اسلام آباد:

پاکستان کو کاربن نیوٹرل انرجی سیکٹر کے حصول کیلیے رینیوایبل انرجی کی جانب پالیسی شفٹ کیلیے 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔

کلائمیٹ منسٹری کے حکام نے یہ معلومات سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کو بریفنگ دیتے ہوئے ظاہر کیں، حکام نے کہا کہ 2030 تک قابل تجدید توانائی کا 60 فیصد ہدف حاصل کرنے کیلیے 50 ارب ڈالر درکار ہونگے۔

نیکا پلان (2023-2030) پر مکمل عملدرآمد کیلیے 18 ارب ڈالر درکار ہیں، ان منصوبوں پر عملدرآمد اور اہداف کے حصول کیلیے گلوبل انوائنمنٹل فیسلیٹی اور دی گرین کلائمیٹ فنڈ کا کردار انتہائی اہم ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی، جس کی صدارت شیری رحمان نے کی، کو وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی پر بریفنگ دی۔

موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے سیکریٹری نے اس بات پر زور دیا کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کرانا بہت ضروری ہے۔

سیکریٹری نے بتایا کہ ملک میں 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے کے لیے پرعزم ہیں، تاہم، کمیٹی چیئرپرسن نے نوٹ کیا کہ دیگر ذرائع سے آلودگی گاڑیوں کے اخراج سے زیادہ ماحول میں پھیل رہی ہے، وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نے الیکٹرک وہیکل پالیسی پر اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

کمیٹی کی چیئرپرسن شیری رحمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ حکام کو مقامی ای وی مینوفیکچررز کی صحیح تعداد کا بھی علم نہیں ہے، انھوں نے وزارت صنعت و پیداوار کو ای وی پالیسی کے حوالے سے تیاری کی کمی اور ناکافی ردعمل پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

چیئرپرسن نے افسران سے سوال کیا کہ وہ بغیر کسی واضح حکمت عملی کے الیکٹرک گاڑیوں کو چلانے کا منصوبہ کیسے بناتے ہیں۔

انھوں نے بغیر تیاری کے اجلاس میں شرکت کرنے اور عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہنے پر ان کی سرزنش کی۔

شیری رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ کے ضوابط میں ترمیم کر کے سولرائزیشن کو نہیں روک سکتی اور وزارت موسمیاتی تبدیلی پر زور دیا کہ وہ ایسی کسی بھی پالیسی کی مخالفت کرے جو صارفین کو شمسی توانائی کو اپنانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہو۔

وفاقی وزیر اویس لغاری نے زور دے کر کہا کہ ملک میں شمسی انقلاب پہلے ہی چل رہا ہے، انھوں نے کمیٹی کو یاد دلایا کہ انھوں نے 2017 میں نیٹ میٹرنگ کے ضوابط متعارف کرائے تھے اور یقین دلایا کہ سولرائزیشن کی حوصلہ شکنی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

سینیٹر زرقا تیمور نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹرانسمیشن کے نقصانات کو کم کرے اور اس بات پر زور دیا کہ نیٹ میٹرنگ کے تحت ہونے والے معاہدوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔

وزیر توانائی نے خبردار کیا کہ اگر ضوابط کو تبدیل نہ کیا گیا تو دیگر صارفین پر 103 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا، وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزارت توانائی نے 2030 تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی کا ہدف مقرر کیا ہے، پائیدار ترقی کے لیے اس ہدف کو حاصل کرنا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پر زور دیا کہ انھوں نے ارب ڈالر حکام نے کے لیے

پڑھیں:

مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی،شرح سود میں مزید کمی کا اعلان ،12فیصد مقرر

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں کمی کا اعلان کردیا گیا ہے جب کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ افراط زر میں آنے والے مہینوں میں اضافہ ہوگا۔گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے شرح سود کو ایک فی صد کم کرکے 13 سے 12 فی صد مقرر کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی ڈیٹا میں کافی مثبت ٹرینڈ ہیں، تاہم افراط زر اور کرنٹ اکانٹ بیلنس پر بہت دبا تھا ۔ افراط زر اور کرنٹ اکائونٹ میں کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ افراط زر کچھ ماہ میں بہت تیزی سے کم ہوا ہے ۔ مئی 2023 میں 38 فیصد رہا اور گزشتہ ماہ 4.1 فیصد پر آگیا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ جنوری کا افراط زر دسمبر سے بھی کم رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 6ماہ کا کرنٹ اکائونٹ 1.2 ارب ڈالر سرپلس رہا، اس سے قبل 4.1 ارب ڈالر کا خسارہ رہا تھا۔ ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کا موقع ملا اور ہماری توقعات سے زیادہ استحکام آیا۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ میں مداخلت کا موقع مل رہا تھا ۔ سرکاری ذخائر پلان سے کچھ کم رہے جب کہ فارورڈ بک کو مارکیٹ میں مداخلت سے کم کیا۔گورنر اسٹیٹ بینک کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ مالی سال کے اختتام تک افراط زر کی شرح 7 فیصد سے اوپر رہے گی۔ اس بنیاد پر افراط زر کے اہداف میں بھی تبدیلی آئے گی۔ رئیل انٹرسٹ ریٹ بھی اس سطح پر نہیں رہے گا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ان عوامل کی وجہ سے محتاط ہوکر فیصلہ کیا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے آئندہ 6 ماہ کا تخمینہ بتاتے ہوئے کہا کہ افراط زر کا تخمینہ جولائی میں 11.5 سے 13.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا تھا ۔ شرح مبادلہ تیل کی قیمت انٹرنیشنل کموڈیٹی قیمتوں میں کمی سے افراط زر تیزی سے کم ہوا۔رواں مالی سال افراط زر 5.5 سے 7.5 فیصد رہے گا اور اہم اشاریہ اس سال کا کرنٹ اکانٹ بیلنس ہوگا ۔انہوں نے بتایا کہ جولائی میں 0 فیصد سے ایک فیصد تک جی ڈی پی خسارے کا تخمینہ لگایا تھا ۔ 6ماہ میں مثبت پیش رفت سے پورے سال کا کرنٹ اکائونٹ بیلنس 0.5 فیصد خسارے سے 0.5 فیصد سرپلس کے درمیان رہے گا۔ اسی طرح معاشی ترقی کی شرح نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔ معاشی ترقی کی شرح نمو رواں مالی سال 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں زرعی نمو کم رہی ۔ اس سال پہلی سہ ماہی ایک فیصد، گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 8 فیصد رہی تھی۔ معاشی سرگرمیاں بہتر ہورہی ہیں۔ تیل مصنوعات کی کھپت بڑھ رہی ہے ۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پالیسی ریٹ کو 6، 7 ماہ میں 10 فیصد کم کیا گیا ہے۔ اس کا اثر آہستہ آہستہ معیشت پر آئے گا ۔ معاشی سرگرمیاں مزید تیز ہوں گی اور زرمبادلہ کے ذخائر جون آخر تک 13 ارب ڈالر سے زائد ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ جنوری میں زرمبادلہ پر دبا آیا اور کمی ہوئی۔ آگے چل کر یہ دبا مزید کم ہوگا اور 13 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کریں گے۔ دسمبر جنوری میں بھاری مالیت کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی گئی ہے۔ فارن انفلوز توقع سے کم رہے، تاہم دوسری ششماہی میں فارن انفلوز بڑھنے کی توقع ہے۔انہوں نے بتایا کہ افراط زر کا منظر نامہ بہتر ہوا ہے ۔ کرنٹ اکانٹ بیلنس بھی سرپلس ہوسکتا ہے۔ پورے سال کے قرضوں کی ادائیگی 26.1 ارب ڈالر کرنی ہے۔ رول اوور پر اتفاق کیا گیا، جن کی مالیت 12.3
ارب ڈالر ہے ، مجموعی 16 ارب ڈالر یا تو رول اوور ہوں گے یا ری پے ہو جائیں گے۔ باقی 10 سے 10.1 ارب ڈالر میں سے 6.4 ارب ڈالر ادا کرچکے ہیں اور باقی قرضہ 3.6 سے 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگیاں 6ماہ میں کرنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو تہائی بیرونی قرضہ ادا کردیا ہے، جس سے بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ ادا ہوگیا ہے۔ قرضوں کا تناسب بڑھ نہیں رہا ۔ ملٹی لیٹرل انفلوز بھی آنے ہیں۔ 2.3 سے 2.4 ارب ڈالر دسمبر جنوری میں ادا کیا گیا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے بعد بھی ذخائر میں 700 سے 800 ملین ڈالر کی کمی آئی ہے۔ بیرونی اکانٹ کی صورتحال تسلی بخش ہے، امید ہے آئندہ بھی بہتر رہے گی۔گورنر اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران زرمبادلہ کی ادائیگیاں بروقت ہوتی رہیں ۔ دستاویزی عمل کے تقاضے پورے نہ ہونے سے کوئی تاخیر ہوسکتی ہے۔ بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ دستاویزی عمل پوری ہونے پر فوری ادائیگیاں کریں۔ 331ملین ڈالر سے بیرونی ادائیگیوں کا حجم 2.2 ارب ڈالر پر آگیا ۔ رواں مالی سال پہلے 6ماہ میں 1.2 ارب ڈالر بیرون ملک بھجوائے جاچکے ہیں۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہم نہیں چاہتے کہ ماضی کی طرح مسائل ہوں، اس لیے موثر مانیٹرنگ کررہے ہیں۔پاکستان کے مالیاتی نظام میں کوئی ٹرائیکا نہیں ہے۔ حکومت، اسٹیٹ بینک اور مارکیٹ 3 پلیئرز ہیں ۔یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک اس سے قبل 5 جائزوں میں تسلسل کے ساتھ شرح سود میں 9 فیصد کمی لاچکا ہے ۔ قبل ازیں جون 2024میں شرح سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان 2030ء تک 60 فیصد قابلِ تجدید توانائی کا ہدف رکھتا ہے، سینیٹر شیری رحمٰن
  • معدنیات، توانائی اور ریئل اسٹیٹ میں اربوں ڈالر لگانا چاہتے ہیں، امریکی سرمایہ کاری
  • سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس، الیکٹرک وہیکل پالیسی پر حکام کی سرزنش
  • لائنز ایریا میں علاقائی سطح پر کمیٹی تشکیل دی جا ئے‘ایس ایس پی ایسٹ
  • پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 2030ء تک 348 ارب ڈالر درکار ہیں، محمد اورنگزیب
  • پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 2030 تک 348 ارب ڈالر درکار ہیں، وزیرخزانہ
  • حب پمپنگ سٹیشن،کے الیکٹرک پرسالانہ مرمتی پر کام شروع کردیا گیا
  • شرح سود میں ایک فیصد کمی کا اعلان ،تاجر برادری نے مسترد کردیا
  • مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی،شرح سود میں مزید کمی کا اعلان ،12فیصد مقرر