فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت کے روبرو دلائل پیش کررہے ہیں۔

گزشتہ روز خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔ اس حوالے سے ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا

آج سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔

’کل ججز کا نہیں، افراد کا ذکر کیا تھا‘

انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، میں نے یہ بات عام تاثر میں کی، میں نے یہ کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا کہ فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔

خواجہ حارث نے نے دلائل دیے کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی بینچ انٹراکورٹ اپیل جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتیں ملٹری کورٹس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انٹراکورٹ اپیل جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل خواجہ حارث سپریم کورٹ سویلینز کے ٹرائل ملٹری کورٹس جسٹس جمال مندوخیل خواجہ حارث کے تحت

پڑھیں:

9 مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں، جسٹس حسن اظہر

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا تمام ریکارڈ پبلک کرنا ممکن نہیں؟ 9 مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں۔

سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیے۔

خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ جج حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ عدالت کا دائرہ اختیار نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے، اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اعتراف جرم کرلے تو اسلامی قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اعتراف جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے، جس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ مجسٹریٹ کا معاملہ الگ ہے۔

جسٹس حسن اظہر استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو کیا اسے سرکاری خرچے پر وکیل دیا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو پسندیدہ بچہ سمجھا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کےخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے میں سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصوروار ہے یا نہیں، جب اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر ہوتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے جس میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے اور شواہد سمیت طریقہ کار درج ہوتا ہے۔

جسٹس نعیم اختر نے مزید کہا کہ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں، جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا میڈیا اور ملزم کے اہل خانہ کو رسائی ہوتی ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں اہل خانہ اور میڈیا کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے باعث رسائی نہیں دی جاتی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ٹرائل کنڈکٹ کرنے والے کا تجربہ ہوتا ہے یا پہلی بار ہی بٹھا دیا جاتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 1992 میں مجسٹریٹ کے سامنے کوئی کیس جاتا تھا تو وہ اس بنیاد پر بھی سزا دے دیتے تھے کہ قتل تو ہوا ہے، سیشن جج 20 سال کی محنت کے بعد سیشن جج بنتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کا عام شہریوں پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمیں ایک بے لگام معاشرے کا سامنا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ دفاعی افسر کا کوئی تجربہ ہوتا ہے یا نہیں؟ ججز ایڈووکیٹ عدالت میں موجود ہوتا ہے، کورٹ مارشل بھی کر سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا جس طرح ہم ججز بیٹھے ہوتے ہیں، کیا اسی طرح سٹنگ ہوتی ہے؟

وکیل لطیف کھوسہ نے اپنی نشست سے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ججز ایڈووکیٹ جج کے ساتھ بیٹھتا ہے، خواجہ حارث نے بھی کہا کہ جی جی ججز کے ساتھ ہی بیٹھتا ہے، لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا ہم نے بھگتا ہوا ہے، ہمیں پتا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا جب ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو کیا کوئی سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے؟

دوران سماعت لطیف کھوسہ کے بار بار سیٹ سے کھڑے ہونے پر جسٹس امین الدین نے لطیف کھوسہ کو ٹوک دیا اور ریمارکس دیے کہ کھوسہ صاحب یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ اپنی باری پر بات کیجیے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آج کل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہو چکا ہے کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز کہتے ہیں غلط ہے، کیا ان کیسز کی کوئی دستاویز دی جاتی ہے؟

عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کیا اور وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ کے سامنے پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو مہیہ کی گئیں۔

خواجہ حارث نے موقف اپنایا عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے، ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اس اپیل میں ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے، آئینی بینچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کردیا تاہم جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے ریکارڈ واپس نہیں کیا گیا۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا اگر ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سارے کسیز ان کو بھجوا دیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بنیادی انسانی حقوق کا فوجی ٹرائل میں کیا معیار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا عوامی سماعت ہوتی ہے، پبلک کو سماعت سننےکا مکمل موقع دیا جاتا ہے، آزادنہ اور غیر جانبدرانہ ٹرائل ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں، ملٹری کورٹس آزاد ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمار کس دیے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے، ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے، خواجہ حارث نے موقف اپنایا اگر کسی کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جانب سے دیئے گئے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا، تفصیل میں نہیں گیا، 9 مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، 9 مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا تمام ریکارڈ پبلک کرنا ممکن نہیں؟ 9 مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 176 کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے؟ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ایسا ہوا تو ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ہے، کئی ممالک میں ملٹری کورٹس ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں کوئی ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے، کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتا ہے؟

خواجہ حارث نے موقف اپنایا تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175 سے الگ رکھا گیا ہے، آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی، وکیل سکندر بشیر مہمند اور شمائل بٹ نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کل بار ایسوسی ایشنز کے وکلا کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی۔

متعلقہ مضامین

  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: جسٹس جمال مندوخیل کی اپنے گزشتہ روز کے ریمارکس پر وضاحت
  • سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس، جسٹس جمال کی گزشتہ روز کی آبزرویشن پر وضاحت
  • وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹڑائل کیس کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا
  • 9 مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں، جسٹس حسن اظہر
  • نارکوٹکس میں ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے،کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتاہے،جسٹس جمال مندوخیل 
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: عدالت نے 9 مئی مقدمات سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں مانگ لیں
  • ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل کا خواجہ حارث سے استفسار
  • سپریم کورٹ: ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آج کی سماعت کا دلچسپ احوال