Jasarat News:
2025-01-30@17:55:11 GMT

کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟؟

باادب باملاحظہ ہوشیار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر مملکت کو ان کے دور خلافت (صدارت) میں عدالتی استثنیٰ حاصل ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی توشہ خانہ ریفرنس اور ٹھٹھہ واٹر ریفرنس کی کارروائی بھی اسی لیے موخر کر دی گئی یہ استثنیٰ صدر کے علاوہ اور بھی بہت سے معززین کو حاصل ہے 73 کا متفقہ آئین (جو 26 ویں ترمیم کے بعد غیر متفقہ بن چکا ہے) اسلامی دفعات سے لبریز ہے جنہیں جان کر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے یا یہ اسلامی ملک کا آئین ہے اگر ان دفعات پر مکمل عمل درآمد کر لیا جاتا تو یہ یقینا اسلامی جمہوری ملک ہوتا مگر ہوا کچھ یوں کہ جمہوریت کے ساتھ ہی اسلام بھی اسلام آباد منتقل ہو گیا اور پھر جمہوریت پسند جماعتوں نے جمہوریت کا بھی بیڑا غرق کر دیا جب یہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو ریاست کو خطرہ ہوتا ہے اور جب یہ مخالفت میں جاتی ہیں تو جمہوریت ہی خطرے میں چلی جاتی ہے اور اسی ٹکراؤ میں اسلامی نظام کی بنیاد بھی نہیں رکھی جا سکی گرچہ آئین کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور ملک میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی مگر صورت حال یہ ہے کہ ہم برس ہا برس سے حالت جنگ میں ہیں اور جنگ بندی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اعلان جنگ ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ۔

آئین کہتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے مسلمان تو ہیں مگر چال ڈھال رہن سہن لباس سے مسلمان نہیں لگتے ابھی حال ہی میں صدر صاحب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو وہ سوٹ بوٹ میں ملبوس تھے اور حلف لینے والے چیف جسٹس تو ہوتے ہی ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ قرآن اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور علماء کرام پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل قائم کی جائے گی جو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے کسی بل پر مشورہ دے گی کہ وہ اسلامی اصولوں کو مطابق ہے یا نہیں صرف مشورہ دے گی وہ بھی اگر ان سے مانگا گیا تو اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جب ایک ہندو رکن قومی اسمبلی نے شراب پر پابندی کابل قومی اسمبلی میں پیش کیا تو ا سے مسلمان ارکان اسمبلی نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا کہ پینا حرام ہے پلانا حرام نہیں۔ یہ احوال تھا ارکان قومی اسمبلی کا جن کو عوام نے منتخب کیا اور اب ذکر کرتے ہیں ایسے ارکان کا جن کو عوام پر مسلط کیا گیا ان کو اراکین سینیٹ کہا جاتاہے۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں 2019 تا 2023 کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 5398 واقعات رونماء ہوئے ہیں جن میں پڑھے لکھے پنجاب میں 3323 یعنی 60 فی صد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ (جن کی رپورٹ نہیں ان کی کوئی گنتی نہیں) جبکہ شہر اقتدار پنجاب لاہور میں 1176 واقعات کا اندراج کرایا گیا ہے۔ سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے ممتاز اور محترم رکن مشتاق احمد خان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی سے لوگ عبرت پکڑیں گے اگر وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں میں صرف ایک ایک شخص کو سرعام پھانسی دے دی جائے تو چھٹی پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان جناب اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ سر عام پھانسی کا بل کسی طرح سے بھی مناسب نہیں سرعام پھانسی نہیں ہونی چاہیے بل کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی ارب پتی بلکہ کھرب پتی سینیٹر (ان کے گھر سے 97 ارب روپے کیش برآمد ہوئے تھے) محترمہ شازیہ مری نے ایک نئی منطق پیش کی کہ سرعام پھانسی سے درندگی اور تشدد کی سوچ میں اضافہ ہو گا اس سے جرم رکے گا نہیں بلکہ معاشرے میں دیگر اثرات مرتب ہوں گے اس کے برخلاف سینیٹر ہمایوں مومن نے کہا کہ جو شخص بھی ایک بار سرعام پھانسی دیکھ لے گا تو وہ جرم کرتے وقت سوچے گا ضرور، جہاں سرعام پھانسی کا قانون نافذ ہے وہاں پر جرائم کی شرح کم ہے۔ کافی لفاظی کے بعد بالآخر ایوان نے اس بل کو بھی کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ یہ ہے ہمارے ایوان نمائندگان کی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت کا اظہار اور اب آتے ہیں آزاد عدلیہ کی طرف کیونکہ آج ہماری عدلیہ جتنی آزاد ہے پہلے نہ تھی اسلام نے عورت کو جتنا تحفظ اور حقوق دیے ہیں۔ آج کی مغرب زدہ عورت اسے نا کافی سمجھتی ہے چنانچہ وہ نئے قسم کے حقوق حاصل کرنے کے لیے مارچ کرتی نظرآتی ہے جس کا سلوگن ہے میرا جسم میری مرضی جو ایک اسلامی معاشرے پر بدنماداغ ہے ایک شہری نے لاہور ہائی کورٹ میں عورت مارچ پر پابندی کی درخواست دائر کی تو اسے مسترد کر دیا کہ جب عدلیہ آزاد ہے تو عورت کی آزادی پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق اب بچوں کا ڈبوں کا دودھ بغیر ڈاکٹری نسخے کے نہیں دیا جائے گا اگرچہ یہ فیصلہ درست ہے مگر بہت تاخیر ہو گئی اب تو ہیومین ملک بینک کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے اس کے ساتھ ہی حلالہ سینٹر بھی کھل گئے ہیں اگر چہ یہ دونوں کاروبار شرعی اور قانونی طور پر ممنوع ہیں مگر پھر بھی بڑے بڑوں کی سرپرستی میں یہ کاروبار در پردہ چل ہی رہے ہوں گے یہ تمام حقائق بتاتے ہیں کہ اسلام کو اسلام آباد میں آباد ہونے سے روکنے کے لیے کنٹینر لگا رکھے ہیں جبکہ جمہوریت بھی بچہ جمہورہ بن چکی ہے یہ سب مغرب کی چالیں ہیں مگر ان سب کے باوجود بھی ایک دن یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بن کر رہے گا کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قائم ہی رہے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ پاکستان سرعام پھانسی اللہ تعالی کے مطابق کے ساتھ کر دیا ہے اور

پڑھیں:

جماعت اسلامی پیکا ایکٹ کی مذمت صحافی برادری کے ساتھ ہے،جاوید قصوری

لاہور (وقائع نگارخصوصی) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش ہے، اس ایکٹ کے نفاذ پر حکومت کے اتحادی بھی خوش نظر نہیں آتے۔ جماعت اسلامی اس قانون کو مسترد کرتی ہے اور صحافی برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔ملک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نا کرنے اور مسلسل کھوکھلے اعلانات کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی اپیل پر31جنوری کو لاہور سمیت پورے صوبے میں بھر پور احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی چپقلش اور انتقامی سیاست کو دفن کئے بغیر ملک و قوم کو آگے لے کر نہیں چلا جا سکتا، اس کا خمیازہ قوم نے بھگت لیا ہے۔ہمارے ہمسایہ ممالک ترقی و خوشحالی میں آگے نکل چکے ہیں، پاکستان جنوبی ایشیاء کا سب سے مہنگا ترین ملک بن چکا ہے۔ادارے تباہ اور کرپشن نے نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی میں سب ملک کر اپنا مثبت کر دار ادا کریں۔ کوئی بھی چیز پاکستان کی سلامتی سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔باہمی اختلافات کو ختم کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ محمدجاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ مفادات کی سیاست نے ملک و قوم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ظلم و ستم کے اس نظام نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ مافیا ز نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ملک و قوم کو انتشار، سیاسی عدم استحکام اورانارکی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور پاکستان کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک کوئی سقوط نہیں ہوگا؛ سیکرٹری جماعت اسلامی
  • جمہوریہ کانگو میں پھنسے 75 پاکستانی روانڈا منتقل
  • جماعت اسلامی پیکا ایکٹ کی مذمت صحافی برادری کے ساتھ ہے،جاوید قصوری
  • پھانسی سے 24گھنٹے قبل 2دوست قیدیوں کومعافی مل گئی
  • جماعت اسلامی والوں کو اللّٰہ ہی ہدایت دے، ورنہ وہ ہدایت سے بالاتر ہیں، میئر کراچی
  • جماعت اسلامی کامقصد الیکشن نہیں اقامت دین کی جدوجہد ہے
  • اسلام آباد: سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق فرینڈز آف فلسطین کے ڈائریکٹر بلال اسطل سے ملاقات کررہے ہیں
  • صکوک کا پائیدار معاشی ترقی میں اہم کردار ہے
  • کعبے میں ولادت۔۔۔۔ فضیلت کے مقابلے میں افسانہ