افغانستان پر طاغوتی قوتوں کے حملے تشویشناک ہیں،شجاع الدین
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے کہا ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کی کوششوں پر طاغوتی قوتوں کے حملے انتہائی تشویشناک ہیں۔ یہ بات انہوں نے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کی حکومت نے گزشتہ تقریبا ساڑھے 3 سال کے دوران افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں نہ صرف بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے بلکہ جن اُمور میں بہتری کی گنجائش تھی ان پر بھی بھرپور توجہ دی ہے جو طاغوتی قوتوں اور عالمی استعماری اداروں کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں، عالمی فوجداری عدالت (ICC)، جس کی حیثیت امریکا کی کنیز سے بڑھ کر نہیں، اس کے پراسیکیوٹر کریم خان (قادیانی) نے افغان طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی پر افغان لڑکیوں، خواتین اور LGBTQ پر مظالم کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل ICC نے غزہ کے مسلمانوں پر ساڑھے 13 ماہ کی مسلسل اسرائیلی بمباری کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف محض دو معمولی واقعات کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، جنہیں اسرائیلی اعلی عہدے داروں اور امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک نے ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ICC کا حالیہ قدم چند روز قبل اسلام آباد میں منعقد ہونے والی لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس کا تسلسل دکھائی دیتا ہے، جس میں ملالہ یوسف زئی نے اپنی تقریر میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان، اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کی تعلیم کا انتظام کرنے پر پیش رفت کر رہی ہے، پھر یہ کہ حال ہی میں افغانستان نے اس شرط پر کہ خواتین کے محارم کو بھی ویزا دیا جائے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 5000 خواتین کو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ امیرِ تنظیم نے کہا کہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکا اب تک افغانستان کے 9.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54 عسکریت پسند ہلاک کر دیے، پاکستانی فوج
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2025ء) پاکستانی فوجکے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے کم از کم 54 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔
خیبر پختونخوا میں تشدد میں اضافہ کیوں؟
پاکستانی طالبان کا فوجی چیک پوسٹ پر حملہ، سولہ فوجی ہلاک
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں کا یہ گروپ خاص طور پر اپنے 'غیر ملکی آقاؤں‘ کے اشارے پر پاکستان کے اندر ہائی پروفائل دہشت گردی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا کہ عسکریت پسندوں کی یہ کوشش پاکستان کے روایتی حریف بھارت کی پشت پناہی سے کی گئی تاکہ دہشت گردوں کو فوج کے حملے سے سانس لینے کا موقع مل سکے۔
(جاری ہے)
اس سے ایک روز قبل ہفتے کے روز اسی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک آپریشن کے دوران کم از کم دو پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے، جو ماضی میں القاعدہ اورافغان طالبانسے منسلک اسلامی عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں کابل پر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستانی طالبان کی جانب سے پاکستان میں تشدد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، نے حالیہ مہینوں میں ملک کی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
اسلام آباد کابل پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے مبینہ طور پر سرحد پار مہلک حملوں میں ملوث اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ تاہم افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ