کوئٹہ(نمائندہ جسارت)نائب ا میر جماعت اسلامی بلوچستان کے نائب امیر زاہدا ختر بلوچ نے کہاکہ عوام وسچ کی آوازدبانے کیلئے حکمرانوں نے پیکا جیسا کالا قانون لایا ہے جس کی مذمت کرتے ہیں ۔جو حکومت کے غلط کاموں پرآوازاُٹھائیگا اس کے خلاف پیکا جیساقانون حرکت میں آئیگاحکومت عوام کی آنکھوں میں پٹی باندھ رہے ہیں جماعت اسلامی ہر ظلم کے خلاف ہر مظلوم کیساتھ ہے ۔ان خیالات کااظہارانہوں نے جماعت اسلامی کے دفتر میں وفدسے ملاقات اور اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے حقوق کے حصول ،امن وکاروبارکی بحالی ،بارڈڑبندش ،لاپتا افرادکی بازیابی ،ترقی اورخوشحالی کیلئے حقوق بلوچستان مہم کی کامیابی بہت ضروری ہے بلوچستان کے حالات خراب ،بے روزگاری ،بدامنی عام بارڈربند کاروبار ومعیشت تباہ ہے حکومت واداروں کی طرف سے زیادتیاں ہورہی ہے حق دوبلوچستان مہم کو سعت دیکر مسائل کو اجاگراورحل کی بھرپور کوشش کریں گے بلوچستان کے مسائل وک قومی سطح پر اجاگراور حل کیلئے حق دوبلوچستان مہم کو آگے لیکر جائیں گے لاپتہ افراد ہمارا جماعت اسلامی کا بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے ہم نے نظام کی تبدیلی کیلئے بڑی لڑائی لڑنی ہے جماعت اسلامی اپنے لہجے کو تلخ نہیں کریں گے ۔حکمران وادارے بلوچستان کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دارہیں بلوچستان کے ساتھ مظالم بند ہونا چاہیے وسائل بلوچستان کے عوام پرخرچ کرنے کی ضرورت ہے بلوچستان کے جگر گوشوں کو منظرعام پر لاکر ان کے خاندان کے حوالے کیے جائیں اگر مجرم ہیں توقانون کے حوالے کیا جائے سرمایہ کاری میں مقامی لوگوں کو ترجیح دینی چاہیے وسائل ،روزگار ،ترقی میں اگر مقامی لوگوں کو شامل نہیں کریں گے تویہ بہت بڑی زیادتی اورناانصافی ہوگی ۔جماعت اسلامی ہر مقام پر اہل بلوچستان کی ترجمانی کررہی ہے ۔بلوچستان کے عوام نمسائل کے حل کے لیے ہماری طرف توجہ کریں ان شاء اللہ مسائل سے نجات دلاکر رہیں گے ارکان وکارکنان اورعوام جماعت اسلامی کیساتھ مالی تعاون کریں وقت وصلاحیت جماعت اسلامی میں خرچ کریں جماعت اسلامی اپنی مالیات کے نظام کو مستحکم بنائیں کارکن وقت صلاحیت اورمالی تعاون کو یقینی بناکر زکوٰۃ وصدقات جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کریں ۔تعلق باللہ پیدا کرکے تذکیہ کیساتھ صلاحیتیوں میں نکارپیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی بلوچستان کے

پڑھیں:

بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت ،بات چیت،سیاسی جدوجہد اور آئینی مزاحمت ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت، بات چیت، سیاسی جدوجہد اور آئینی مزاحمت ہے‘ جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، حقیقی سیاسی نمائندگان اور ناراض شہریوں کیساتھ مذاکرات کرنے ہوںگے ‘حکومت دہشت گردی کیخلاف اپنے سیکورٹی اداروں کی مہارت کو بڑھائے‘مسئلے کو ایک ایس ایچ او کی مارقراردیا جار ہاہے‘جنرل ایوب خان کے دور سے لے کرآج تک بلوچستان میں ظلم وجبر کا نظام قائم ہے۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن بلوچ، جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور معروف ماہر توانائی انجینئر سید فراست شاہ اور سینئر صحافی، تجزیہ کار، مصنفہ اور ٹیلی ویژن اینکر نسیم زہرہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا بلوچستان کے سلگتے مسائل کا کوئی حل ہے؟‘‘ ہدایت الرحمن بلوچ کا کہنا ہے کہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بلوچستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دینے ہوں گے‘ بلوچستان کے عوام کو عزت اور ان کے حقوق دیے جائیں تو یہ اور زیادہ محب وطن ثابت ہوں گے‘ جنرل ایوب خان کے دور سے لے کرآج تک
بلوچستان میں جبر و ظلم کا نظام قائم ہے‘ بلوچستان کا میڈیا بھی آزاد نہیں ہے جس کے باعث بلوچستان کے مسائل اور گمنام اموات کا پتا تک نہیں ہے‘یہاں کے عوام کے بارے میں پورے پاکستان میں غلط تاثر پھیلایا گیا ہے‘ قائد اعظم کے سر پر جناح کیپ کسی اور نے نہیں وہ بلوچستان کے عوام نے پہنایا تھا‘ بانی پاکستان قائد اعظم کو بلوچستان کے عوام نے سونے میں تولہ اور انہیں عزت دی‘ جنرل ایوب نے اپنی طاقت کے زور پر بلوچستان کے عوام کو شرپسند قراردیا‘ جنرل پرویز مشرف نے بھی مکا لہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چند سرداروں کا مسئلہ ہے اور وہاں آگ اور خون سے کھیلا گیا‘ حکمران مختلف بہانے سے بلوچ عوام کو دھوکا دیتے رہے‘ آج کے حکمران بھی کہتے ہیں کہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ‘ تکبر اور غرور کرنے والوں نے بہت ساری بیویوں کو بیوہ کیا اور بچوں کو یتیم کیا‘ آج بلوچستان جل رہا ہے۔ ایف سی کے اہلکار گھروں میں آکر مائوں کی عزت نہیں کرتے جس کے باعث نوجوان پہاڑوں پر جاکر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں‘ ہم نے مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری راستہ اختیار کیا ہے‘ بلوچستان کو لینڈ مافیا، کرپٹ بیوروکریسی اور ظالم جاگیرداروں و سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے‘ ہم بلوچستان میں دن میں 5 دفعہ اپنی شناخت کرواتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوگا جب تک چادر اورچار دیواری کا تقدس پامال کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوگا‘ اسلام آباد کے حکمران بلوچستان کے ساتھ وہی رویے رکھتے ہیں جو مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ رکھا گیا تھا‘ بلوچستان کا سونا، چاندی، سوئی گیس، کوئلہ یہاں کے عوام کو ملنا چاہیے‘ بلوچستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کی مائوں کو عزت دی جائے، نوجوانوں کو بازیاب کروایا جائے‘ مائیں پکار رہی ہیں کہ ہمیں ہمارے بچے دے دیں‘ حکمران سن لیں! اگر وہ بندوق اور طاقت کے زور پر ملک میں استحکام چاہتے ہیں تو یاد رکھیں، طاقت کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے‘ بلوچستان ہمارا ہے، بندوق والوں کا نہیں، بلوچستان کو ہم خود سنبھالیں گے‘ جماعت اسلامی کی بلوچستان کے حقو ق کے حصول کے لیے جدوجہد قابل تعریف وقابل تقلید ہے‘ بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت بات چیت اور سیاسی جدوجہد وآئینی مزاحمت ہے‘ بلوچستان کو لاوارث سمجھ کر وسائل کو ہڑپ کیے جا رہے ہیں‘ بلوچستان کے ولی وارث ہم ہیں‘ اہل بلوچستان وسائل کی حفاظت اور حقوق کے حصول کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں‘ جماعت اسلامی مشاورت سے اہل بلوچستان کے حقوق کے حصول اور ان کے وسائل کی حفاظت کر رہی ہے‘ لوٹ مار، بے روزگاری، بارڈر بندش و دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے حقوق بلوچستان مہم چلا ر ہی ہے۔ سید فراست شاہ نے کہا کہ قدرت نے بلوچستان کو سونا، چاندی، گیس، تیل، پیڑول، ڈیزل، کوئلہ و دیگر معدنیات سے نوازا ہے‘ ذخائر اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم اپنی خود کفالت کا سفر بڑی آسانی سے طے کر سکتے ہیں‘ یہ صوبہ پاکستان کے علاقائی اور عالمی تجارت کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے‘ بلوچستان کے قدرتی وسائل جن میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر شامل ہیں، عالمی سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں‘ بلوچستان کی زراعت اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہیں، یہاں اعلیٰ معیار کی کھجور، سیب، انار اور انگور کی پیداوار ہوتی ہے‘ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ بلوچستان کے نوجوان ہیں جو پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہیں‘ نوجوان بہت ہی ہنر مند اور پڑھے لکھے ہیں‘ بد قسمتی سے باصلاحیت بلوچستان کے عوام کو اوپر کی سطح پر نہیں لایا جاتا‘ ہمارے ملک کا گلہ سڑا نظام ہے جس کے باعث بلوچستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو ضائع کیا جا رہا ہے‘ بلوچستان میں منرل ڈیولپمنٹ کے حوالے سے بہت سارے مواقع موجود ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں کام نہیں کرنے دیا جاتا‘ 1950ء میں صوبے میں گیس دریافت ہوئی جو تمام صوبہ جات میں تقسیم ہوتی ہے لیکن خود بلوچستان کے عوام کو گیس فراہم نہیں کی جاتی‘ اگر پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی مشکل ہے تو اب نئی ٹیکنالوجی کے بعد ٹرکوں کے ذریعے ایل پی جی گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں امن چین اور سدھار لانے کے لیے ان کو ان کے آئینی حقوق دینے ہوں گے‘ ریاست سے اعتماد کا رشتہ لازم ہے‘ اعتماد یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہی ہوتا ہے‘ گزرے ہوئے کل سے سیکھنا ہے ناکہ ماضی کی غلطیوں میں ڈوب جانا ہے‘ صحیح سمت میں بڑھنے اور مثبت عوام دوست نتائج حاصل کرنے کے لیے اور آئینی طرز کو اپنانے کے لیے بلوچستان میں 3 فوری اقدامات لازم ہیں۔ نمبر ایک جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، دو حقیقی سیاسی نمائندگی اور تین بلوچستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ کی ڈائیلاگ کی شروعات ہے۔ بس یہی ایک طریقہ ہے بلوچستان میں بگاڑ کو ختم کرنے کا اور اسی طریقے سے بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے‘ سیکورٹی کے معاملات بھی نہایت اہم ہیں‘ دہشت گردی کو روکنا، پاکستان کا خارجی دیرینہ دشمن قوتوں سے نمٹنا، اس کے لیے پاکستان کو اپنی انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کی مہارت کو بڑھانا ہے۔ نیشنل پلان آف ایکشن کو متحرک کرنا ہے‘ بلوچستان کو سیاسی طور پر حقیقی جمہوریت کی ڈگر پر ڈالنا ہے‘ اگر حکومت عزم دکھائے تو بلوچستان کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں‘ حالات کو سلجھانے کی خواہش تو پاکستان میں ہر دور میں پائی گئی۔ سوال البتہ ہمیشہ بگڑے ہوئے حالات میں ابھرتے ہوئے معاملات اور مشکلات کو حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھنے اور پھر سلجھانے کے لیے حکومت کی حکمت اور فراست کا ہوتا ہے۔ اس فہم کے بغیر نہ ریاستی طاقت اور نہ سیاسی جوڑ توڑ کسی بھی ملک کو سنبھال پاتے ہیں‘ مسئلہ نیتوں کا نہیں، سمجھ اور اہلیت کا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 نافذ، گزٹ نوٹیفکیشن جاری
  • بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت ،بات چیت،سیاسی جدوجہد اور آئینی مزاحمت ہے
  • کھیل و تفریح کیلیے مناسب انتظامات عوام کا حق ہے،نصرت مسعود
  • جماعت اسلامی پیکا ترامیم قانون سازی کیخلاف صحافیوں کیساتھ ہے: لیاقت بلوچ
  • پیکا ایکٹ آزادی اظہار پر حملہ اور عوام کی آواز دبانے کا ہتھکنڈا ہے، حافظ نعیم
  • بدین/ میرپورخاص/ ٹنڈو جام: پیکا قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج
  • پیکا قانون مسترد کرتے ہیں، احتجاج سے روکا تو مزاحمت کریں گے: حافظ نعیم 
  • پی ایف یو جے، پی یو جے اور دیگر صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ مسترد کر دیا
  • عوامی مسائل حل کرنے کیلیے کوشاں ہیں، عاشق زرداری