکھ آبادی کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ علاقے میں پانی اور بجلی کی فراہمی بند ہے۔ انٹرنیٹ رابطے منقطع ہو گئے ہیں اور صرف موبائل فون نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔ شہر کے بیشتر حصے پر باغیوں کا قبضہ ہے جبکہ نقل و حرکت میں رکاوٹوں کے باعث لوگ محفوظ مقامات پر بھی نہیں جا سکتے۔
جمہوریہ کانگو کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن (مونوسکو) میں سلامتی اور کارروائیوں سے متعلق نائب خصوصی نمائندہ ویوین وان ڈی پیری نے گزشتہ روز سلامتی کونسل کو آگاہ کیا تھا کہ روانڈا کی پشت پناہی میں سرگرم ایم 23 باغیوں اور کانگو کی مسلح افواج کے مابین لڑائی کو روکنے کے لیے فوری طور پر اور مربوط بین الاقوامی اقدام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس لڑائی میں پھنسے لوگوں کو ناقابل بیان تکالیف کا سامنا ہے جو برقرار رہیں تو بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
نقل مکانی اور خوفڈاکٹر سامبو کا کہنا ہے کہ باغیوں کے گوما شہر تک آنے سے پہلے ہی اس علاقے میں تقریباً سات لاکھ لوگ بے گھر تھے۔ لڑائی قریب پہنچنے کی اطلاع ملنے کے بعد مزید ہزاروں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے جو شہر کے گردونواح میں قائم کیمپوں میں مقیم ہیں جہاں گنجائش سے زیادہ آبادی کے باعث بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔
روانڈا کی سرحد کے قریب صوبہ شمالی و جنوبی کیوو میں لوگوں کو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا تھا جن میں حالیہ لڑائی کے باعث مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
قیمتی معدنیات سے مالا مال اس علاقے میں درجنوں مسلح گروہ کئی دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ایم پاکس کا خطرہ برقرارملک میں بڑے پیمانے پر متواتر نقل مکانی کے باعث کئی طرح کے طبی خطرات نے جنم لیا ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں متعدد بیماریاں پھیلی ہیں۔ گزشتہ سال 22 ہزار سے زیادہ لوگ ہیضے کا شکار ہوئے تھے جن میں 60 افراد کی موت واقع ہو گئی جبکہ خسرے کے 12 ہزار مریض سامنے آئے جن میں سے 115 جانبر نہ ہو سکے۔
علاوہ ازیں، دونوں صوبوں کو ملیریا اور بچوں میں شدید غذائی قلت جیسے طبی بحرانوں کا سامنا بھی رہا ہے۔گزشتہ سال 'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے ملک میں پھیلی ایم پاکس کی وبا کو صحت عامہ کے حوالے سے عالمگیر تشویش کا حامل خطرہ قرار دیا تھا۔
ڈاکٹر سامبو نے کہا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' اور اس کے ملکی شراکت داروں کی جانب سے اس وبا کے خلاف موثر اقدامات کے باجود کم از کم ایک پناہ گزین کیمپ سے متاثرہ افراد نے نقل مکانی کی ہے جس کے باعث اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کا خطرہ برقرار ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نقل مکانی کا سامنا کے باعث
پڑھیں:
غلط معلومات کا پھیلاؤ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے، وزیر خارجہ
اسلام آباد:وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ غلط معلومات کا پھیلاؤ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
تیسری اقوام متحدہ امن مشن 2 روزہ وزارتی کانفرنس وفاقی دارالحکومت میں پاکستان اور جمہوریہ کوریا کی شراکت داری سے منعقد ہوئی، جس میں پاکستان اور مختلف ممالک کے اعلیٰ فوجی حکام ، حکومتی عہدیداران اور اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔
کانفرنس میں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز اور انڈر سیکرٹری جنرل برائے آپریشنل سپورٹ بھی شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں اجلاس میں 157 ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی برائے امن کے ارکان نے بھی شرکت کی ۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے لیے وزارتی تیاری کانفرنس کا انعقاد نہایت اہم ہے۔ پائیدار عالمی امن کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان امن کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی امن کے لیے مجموعی طورپر 2 لاکھ 35 ہزار پاکستانیوں نے کردار ادا کیا ہے۔ 181 پاکستانیوں نے عالمی امن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی امن کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔عالمی امن واستحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پرعملدرآمد کروائے۔ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی حمایت جاری رہے گی۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے امن دستوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ غلط معلومات کا پھیلاؤ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کے لیے پُرعزم ہے۔