Nai Baat:
2025-04-13@19:32:46 GMT

غزہ سے عین جالوت سے لد تک

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

غزہ سے عین جالوت سے لد تک

امریکہ کے نومنتحب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب یہ کہہ رہے تھے کہ ’’یہ ہماری نہیں حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے‘‘۔ درحقیقت وہ دنیا اور خاص کر امریکی قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امریکی قوم کے ٹیکس سے خریدا گیا مہلک اسلحہ و ہزاروں ٹن بارود ، امریکی حکومت کی منظوری سے اگر اسرائیل کو نہ دیا جاتا۔ دنیا کو یقین دلاتا ہوں کہ تین ماہ کے اندر اندر اسرائیل کا وجود ختم ہوجاتا۔ دنیا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نہیں ۔ بلکہ یہ امریکہ اور نہتے و محصورفلسطینی مسلمانوں کی جنگ ہے ۔ یہ شیرخوار بچوں اور اعلیٰ تربیت یافتہ مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس صلیبی و دجالی فورسز کے درمیان حق وباطل کے معرکے ہیں۔ جس کے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ میں آج تک اسرائیلی دہشت گردیوں کے خلاف جتنی بھی قراردادیں پیش کی گئیں۔ ان سب کو امریکی حکومتوں نے مخالفت کیا۔ ٹرمپ کس منہ سے کہہ رہا ہے؟ کہ یہ امریکہ کی جنگ نہیں۔ جو دجالی ریاست’’اسرائیل‘‘ کو 270 ارب ڈالرسے زائدکی فوجی و اقتصادی امداد دے چکا ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے فوری بعد دجالی ریاست کو بچانے کے لیے بحیرہ روم میں نہ صرف 2 طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھیجے بلکہ اس دوران بموں و میزائلوں سمیت گولہ بارود کی بڑی کھیپ بھی بھیجی۔ یہ سپلائی آج بھی جاری ہے ۔ٹرمپ گلوبل ویلج کو مزید دھوکا نہیں دے سکتا۔
WASP کے تنخواہ دار امریکی صدر ہیری ٹرومین پہلے عالمی لیڈر تھے ، جنہوں نے اسرائیل کو اس کے ناجائز قیام کے صرف گیارہ منٹ بعد 14 مئی 1948 کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا ۔ 1973 عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک ایسا وقت آیا جب اسرائیل کا کینسر ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا تھا۔اس موقع پر امریکی صدر رچرڈ نکسن نے مصری صدر انور ساداست کو دھمکاتے ہوئے کہا تھاکہ تم یقینا ایسا کر سکتے ہو ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ اس کے بعد امریکہ مصر پر حملہ آور ہو گا ۔ تب انور سادات نے کہا کہ’’ ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں لیکن امریکہ سے نہیں‘‘ ۔ 2014 کی اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران 2 ہزار امریکیوں نے براہ راست جنگ میں حصہ لیا۔ بین الاقوامی سطح پر متنازعہ علاقے یروشلم کو سب سے پہلے اسرائیلی دارالحکومت کا اعلان کرنے والا امریکی صدر ٹرمپ تھا ۔ ٹرمپ آخر کب تک دنیا اور خاص کر اپنی قوم کو دھوکا دیتا رہے گا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ۔ جنگ بندی معاہدے کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جنگوں سے نفرت کا لبادہ اوڑھنے والے کٹر یہود نواز ٹرمپ نے فوری طور پر دجالی ریاست کو 200 پونڈ مہلک ترین بم فراہمی کا آرڈر کر دیا ۔ ساتھ ہی امریکہ نے 20 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اردن و مصر سمیت دوسرے ملکوں میں بسانے کا عندیہ بھی دے دیا ۔ اگر یہ امریکہ کی جنگ نہیں تو پھر یہ کس کی جنگ ہے ؟۔
اس جنگ کے دوران غزہ کے بھوک وپیاس سے بلکتے معصوم بچوں کو اگر خوراک، پانی، اور میڈیسن نہیں پہنچ سکی۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کی خاموش رضامندی سے ہوا۔ اگر امریکہ ایک دھمکی پر اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر سکتا ہے تو انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے( امریکہ) کے لیے زخموں سے چور چور ایڑیاں رگڑتے ہوئے مسلم بچوں کے لیے خوراک و میڈیسن پہنچانا کونسا مشکل تھا ۔ درحقیقت امریکہ خود یہ نہیں چاہتا تھا۔
77 سالوں سے فلسطینی و کشمیری جو سٹرٹیجک غلطی کا ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں اب ان کے ازالے کا وقت آ گیا ہے ۔ فلسطینی وکشمیری مسلمانوں کو اچھی طرح ان تلخ زمینی حقائق کا ادراک کر لینا چاہیے کہ ان کے مدقابل بھارت یا اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ وبرطانیہ ہیں۔’’ Radical Islam انتہا پسند اسلام ‘‘ کے نعرے کی آڑ میں دین اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ برطانیہ’’ٹونی بلیئر‘‘ و امریکہ ’’ ٹرمپ ‘‘ ہی تھے۔ اسرائیل، فلسطین وعرب جنگوں کے دوران امریکہ کا کردار ایک نظریاتی، فکری، فزیکلی ایسے عسکری اتحادی کارہا ہے، جس کی جان دجالی مٹھی میں ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہ یہ ہماری نہیں اسرائیل کی جنگ ہے۔
نہتے غزہ پر آتش وآہن کی آگ برسانے والوں کو تاریخ کا ایک عبرتناک انجام ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’ غزہ سے عین جالوت سے لد‘‘ زیادہ دور نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دنیائے اسلام کی عسکری، حریت پسند، دینی و مذہبی اور سیاسی قیادتوں کو WASP ڈاکٹرائن کی Strategic Depth کے تمام پہلوئوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنا ہو گا۔ کہ جب دجالی ریاست کسی بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرنا چاہتی ہے یا کرتی ہے کسی بھی شکل میں ۔ تب دنیا کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے امریکہ پوری قوت سے اس کی پشت پر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح شیطانی ریاست جب کوئی ورلڈ آرڈر یا نظریہ ’’ کسی بھی لبادے میں فتنہ ( اسلامی دنیا )میں لانچ کرنا چاہتی ہے ۔ تو وہ خود سامنے نہیں آتی ، بلکہ براہ راست امریکیs Threat کے ذریعے و خفیہ طریقے سے عمل درآمد کرواتی ہے ۔ راقم کی رائے میں دنیا کی اقتصادی امداد کی بندش تو ایک بہانہ ہے دراصل شیطانی ریاست کو تسلیم کروانا ہے ۔
پینٹا گان کی امریکی غلام عوام کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے دشمن مسلمان نہیں بلکہ ملعون یہودی ہیں ۔ تمام تر زمینی حقائق کے باوجود اگر امریکی غلام عوام کو سمجھ نہ آئے ۔ تو اسلامی عسکری تاریخ کے مطالعہ سے سبق حاصل کر سکتی ہے۔ غزوہ بدر سے پہلے یہودیوں کی جانب سے رچائی جانے والیاں فتنہ انگیزیوں اور کارستانیوں کا مطالعہ کر لیں ۔ کہ کس طرح انہوں نے مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلایا ، ان کے دلوں و سوچوں میں نفرت پیدا کی ۔ پھر مالی سپورٹ کر کے جنگ کے لیے اکسایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جزیرۃ العرب میں نہ تو یہودی رہے اور نہ ہی مشرکین ۔ لامحالہ آج یہی کھیل ایک دفعہ پھر ملعون یہودی معزز کرسچن والدین کے بیٹوں کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔ عالم اسلام کے خلاف خفیہ ، ظاہری یا منافقانہ طور پر استعمال ہونے والوں کو تاریخ کا عبرتناک انجام ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’ غزہ سے عین جالوت سے ’’لد‘‘ زیادہ دور نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: دجالی ریاست کی جنگ ہے جنگ نہیں چاہیے کہ کے دوران کے خلاف کے لیے جنگ کے

پڑھیں:

فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نئے محصولات لگائے اور ان کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دعوے کیے۔ ڈی ڈبلیو نے وائرل ہونے والے دو دعوؤں کی جانچ کی ہے۔

دو اپریل کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر محصولات کے ایک نئے دور کا اعلان کیا۔

محصولات کے حساب کتاب، اس کے جواز اور اثرات سے متعلق ان کے بیانات جھوٹے دعووں سے بھرپور تھے اور انہوں نے بہت سی معیشتوں پر ایک ہی وقت میں ضرب لگانے کا اعلان کا۔ ان اعلانات کے خلاف کچھ ممالک پہلے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کر چکے ہیں۔

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

ٹرمپ کے دو دعوؤں کی حقیقت جانیے ڈی ڈبلیو کی اس فیکٹ چیک رپورٹ میں!

ٹرمپ کا دعویٰ

ایکس پر ایک پوسٹ کے ساتھ شائع ہونے والی ایک ویڈیو، جس کی اشاعت کے بعد اُس پر 1.1 ملین ویوز تھے، میں ٹرمپ کا کہنا تھا،''کینیڈا ہماری بہت سی ڈیری مصنوعات پر 250 تا 300 فیصد ٹیرف لگاتا ہے، دودھ کے پہلے ڈبے، دودھ کے پہلے چھوٹے کارٹن تک قیمت بہت کم رہتی ہے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ خراب ہوتا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کے مطابق ٹرمپ کا یہ دعویٰ فسق ہے۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

کینیڈا امریکی ڈیری مصنوعات پر محصولات امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین طے پائے جانے والے معاہدے (USMCA) کے تحت لگاتا ہے۔ اس ٹیرف کا اطلاق دودھ، مکھن، پنیر، دہی اور آئس کریم جیسی ڈیری مصنوعات کی 14 اقسام پر ہوتا ہے۔

امریکی محصولات: پاکستان میں عام آدمی پر اثرات کیا ہوں گے؟

اس معاہدے پر ہونے والے اتفاق کے مطابق امریکی ڈیری مصنوعات کی ایک مخصوص تعداد کو کینیڈا کی مارکیٹ میں ٹیرف کے بغیر داخل ہونے کی اجازت ہے۔ جب طے شدہ یہ حد تجاوز کر جائے تو ان پر محصولات میں ان اشیا کے گھریلو پروڈیوسرز کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا دیگر حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے۔

یہ اضافی کوٹہ ٹیرف 200 اور 300 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم، USMCA کے مطابق، کینیڈا نے ضمانت دی ہے کہ سالانہ دسیوں ہزار میٹرک ٹن درآمد شدہ امریکی دودھ پر صفر محصولات ہوں گے۔

ٹرمپ کا دوسرا جھوٹا دعویٰ

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر اس پوسٹ میں، ٹرمپ نے وہی چارٹ شیئر کیا تھا، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ''باہمی‘‘ عالمی ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا۔

ٹرمپ کے مطابق، چارٹ میں دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ پر لگائے جانے والے ٹیرف اور اس کے جواب میں اب امریکہ کی طرف سے ان ممالک کے خلاف محصولات عائد کرنے کی تفصیلات درج تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چارٹ پر دوسری پوزیشن پر دکھائی دینے والی یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

دو اپریل کو اپنی مذکورہ تقریر میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا،'' یہ ایک سادہ سی بات ہے، وہ جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ وہی کریں گے۔‘‘

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس چارٹ میں درج ممالک جتنی محصولات امریکہ سے وصول کرتے ہیں، امریکہ اُس کا آدھا ان سے وصل کرے گا۔ اس لہٰذا اس چارٹ کے مطابق یورپی یونین کے لیے امریکہ کی رعایتی ٹیرف 20 فیصد بنتا ہے۔

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

تاہم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق، یورپی یونین کے تجارتی حجم پر اوسط محصولات کی شرح 2.7 فیصد ہے۔

سب سے زیادہ اوسط ٹیرف کی شرح، جو یورپی یونین کچھ ممالک سے لیتی ہے، وہ ہے ڈیری مصنوعات پر 30 فیصد۔

امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کی ایک فیکٹ شیٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ باہمی محصولات کا تعین امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں کے درمیان تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں

دستاویز کے مطابق باہمی محصولات کا شمار ''امریکہ اور اس کے ہر تجارتی شراکت دار کے درمیان دوطرفہ تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے ضروری ٹیرف میں کیا جاتا ہے۔

اس حساب سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مسلسل تجارتی خسارے ٹیرف اور نان ٹیرف عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہیں، جو تجارتی توازن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ٹیرف دراصل براہ راست برآمدات میں کمی کے ذریعے ہی کام کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • امریکہ کیجانب سے یمن پر حملوں کا مقصد غزہ میں جاری نسل کشی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، انصار الله
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی
  • چین کی جوابی کاروائی امریکی مصنوعات پر125فیصدنیا ٹیرف عائدکرنے کا اعلان
  • امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟
  • ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام