لاہور سے بچھڑنے والے مکینوں نے جس وارفتگی سے اسے یاد کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی محبت خاص طور پر اس وقت عود کرآتی ہے جب ہندوستان میں ان کی لاہور کے کسی باسی سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ بے ساختہ جذبوں اور دلی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں، اپنائیت کا یہ بے پناہ احساس فکشن اور نان فکشن دونوں طرح کی تحریروں میں ملتا ہے۔
پہلے فکشن کی دنیائے بسیط میں داخل ہوتے ہیں۔ تقسیم کے بارے میں جن کہانیوں کا میرے ذہن پر گہرا اثر ہوا، ان میں موہن راکیش کی کہانی ‘ملبے کا مالک’ بھی شامل ہے، جسے میں نے کئی سال پہلے معروف ادبی جریدے ‘آج ‘میں پڑھا تھا۔ اسے سندھی کے نامور ادیب اور مترجم ولی رام ولبھ نے ہندی سے اردو میں منتقل کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ملک ریاض اور پاکستان کی ریاست و سیاست
یہ افسانہ تقسیم کے ساڑھے 7 سال بعد لاہور سے امرتسر آنے والے لوگوں کے ذکر سے شروع ہوتا ہے جو ہاکی میچ دیکھنے کے بہانے ان در و دیوار سے ملنے آئے تھے جو تقسیم کے بعد ان کے لیے یکسر پرائے ہوگئے تھے۔
مہمانوں کی نسبت امرتسریوں کے رلے ملے جذبات تھے، انہیں مشتاق نظروں سے دیکھنے والے بھی تھے اور وہ بھی جو ان سے خائف نظر آتے تھے۔
پاکستانیوں کی آمد سے جنہیں خوشی ہوئی تھی ان کے متجسس اذہان سے اس نوع کے سوالات پھوٹ رہے تھے: ‘آج کل لاہور کا کیا حال ہے؟ انارکلی میں اب پہلے جتنی رونق ہوتی ہے یا نہیں ؟ سنا ہے شاہ عالمی گیٹ کا بازار پورا نیا بنا ہے؟ کرشن نگر میں تو خاص تبدیلی نہیں آئی؟ وہاں کا رشوت پورہ کیا واقعی رشوت کے پیسوں سے بنا ہے؟ کہتے ہیں پاکستان میں اب برقع بالکل اڑ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے؟
ان سوالوں میں اتنا اپنا پن جھلکتا تھا کہ لگتا تھا لاہور ایک شہر نہیں ہزاروں لوگوں کا سگا سمبندھی ہے جس کے حالات جاننے کےلیے وہ بے چین ہیں۔ لاہور سے آئے ہوئے لوگ اس دن شہر بھر کے مہمان تھے جن سے مل کر اور باتیں کر کے لوگوں کو خوامخواہ خوشی کا احساس ہوتا تھا۔’
یہ بھی پڑھیں:شفقت محمود کا سیاسی سفر، بےنظیر بھٹو سے عمران خان تک
اس کے بعد افسانہ آگے بڑھتا ہے اور درد کا وہ قصہ بن جاتا ہے جو قاری کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔
لاہور چھوڑ کر جانے والوں کے ذہن سے انارکلی اور شاہ عالمی کی یاد اس لیے بھی نہیں جاتی کہ یہ ان کے احساسِ ملکیت کی یادگار ہیں اور شاہ عالمی سے جڑی یادوں میں تو آگ اور خون کی سرخی کا رنگ بھی شامل ہے ۔
اب ہم موہن راکیش کے افسانے سے حقیقت کی نگری میں آجاتے ہیں ۔ معروف ترقی پسند ادیب اور صحافی حمید اختر کی کتاب ‘کال کوٹھری’ اور ‘آشنائیاں کیا کیا’ میں نے جس شوق سے پڑھی ہیں اسی شوق سے ان کے کالموں کے مجموعوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ‘احوال واقعی ‘ میں شامل کالم ‘ امرتسر میں 6 گھنٹے’ میں انہوں نے اس سفر کے بارے میں لکھا ہے جس میں احمد سلیم ان کے ہم راہ تھے۔
گولڈن ٹیمپل کے دروازے سے تھوڑے فاصلے پر ایک عمررسیدہ سکھ نے ان سے ہولے سے پوچھا کہ ‘ کتھوں آئے او؟ ‘اسے جب یہ معلوم ہوا وہ لاہور سے آئے ہیں تو بے خود ہوگیا۔ کڑاہ پرشاد کا ڈونا ہجوم کے درمیان زمین پر رکھ کر وہ مہمانوں سے بغل گیر ہونے کے بعد گلوگیر لہجے میں کہنے لگا ’ اوئے میں سید مٹھا بازار دا آں’ ظالمو ! میرے نال دو اکھشر (الفاظ) تاں بول لو۔۔۔‘ حمید اختر نے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا:’یہ سردار یقیناً ان لاکھوں بھٹکتی ہوئی روحوں میں سے ایک تھا جو 1947 میں مشرقی سے مغربی اور مغربی سے مشرقی پنجاب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئیں اور اپنے آبائی گھر، محلے، علاقے اور شہر کو ایک نظر دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں اور مسلسل بھٹک رہی ہیں۔ ‘
یہ بھی پڑھیں: ’کتاب گزرے زمانوں تک لے جانے والی سرنگ ہے‘
حمید اختر کی اندرون لاہور میں واقع سید مٹھا بازار کے اس پرانے رہائشی سے ملاقات سے لاہور کے 2 اور مشہور علاقوں گوالمنڈی اور باغبانپورہ سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی انتظار حسین سے انڈیا میں ملاقات کے احوال کی طرف ذہن منتقل ہوا۔
ہندوستان کے ایک سفر میں بھساول ریلوے اسٹیشن پر انتظار صاحب کو جب معلوم ہوا کہ ٹرین میں ان کے لیے سیٹ کی گنجائش نہیں ہے تو ان کے ساتھی احمد ہمیش نے اسٹیشن ماسٹر کو اپنی ادبی حیثیت کا بتایا۔ یہ جتلایا کہ وہ حکومت ہند کے خصوصی مہمان ہیں۔ یہ بھی کہا کہ بات پریس تک پہنچی کہ پاکستان کے 2 چوٹی کے ادیب اسٹیشن پر بھٹک رہے تھے تو ان کے لیے مشکل کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن اسٹیشن ماسٹر نے احمد ہمیش کی تقریر سے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی کام آیا تو وہ لاہور تھا۔ وہ کس طرح؟ اس کے بارے میں انتظار حسین نے اپنے سفر نامے ’زمیں اور فلک اور‘ میں لکھا ہے۔
‘جب ہم پوری طرح ناامید ہو چکے تو اسٹیشن ماسٹر صاحب بولے:
’ آپ میں سے کوئی لاہور سے بھی آیا ہے۔‘
میں نے کہا: ’ یہ خاکسار لاہور سے آرہا ہے۔‘
’اچھا آپ لاہور سے آرہے ہیں، گوالمنڈی کا کیا حال ہے‘
گوالمنڈی کی خیریت پوچھی ۔ پھر ایف سی کالج کی۔ پھر کہنے لگے:’میں تلوک چند محروم کا بھتیجا ہوتا ہوں۔ ‘
میں نے کہا کہ ‘حضرت پھر آپ پکڑے گئے ۔ سیٹ نہیں ملی تو بس آپ کے گھر جاکر دھرنا دیں گے۔‘
اور پھر اس اسٹیشن ماسٹر نے کمال دکھایا۔ کسی ریلوے افسر کے خاندان کے 2 ڈبے ریزور تھے ۔ اس سے فون پر بات کی اور پتا نہیں کیا افسوں پھونکا کہ اس نے اپنا ایک ڈبہ ہمارے حوالے کردیا۔ تلوک چند محروم کو سورگ میں جگہ ملے، ان کی لاہور سے نسبت ، لاہور سے ہماری نسبت کہاں جاکر کام آئی۔‘
انتظار حسین کے بیان میں تلوک چند محروم کے بیٹے جگن ناتھ آزاد کا حوالہ بھی آجاتا تو اور لطف کی بات ہوتی جنہیں ہمارے ہاں ماہر اقبالیات کی حیثیت سے زیادہ جانا گیا۔ لیکن لاہور اور اس سے وابستہ ہستیوں کے بارے میں ان کی لکھاوٹ سے بے اعتنائی برتی گئی جس میں ان کے والدِ گرامی تلوک چند محروم کا تذکرہ بھی شامل ہے، جن کا اپنا بھی لاہور سے خوب تعلق رہا تھا۔
جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں:
‘راولپنڈی اور لاہور کے احباب کا ذکر جب بھی ان کی زبان پر آیا ایک کائناتِ درد اپنے ساتھ لایا اور یہی کائناتِ درد ان کی حقیقی کائنات تھی۔’
یہ بات تھی گوالمنڈی کی اب اس سے جڑے چیمبرلین روڈ کے ایک معروف ساکن بی آر چوپڑہ کی اس علاقے سے جذباتی وابستگی کی کہانی بھی سن لیں جو نامور شاعر اور ڈراما نویس امجد اسلام امجد نے مجھے سنائی تھی:
’بی آر چوپڑہ میرا بڑا فین تھا۔ 92 یا 93 میں انڈیا گیا تو اس سے میری ملاقات ہوئی، اس وقت وہ خاصا بوڑھا ہو چکا تھا، میں اس کے مقابلے میں تو بہت بچونگڑہ سا تھا۔ باتیں کرتے کرتے ایسے ہی لاہور کا ذکر آیا تو اس نے کہا چیمبر لین روڈ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ جی بالکل۔ اس نے 5منٹ بعد رونا شروع کردیا۔م یری سمجھ میں نہ آئے کہ اتنا بزرگ آدمی ہے اس کو میں حوصلہ دوں کیا کروں؟ وہ چیمبر لین روڈ پر رہتا تھا۔ اسے بہت سال بعد کوئی بندہ ملا جو اس جگہ کو جانتا تھا جہاں وہ تقسیم سے پہلے رہتا تھا۔’
امجد صاحب چیمبر لین روڈ کے نواح میں فلیمنگ روڈ پر طویل عرصے رہے تھے تو ان سے زیادہ اس روڈ کو کون جانتا ہو گا۔ ان کی زبانی بی آر چوپڑہ کا قصہ درد سن کر مجھے معروف براڈ کاسٹر اور لکھاری عارف وقار کے بی آر چوپڑہ کے لاہور سے تعلق کے بارے میں مضمون کا خیال آیا تھا جس میں انہوں نے پرویز راہی کے نام چوپڑہ کے خط سے منتخب ٹکڑا بھی نقل کیا تھا :
’لاہور سے آنے والا خط بہار کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ میرے بچپن اور جوانی کی یادیں ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ کاش یہ 2 بچھڑے ہوئے بھائی اچھے دوستوں کی طرح ہی زندگی گزار لیں۔‘
اس چیمبر لین روڈ پر پنجابی کی مشہور رائٹر اجیت کور کا گھر بھی تھا لیکن وہ اسے یاد کرکے بی آر چوپڑہ کی طرح آہیں بھرنے اور کسی سے اس کا تذکرہ سن کر =روتی ہی نہیں رہیں بلکہ انہوں نے اسے دیکھ کر سانس لیا اور اس کی بدلی ہوئی ہیئَت دیکھ کر افسردہ ہو کر لوٹی تھیں کہ بقول حالی
‘ نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت’
بات سے بات نکلتی ہے اس لیے باغبانپورہ کے رہائشی کی انتظار حسین سے ملاقات کی بات رہ جاتی ہے ۔ انتظار حسین کے افسانوں کے پہلے مجموعے ‘گلی کوچے’ میں ہندوستان کا رپورتاژ ‘سانجھ بھئی چوندیس’ بھی شامل ہے۔ اس میں ٹرین میں ایک شرنارتھی سے انتظار صاحب کی ملاقات کا ذکر ہے جس کے علم میں جب یہ آیا کہ وہ لاہور میں میاں افتخار الدین کے اخبار ’امروز‘ میں کام کرتے ہیں تو وہ کہنے لگا:
‘میاں افتخار الدین ۔ ارے وہ تو میرا یار ہوا نا۔ وہ بھی باغبانپورے کا رہنے والا , میں بھی باغبانپورے کا رہنے والا۔ یاد رہے تو اس سے میرا سلام کہہ دیجیو۔’
باغبانپورہ کا ذکر انتظار حسین کے ناول ‘بستی’ میں بھی ہے جب ذاکر نے کرفیو لگنے سے پہلے ایک رکشے والے کی منزل پر پہنچانے کے لیے منت کی تو اس نے کہا:
‘باؤ باغبانپورے چلنا ہوتو چل ‘
‘باغبانپورے کس خوشی میں؟’
‘ ایس خوشی میں کہ مینوں گھر پہنچنا ہے اور بھونپو بجنے والا ہے۔’
صاحبو! لاہور سے محبت کی کوئی کہانی کرشن چندر کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس عاشقِ صادق کی وجہ سے ہی ممتاز ادیب اور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا تھا۔
‘جیسے عاشق لاہور کو نصیب ہوئے( اور میں تو کہتا ہوں کہ اب بھی ہیں) ویسے کم از کم ادب کے میدان میں دلی کو بھی نصیب نہ ہوئے۔ کچھ تو بات یہاں ہو گی جو ‘ کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست’ والا رمز رکھتی ہو گی؟’
اس لیے ہم لاہور کے عشاق کی یہ کتھا کرشن چندر کے تذکرے پر ختم کرتے ہیں جن کی لاہور سے آنے والے کسی اپنے سے مل کر حالت ‘غیر’ ہو جاتی تھی۔ اس سے چھوٹتے ہی لاہور کے بارے میں پے درپے سوال پوچھتے۔ ان کے اس عمل کی ایک مثال ‘نقوش’ کے ایڈیٹر محمد طفیل کی کتاب ‘آپ’ سے ملتی ہے جن سے کرشن چندر نے ملاقات ہونے پر پوچھا تھا: ‘میرے لاہور کا کیا حال ہے؟’
اس کے بعد محمد طفیل کو ان سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا: ‘کیا اب بھی شام کو ویسی ہی انارکلی میں رونق ہوتی ہے؟ کیا اب بھی شام کو ویسے ہی جوڑے بن سنور کے نکلتے ہیں؟ کیا اب بھی ویسے ہی چائے خانوں میں ادبی موضوعات پر باتیں ہوتی ہیں ؟ کیا اب بھی ویسے ہی…’ محمد طفیل کے بقول: ‘میں کرشن چندر کے تابڑ توڑ سوالوں سے گھبرا گیا۔ وہ بے حد جذباتی ہورہے تھے۔ مجھے نظر آرہا تھا کہ وہ ابھی رونا شروع کر دیں گے،اس لیے میں نے باتوں کا رخ بدلنا چاہا۔’
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود الحسنگزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
we news انتظار حسین انڈیا پاکستان پنجاب تقسیم لاہور محمود الحسن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈیا پاکستان لاہور محمود الحسن اسٹیشن ماسٹر کے بارے میں کیا اب بھی لاہور سے ا لاہور کے شامل ہے رہے تھے نے والا کے بعد نے کہا اس لیے میں تو کے لیے یہ بھی کا ذکر
پڑھیں:
لاہور کی تاریخی موتی مسجد میں آج بھی جنات کا بسیرا
لاہور:شاہی قلعہ لاہور کی تاریخی موتی مسجد مغل دور کے فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار ہے، جو اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے علاوہ پراسرار کہانیوں کے باعث بھی مشہور ہے۔
عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ یہاں نیک جنات کا بسیرا ہے، جو مسجد کی حفاظت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ملک بھر سے زائرین یہاں نوافل اور وظائف کے لیے آتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نیک جنات کے وسیلے سے کی گئی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔
موتی مسجد میں جنات کی موجودگی کے دعوے
شاہی قلعہ میں تقریباً 27 برس سے کام کرنے والے فوٹوگرافر محمد یاسین کے مطابق، موتی مسجد میں جنات کے پہرہ دینے کی کہانیاں مہا راجا رنجیت سنگھ کے دور سے چلی آ رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہا راجا کے دور میں ایک گورنر یا اس کے عملے نے مسجد کی بے حرمتی کی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے جنات نے یہاں پہرہ دینا شروع کیا۔
محمد یاسین کہتے ہیں کہ ’’رمضان کے دوران ہم نے با رہا محسوس کیا کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن جب سلام پھیرتے ہیں تو مسجد میں صرف چند لوگ ہی موجود ہوتے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق، موتی مسجد میں ایک نیک بزرگ بھی موجود ہیں، جن کا قد غیر معمولی طور پر طویل ہے۔ وہ کئی بار ان بزرگ کو دیکھ چکے ہیں اور ان کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
زائرین کے عقائد اور دعاؤں کی قبولیت
موتی مسجد میں زائرین، خاص طور پر خواتین، اپنی حاجات لے کر آتی ہیں۔ لاہور کی رہائشی فرزانہ احمد نے اپنی پوتی کے ساتھ مسجد میں نوافل ادا کیے اور دعا کی کہ ان کی پوتی کو ایک نیک رشتہ مل جائے اور وہ اپنی تعلیم میں کامیاب ہو جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیک جنات کے وسیلے سے ان کی دعا جلد قبول ہوگی۔
تاریخی پس منظر
موتی مسجد کی بنیاد 1599ء میں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں رکھی گئی اور اس کی ابتدائی تعمیر کو بادشاہ جہانگیر کے عہد میں وسعت دی گئی۔ بعد ازاں، شاہجہان نے اس مسجد کو سفید سنگِ مرمر سے آراستہ کیا، جس کے باعث اسے ’’موتی مسجد‘‘ کا نام دیا گیا۔
مسجد مغلیہ دور کے بعد سکھوں کے قبضے میں آگئی اور مہا راجا رنجیت سنگھ نے اسے توشہ خانہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس دوران مسجد کے محرابوں میں لوہے کے دروازے نصب کیے گئے اور اس کے نیچے ایک چیمبر بنایا گیا، جہاں قیمتی جواہرات اور ریاستی خزانے کو محفوظ رکھا گیا۔ تاہم، مہا راجا کی وفات کے بعد سکھوں کے آپسی اختلافات کے دوران یہ خزانہ نکال لیا گیا۔
حالیہ بحالی کے کام
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ طلحہٰ سعید نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں مسجد کی بحالی کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ بحالی کے دوران دیواروں سے وہ تحریریں مٹائی گئیں جو زائرین نے اپنی حاجات اور محبتوں کے قصے لکھ کر چھوڑی تھیں۔
فن تعمیر کا شاہکار
موتی مسجد مغلیہ دور کے فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے۔ سفید سنگِ مرمر سے بنی اس مسجد کی دیواریں، محرابیں اور گنبد اپنی خوبصورتی اور نزاکت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مسجد اپنی منفرد تعمیراتی ڈیزائن کے باعث دنیا کے تاریخی ورثے میں شامل ہے۔
یہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی
یہ واحد مسجد ہے جہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی لیکن زائرین انفرادی طور پر نوافل ادا کرتے ہیں۔ رمضان اور دیگر مقدس مواقع پر یہاں زائرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ زائرین کا کہنا ہے کہ مسجد کا روحانی ماحول اور پراسرار سکون ان کی دعاؤں کو مزید اثرانگیز بنا دیتا ہے۔
عوامی شعور کی اپیل
یہ 400 سال پرانی مسجد نہ صرف لاہور بلکہ دنیا کے تاریخی ورثے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس تاریخی اور مذہبی مقام کو محفوظ رکھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسجد کے تقدس اور تاریخی ورثے کا خیال رکھیں اور اس کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔
موتی مسجد تاریخ، مذہب، اور پراسرار کہانیوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ مسجد نہ صرف ایک روحانی مرکز ہے بلکہ لاہور کے شاندار ماضی کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔ زائرین اور تاریخ کے شائقین کے لیے یہ مقام ہمیشہ ایک کشش کا باعث رہے گا۔