پیکاآرڈیننس آمریتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے ،ذوالفقارسولنگی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
سہون (نمائندہ جسارت) پیکا آرڈیننس آمریتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے میڈیا پر کالا قانون تھوپ کر عوامی حقوق غضب کرنے کی مذموم حرکت ہے صحافی برادری صحافت پر قد غن لگنے نہیںدے گی۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب سہون کے صدر ذوالفقار علی سولنگی نے صحافیون کی طرف سے احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تفصیلات کے مطابق ملک بھر کی صحافتی تنظیمون کی طرف سے پیکا آرڈیننس کے خلاف مقامی صحافی برادری سراپا احتجاج بن گئی۔ نیشنل پریس کلب سہون کے صحافیوں نے پریس کلب سے دھمال چوک تک احتجاجی ریلی نکالی، جس میں شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر صحافی دشمن کالے قانون کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ریلی کی قیادت نیشنل پریس کلب سہون کے صدر ذوالفقار سولنگی کر رہے تھے۔ ریلی میں سینئر صحافی غلام یاسین انصاری،حسین بخش ڈاہری ،نصراللہ انصاری، اشرف ہاتار، عارف میمن، شمس میمن سمیت روز نامہ ہلچل کے ایگزیکیٹو ایڈیٹر فہیم لطیف مہر ٹی وی اور اسٹیج کے ممتاز آرٹسٹ عبداللہ ملاح عرف موالی، قربان بھٹی، فیاض سولنگی، اعجاز سولنگی، علی بخش سولنگی، اختر علی، احمد علی سولنگی، دانش علیاور ایاز علی و دیگر نے شرکت کی۔اس موقع پر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صحافی رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت پیکا آرڈیننس کے نام پر صحافت پر قدغن لگا رہی ہے، جو آزادی اظہار پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے معلومات تک رسائی اور بنیادی انسانی حقوق شدید متاثر ہوں گے، جو باعثِ تشویش ہے۔ مقررین نے کہا کہ آزادی اظہار پر پابندی کو وہ انصاف کا قتل سمجھتے ہیں، کیونکہ اگر آزادی اظہار نہیں ہوگی تو جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوں گے اور نہ ہی ریاست ترقی کر سکے گی۔صحافی رہنماؤں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافت پر حملہ آور اس کالے قانون، پیکا ایکٹ، کو فوری طور پر واپس لیا جائے تاکہ صحافی برادری میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہو۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا رڈیننس پریس کلب پیکا ا
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کا صحافی کا شناختی کارڈ منسوخ کرنے پر وزارت داخلہ کو 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اپریل2025ء) لاہور ہائیکورٹ نے صحافی درے خان کا شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے خلاف کیس میں وزارت داخلہ کو اپیل پر 30 دن میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا اور اس دوران درخواست گزار کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔(جاری ہے)
جسٹس مزمل اختر شبیر نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل چودھری شعیب سلیم نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کا والد 1978 سے قبل پاکستانی شہری تھا، وہ پاکستان میں پیدا ہوا، ڈسکہ پریس کلب کا رکن اور ٹیکس دہندہ ہے۔ سول عدالت بھی اسے پاکستانی قرار دے چکی ہے مگر نادرا نے شناختی کارڈ منسوخ کر دیا۔